کرکٹ فوبیا، یا کھیل

ہفتہ 6 جون 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کی پاکستان آمد سے جہاں ہمیں کھیل کے میدان میں تازہ ہوا ملنے اک احساس ہوا وہیں دیگر ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے پاکستان کا دورہ کرنے کی راہ بھی ہموار ہوئی زمبابوئے کی ٹیم سخت زمینی اور فضائی سیکیورٹی میں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور فتح کا عزم لیے پاکستان آئی تھی ار اس نے شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ بھی کیا ۔

مہمان ٹیم کے آنے سے عالمی کرکٹ کے ترسے پاکستانی شائقین کی آنکھوں میں ایک بار پھرامید کے دیے جگمگانے لگے ہیں کہ کرکٹ کے میدان پھر سے آباد ہوں گے جو دہشت گردوں کی مذموم کاروائیوں کی وجہ سے ویران ہو گئے تھے۔پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے 2001 میں 9/11 کے بعد خطے کی خراب صورتحال اور کرکٹ میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے بعد سے ہی بند ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن اس پر کاری ضرب 2002 میں اس وقت لگی جب نیوزی لینڈ کی ٹیم دورے پر پاکستانی پہنچی۔

(جاری ہے)

لاہور ٹیسٹ میں انضمام الحق کی ٹرپل سنچری(جو 21ویں صدی میں کسی بلے باز کی پہلی ٹرپل سنچری بھی تھی) اور پاکستان کی بھاری مارجن سے فتح کے بعد دونوں ٹیمیں کراچی پہنچیں لیکن میچ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل نیوزی لینڈ ٹیم کے ہوٹل کے باہر دہشت گردوں کی جانب سے خوفناک دھماکے میں فرانسیسی انجینئرز سمیت کم از کم 14 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

اس دھماکے کے بعد کیوی ٹیم نے دورہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وطن کی راہ لی۔
لیکن 2009 میں سری لنکن ٹیم کا دورہ پاکستان ملک میں عالمی کرکٹ کے دروازے بند کرنے کا موجب بن گیا اور اس بار بھی آغاز ایک ٹرپل سنچری سے ہی ہوا۔پاکستانی ٹیم کے کپتان یونس خان نے کراچی ٹیسٹ میں ٹرپل سنچری اسکور کی اور بیٹنگ کے لیے سازگار پچ پر دونوں ٹیموں کے بلے بازوں نے بھرپور مشق کی جس کی وجہ سے میچ ڈرا پر منتج ہوا۔

اگلے ٹیسٹ میچ کے لیے سری لنکن ٹیم لاہور پہنچی لیکن کسے معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ایک بار پھر میچ کے آغاز سے چند گھنٹوں پہلے سانحہ رونما ہوا جو ملک پر کرکٹ کے دروازے بند کر گیا، المیہ یہ کہ جس ٹیم کو منت سماجت کر کے بلایا گیا اس کے سکیورٹی روٹ پر کوئی پولیس کی گاڑی تھی اور نہ اہلکار۔پھر ورلڈ کپ کی میزبانی ہاتھ سے گئی اور وہ جنہیں کرکٹ کھیلنا سکھائی، وہ بھی آنکھیں دکھانے لگے۔

بورڈ میں چیئرمین کی کرسی پر میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا جانے لگا اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ایک خواب بن گئی۔اس دوران پاکستانی ٹیم اپنی تمام ہوم سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلنے پر مجبور ہوئی اور بورڈ کو ٹی وی حقوق اور اضافی اخراجات کی مد میں کئیملین ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔بالاآخر شہریار خان کی بورڈ میں آمد ہوئی اور انہوں نے اپنی اعلیٰ سفارتی صلاحیتوں کو استعمال کر کے ناصرف ہندوستان سے بہتر کرکٹ تعلقات استور کیے بلکہ زمبابوے ٹیم کو بھی دورہ پاکستان پر رضامند کر لیا۔

ایک بار پھر غیر ملکی ٹیم کی آمد سے چند دن قبل دہشت گردی کی کارروائی سے دورے خطرے میں پڑ گیا لیکن بورڈ نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
گو کہ زمبابوئے کی ٹیم کا دورہ پاکستان کو بہت مہنگا پڑالیکن درحقیقت پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے لیے یہ بھی مہنگا سودا نہیں کیونکہ اگر چند ملین ڈالرز سے ملک میں کرکٹ کی رونقیں لوٹ سکتی ہیں تو یہ کسی طور پر مہنگا سودا نہیں گو کہ دشمنوں نے قدافی اسٹیڈم کے باہر دھماکہ کر کے سازش کی تھی کہ زمبابوئے کی ٹیم اپنا دورہ نامکمل کر کے واپس لوٹ جائے مگر حکومت اور انتظامیہ کی بہتر حکمت عملی کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

زمبابوے کی ٹیم کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں عالمی کرکٹ کے در کھل چکے ہیں لیکن یہ دروازے ہمیشہ کیلئے اسی وقت کھل سکتے ہیں اگر ہم ملک میں سیکیورٹی مسائل پر قابو پائیں۔
یہ تو خدا کا شکر ہوا کہ زمبابوئے کی ٹیم خیر و عافیت سے واپس روانہ ہوئی لیکن یہاں چند ایک سوال جن کے جواب ہمیں ڈھونڈنے چاہیں پر بات کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے ،پہلے نمبر تو ہم میڈیا کی بات کریں گے جس کی تربیت ناگزیر ہو چکی ہے۔

جب ملکی حالات ایسے ہوں کے خطرات کے سائے منڈلا رہے ہوں تو میڈیا کو ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرنی چاہیے۔ جبکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ میڈیا ایک ”بریکنگ نیوز“ کے چکر میں سیکورٹی کے پیمانوں کا خیال نہیں رکھتا جیسا کہ زمبابوئے کی ٹیم کی آمد و رفت کہاں ٹھرئے، کیا کھایا ،پہنا کہاں سے کب گزریں گے و غیرہ تمام جزیات سمیت رپورٹ کرتا رہا جسے کم سے کم الفاظ میں نامناسب رپورٹنگ کہا جاسکتا ہے۔

دوسری بات سییکورٹی کے نام پر حکومتی اداروں نے جو ہا ہا کار مچائی کرفیو کا سمان پیدا کیے رکھا یہ طریقہ کار بھی سیکورٹی کے اصولوں کے منافی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ حکومت کے انتظامی امور اس طرح کے ہونے چاہیے جس میں سیکورٹی کے نام پر رسک پیدا نہیں کیا جانا چاہے بلکہ اگر سیکورٹی کے معاملات کو نارمل رکھا جاتا تو شائد اتنا پینک کبھی نہ پھیلتا جتنا اس بار پھیلایا گیا لوگوں کی آمد و رفت کے راستے گھنٹوں بند کئے گئے۔

جبکہ کرکٹ کے شائقین سخت سیکورٹی کے مراحل سے توہین آمیز سلوک سے گزرنے کے ڈر سے کھیل دیکھنے سے بھی محروم رہے انہوں نے اپنا یہ شوق ٹی وی دیکھ کر پورا کیا۔
حکومت کو سیکورٹی کے نام پر افرا تفری پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ انتظامیہ کی تربیت اعلی اور جدید طریقے سے کی جائے اگر ایسا ہو جائے تو چند افراد بھی سیکورٹی کے امور احسن طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں ایسا ہونے سے حکومت کو ہجوم کی صورت پولیس تعینات کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ”ہجوم “بذات خود ایک مسلہ ہوتا ہے۔

تیسری بات کبھی کبھار کھیل کے نام پر پینک پیدا کرنے کی بجائے کھیلوں کے فروغ کے لئے کام کرتے ہوئے ہر روز ہر شہر میں کھیلوں کے میدانوں کو ہر طرح کی کھیلوں سے سجایا جائے صرف کرکٹ کی سر پرستی کر کے ہم نواجون قومی سرمائے کی حق تلفی کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں جبکہ اگر کھیلوں کے میدان آباد ہوں تو دہشت گردی جیسے عفریت کو اپنی شکست خود ہی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔

ہمارا نوجوان جو ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد بتایا جاتا ہے وہ اس وقت ڈائریکشن لیس ہے کبھی وہ ون ویلنگ کے زریعے اپنے کھیل کا شوق پورا کرتا ہے تو کبھی کسی اور نامناسب طریقے سے یہی اگر حکومت کھیلوں کے میدانوں کو آباد کرے جو یا تو بنجر ہو چکے ہیں یا ان پر قبضہ ہو چکا ہے تو ہم ایک اچھی تحمل اور روادری اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والی قوم بن کر دہشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :