معصوم وزیراعلیٰ پنجاب کی بیداری تک۔۔۔۔۔

جمعہ 29 مئی 2015

Aamir Khan

عامر خان

پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے اخبار میں آج کل ہمارے پنجاب کے وزیراعلیٰ صاحب نظر آئیں گے عطائی ڈاکٹروں کے خلاف مہم کا آغازاورلاکھوں بلکہ کروڑوں روپے سے بھی زیادہ مالیت کے اشتہاروں میں اپنی مسکراتی تصویر کے ساتھ عوام کے سر پر ایک نیا احسان کر دیا گیا ہے ۔میرے وزیراعلیٰ صاحب تو معصوم انسان ان کے خادموں میں کو ئی عقل مند انسان نہیں جو ان کو اس مذاق سے روک سکتا اُن کو بتا سکتا کہ عطائی ڈاکٹر کون ساچور ڈاکو یا منشیات فروش ہیں کہ وہ چھپ کر یہ کام کریں گے ہر محلے کی ہر گلی کی نکڑ پر عطائی موجودہیں کس چیز کی اطلاع دیں کہ کے ہیلتھ کےئرکا سٹاف یا ڈرگ انسپکٹر منتھلی لے گیا کے نہیں کون نہیں جانتا ان عطائی ڈاکٹروں کو کھلم کھلا یہ کام ہوتا معصوم وزیراعلیٰ صاحب آپ اتنے لاعلم ہیں آپ کو توپھر یہ بھی نہیں پتا ہو گا عطائی کہا کس کو جاتا ہے اس کا الگ سے کمیشن بنا دیں جو آپ کو بتا سکے عطائی کون ہیں کہا ں سے آتے ہیں ۔

(جاری ہے)


آپ کس قانون کے تحت اُن کو پکڑ یں گے ہر ڈاکٹر کے پاس ڈگری ہے جی ہاں وزیر اعلیٰ صاحب ڈگری کی ہی بات کررہا ہوں ڈگری بھی جعلی نہیں ہے میٹرک کے بعد کیسی بھی میڈیکل سٹور پر کھڑے ہو جائیں ساتھ چار سالہ ہومیو پیتھک کورس کے لیے میڈیکل کالج میں داخلہ بھیج دیں کالج جانے کی بھی ضرورت نہیں اور ہو میو ڈاکٹر کی ڈگری آپ کے پاس لو جی ڈاکٹر تیاراب یہ بھی بتا دو کہ ہومیو پیتھک میں ایمرجنسی شامل نہیں ہوتی ان کو ٹیکہ ،ڈرپ یا پٹی کرنے کی اجازت نہیں ہو تی پر حکومتی نااہلی یا آپ کے لوگوں کا معصوم پن ہے کہ ان ڈاکٹروں کا علاج ٹیکہ اور ڈرپ سے شروع ہو تا ہے اور انہیں کو ئی نہیں پوچھتا ۔


آج وزیراعلیٰ صاحب کی یہ خوش فہمی بھی دور کر دوں کے لوگ صرف ان عطائی ڈاکٹروں کے ہاتھوں نہیں مر رہے سرکاری ہسپتالوں میں تو جو ہوتا وہ کیسی سے چھپا نہیں ہے وہ فضول بحث ہے اُس کا آپ پر اثر نہیں ہو گا پر پرائیوٹ ہسپتالوں میں جو ہو رہا ہے وہ بھی دیکھ لیں۔
#ڈاکٹر صاحب 36 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی اپنے نجی ہسپتال نہ آسکے 14/15سا ل کی ایمن گردوں کے مرض میں مبتلا تھی ہرروز گردے واش کیے جاتے جھنگ کے سب سے بڑے اور مہنگے پرائیوٹ ہسپتال میں علاج جاری تھا ایک رات گردے واش ہوگے بچی کی حالت پہلے تو ٹھیک رہی پھراس کی ایک سائیڈ ہاتھ بازو اور ٹانگ کام نہیں کر رہی تھی اہلخانہ نے سٹاف سے کہا کے ڈاکٹر صاحب کو بلُالیں سٹاف کے کہنے پر جب ڈاکٹر صاحب نہ آسکے اہلخانہ نے ڈاکٹر کے نمبر پر خود کال کی ڈاکٹر صاحب 5 منٹ کا وعدہ کر کے ساری رات نہ آسکے رات گزر گی دن ہو گیا ڈاکٹر صاحب پھر نہ آسکے بچی کی حالت حد سے زیادہ خراب ہوئی توپھرڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا گیاڈاکٹر صاحب نہ کال پر ہی سرکاری ہسپتال جا کر ٹیسٹ کروانے کا حکم صادر کر دیا اہلخانہ اپنے پھول کے لیے جلدی سے سرکاری ہسپتال کی طرف بھاگے پر معصوم ایمن وفات پا گی میرے لیے یہ سب لکھنا اور آپ کے لیے پڑھنا آسان ہے ۔


میرے لیے حیران کن بات تھی کے ڈاکٹر صاحب اپنے ذاتی ہسپتال میں کیوں نہ آسکے یہ ڈاکٹر تو سرکاری ہسپتال سے زیادہ وقت اپنے ذاتی کلینک یا ہسپتال کو دیتے ہیں جب اُن ڈاکٹر صاحب کا پتا کیا گیا کہ وہ کیوں نہیں آسکے تو پتا چلاکہ ڈاکٹر صاحب ایک بہت بڑے سرکاری عہدے جھنگ ریسکیو 1122کے انچارج ہیں اور ذاتی ہسپتال کی ذمہ داری بھی ان کے نازک کندھوں پہ ہے ہم ہر جگہ سرکاری ہسپتالوں کا رونا روتے تونظر آتے ہیں پھر ہمارے ارد گر د سرکاری ہو پرائیوٹ ہو وہاں چار ٹانگوں والا ڈاکٹر موجود ہوتا جی ہاں وہ کبھی توبھاگتا سرکاری ہسپتال پہنچ جاتا کبھی اپنے ذاتی کلینک پیسوں کے لالچ اور سرکاری نوکری بچانے کے لیے علاج نہیں صرف اپنی جگہ پوری کرتے ہیں وزیراعلیٰ صاحب ان ڈاکٹروں کی کو ئی پالیسی بنا دیں یا تو یہ سرکاری ہسپتالوں میں وقت دے لیں یا اپنے کلینک کھول کے کیسی ایک جگہ تو انصاف سے کام کر لیں۔

وزیراعلیٰ صاحب اشتہاروں سے کیا ہو گا آ پ ہر علاقے میں ایک ڈاکٹر کے ساتھ سرکاری ڈسپنسری بنوا دیں لوگ پاگل ہیں جو پھر ان عطائی ڈاکٹر وں کے پاس جائیں گے ۔ وزیراعلیٰ صاحب جھنگ میں آپ کی پارٹی کا ایم پی اے اپنی بیٹی کے علاج کے لیے باہر کے ملک چلا جاتا تو یہاں کی فکر کس کو ہو گی آپ کی پارٹی آپ کے لوگ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو انسان نہیں بھی سمجھتے تو جانور سمجھ کر ہی ان کا کچھ خیال کر لیں جب یہاں ڈاکٹر ہیں ہی نہیں جو ہیں وہ شہروں تک ہی محدود ہیں دیہاتوں والے کہاں جائیں کرائیے بھر بھی لیں تو مہنگی دوائی کہاں سے لیں۔

وزیراعلیٰ صاحب پا کستان کے ایک متعبراخبار کی رپورٹ بھی سُن لیں پاکستاں میں 48فیصدلڑکے اورلڑکیاں مخص شوقیہ ڈاکٹرہیں خدمت کرنے والوں کی تعداد صرف 17فیصد ہے۔شوقیہ ڈاکٹر بنے والے دیہاتوں میں نوکری سے صاف انکار کر دیتے ہیں باقی شوقیہ ڈاکٹر روز ہڑتال مظاہروں سے حکومت کو تنگ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :