نیکیوں کا موسم

ہفتہ 20 جون 2015

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

الله کے خصوصی فضل کرم سے آج ایک دفعہ پھر نیکیوں کا موسم بہار رمضان المبارک سایہ فگن ہے۔ رحمتوں برکتوں کے مہینے کو غم خواری کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا گیا یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جس نے اس مبارک ماہ میں روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
نبی مہرباںﷺ نے فرمایا رمضان میں آدمی کے ہر عمل میں 10گنا سے 700گنا تک ثواب بڑھا دیا جاتا ہے رب کریم خود فرماتے ہیں۔

روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں خود ہی دوں گا۔
روزے کا مقصد آدمی کو اسی کی اطاعت کی تربیت دنیا ہے ۔روزہ انسان کی فرماں برادریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے۔روزہ ارکان اسلام کا اہم رکن ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت جو بیان کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

روزہ تبدیلی کا بہترین ذریعہ ہے فرمایا گیا رمضان المبارک کے روزے پرہیز گاری کا سنہری موقع قرار دیا گیا ہے ۔

روزہ کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور تقویٰ انسان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
فرمایا گیا روزہ تقویٰ کا سب سے بڑا سبب ہے اس لئے کہ روزے میں الله تعالیٰ کے حکم کی کامل اطاعت اور اس کی نہی سے مکمل اجتناب ہے۔
رمضان المبارک کا سنت رسول کے مطابق استقبال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بدلنے کا عزم کرتے ہیں۔

یہ بات سمجھ لینی چاہیے رمضان کے روزہ کو صرف عبادت اور تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا، بلکہ انہیں مزید برآں اس عظیم الشان نعمت پر الله تعالیٰ کا شکر بھی ٹھہرایا گیا ہے جو قرآن کی شکل میں اس نے عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے دانش مند انساں کے لئے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگرہو سکتی ہے تو وہ صرف یہی کہ وہ صرف اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ تیار کرے جس کے لئے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہے۔

قرآن ہم کو اس لئے عطا فرمایا گیا ہے ۔ہم الله تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو بھی اس پر چلانے کے لئے محنت کریں۔ اس مقصدکے لئے خود کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ نزول قرآن کا مہینہ بھی رمضان ہے ۔ اس لئے مبارک مہینہ ہماری روزہ داری ہی نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت بھی ہے۔اس کے ساتھ خود اس نعمت قرآن عظیم الشان کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے۔


تمام عبادات میں روزہ کو تقویٰ کی اصل بنیاد اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایک مخفی و خاموش عبادت ہے اور نمائش سے بری ہے جب تک خود انسان اس کا اظہار نہ کرے۔ دوسرے سے اس کا راز افشا نہیں ہو سکتا۔یہی چیز تمام عبادات کی جڑ اور اخلاق کی بنیاد ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں نماز ایک محتسب ہے جو ہم کو برائی سے بچاتی ہے۔ نماز بری باتوں سے روکتی ہے لیکن محض احتساب سے تقوی حاصل نہیں ہوتا۔

طبیب ہم کو پرہیز بتاتا ہے ہم اس کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے اس لئے پرہیز کا اصل مقصد یعنی صحت حاصل نہیں ہو پاتی۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے روزہ تم میں تقوی و علاج کی مخفی قوتوں کو پیدا کرنے کے لئے فرض کیا گیا ہے اسلامی علم الاخلاق میں تقویٰ اور روزہ کی حیثیت ایک ہے۔
روزے سے انسان کے قلب میں تقویٰ طہارت کی جو کیفیت پیداہوتی ہے اس کا مظہر زندگی کا ہر مسئلہ ہو سکتا ہے۔

انسان کا ہر قدم جہاں ڈگمگاتا ہے۔ حلال حرام کی تمیز کا وقت آتا ہے وہ روزہ کی تربیت ہمارے کام آتی ہے۔رمضان قرآن کا مہینہ ہے رمضان صفائی کا مہینہ ہے رمضان تقویٰ کا مہینہ ہے۔ رمضان احتساب کا مہینہ ہے۔ رمضان تبدیلی کا مہینہ ہے۔ رمضان ٹریننگ کامہینہ ہے۔ الله فرماتے ہیں 11ماہ بندے کے ہوتے ہیں ایک مہینہ میرا ہوتا ہے اسی لئے فرمایا روزہ میرے لئے اورمیں ہی اس کی جزا ہوں۔

روزے آتے ہیں چلے جاتے ہیں ہماری زندگیوں میں دوبارہ روزے آتے ہیں یا نہیں اس دفعہ آ گئے ہیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا وقت ہے۔ رمضان المبارک کی اہمیت ہماری زندگیوں میں اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہمارا وطن عزیز بھی 27رمضان کو ہمیں ملا۔ قرآن نماز کا تحفہ ملا۔ اس نایاب تحائف کا احساس بھی کرنا ہے اور اپنی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لانی ہے ایسی تبدیلی نہیں لانی کہ ہمیں لوگ نیک کہیں، عبادت گزار کہیں حاجی کہیں نمازی کہیں بلکہ عملی زندگیوں میں تبدیلی کا مطلب ہے۔

برائی سے بچیں نیکی، بدی ،حرام، حلال کا فرق ہمارے سامنے رہے اس کے لئے ایک سچا واقعہ قارئین کی نذر کررہا ہوں ہمیں ایسا نہیں بننا بلکہ صلہ رحمی والا بننا ہے۔ واقعہ اس طرح ہے۔
بشیرصاحب رمضان المبارک میں عمرہ کی سعادت حاصل کرکے وطن لوٹے تو خاندان اور محلے والوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بشیر صاحب بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اسی خوشی میں انہوں نے قریبی رشتے داروں کی افطار پارٹی رکھی تھی۔

سب رشتے دار اسی سلسلے میں جمع تھے۔ افطار میں ابھی کچھ وقت باقی تھا بشیر صاحب مکہ مدینہ میں گزرے شب و روز کا ذکر کررہے تھے۔ وہ بولے پانچ وقت نماز باجماعت ادا کی پوری تراویح اور تہجد ایک دن بھی قضا نہیں کی۔ عمرے الگ ادا کئے فخر سے اپنی داستان سنا رہے تھے کہ روزہ کھولنے سے چند منٹ قبل ان کے دروازے پر کسی سائل نے صدا لگائی الله آپ کے روزے قبول کرے۔

عبادات قبول کرے۔ افطاری کے لئے کچھ عنایت کریں۔بشیر صاحب کے چہرے پر ناگوار تاثرات ابھرے۔ وہیں سے بولے معاف کرو بابا اب تم قبول کراؤ گے ہمارے روزے اور عبادات؟ ہم خود کچھ نہیں کر سکتے آ جاتے ہیں ڈرامے لگانے اور سائل کو جھڑک کر خالی ہاتھ لوٹا دیا۔
دستر خوان بھرے پڑے تھے۔ خوف خدا والے حضرات ٹک ٹک بشیر صاحب کا منہ دیکھ رہے تھے کبھی سوچا ہے ہم نے؟ ہماری نمازیں روزے عبادات تبھی بخشوائیں گے جب ہمارے اندر انسانیت صلہ رحمی، خدا ترسی اور تقویٰ ہوگا۔الله ہم سب کو اچھا اور سچا متقی و پرہیز گار مسلمان بنائے۔ خود احتسابی کے مبارک مہینے میں سچے دل سے توبہ کرنے والا بنائے اور ہماری زندگیوں میں حقیقی تبدیلی آ جائے جو الله کو مقصود ہے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :