لوڈشیڈنگ اور حکمرانوں کے وعدے

پیر 22 جون 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

یوں تو ساری کی ساری سیاست ہی ایسی ہے کہ
ہیں کواکب کچھ ‘نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
خاص طورپر ایسے سیاسی رہنماجو اپوزیشن میں ہوں تو ان کے دیکھنے کاانداز ‘آنکھ کازاویہ کچھ اور ہوتاہے لیکن جونہی اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کاموقع مل جائے تو پھرآنکھ وہ مناظر دیکھنا بندکردیتی ہے اور بندہ وہی کچھ دیکھتا ہے جو اس کی خواہش ہوتی ہے۔

بھولاکہتا ہے کہ اقتدار کے دنوں میں وزیرشذیر ‘وزیراعلیٰ ‘وزیراعظم وغیرہ وغیرہ ”کلربلائنڈ “ ہوجاتے ہیں اور انہیں ہرکلر بھی بلیک اینڈوائٹ نظرآتاہے گویا دنیا کے رنگوں سے بھی بے نیاز۔ لیکن انکی اپنی دنیا چونکہ رنگین ہوجاتی ہے اسی لئے دنیا کی سنگینی ان پر اثرانداز نہیں ہوپاتی
بہرحال سیاسی بازیگروں کی بابت پڑھتے یا سنتے ہوئے عجیب سا احساس ہونے لگتا ہے کہ ان بازی گروں نے اب تو عوام کو بازی سمجھ کر بازی گری شروع کردی ہے۔

(جاری ہے)

یا شاید ان کے آس پاس رہنے والے مشیران کی لمبی لمبی لائنیں ہاتھ باندھنے محض ”یس سر یس سر“ کی گردان گردانتے ہوئے کبھی کبھار ”سب اچھا ہے “ یا پھر ”ہرطرف امن شانتی ہے “ کے نعرے بھی بلندکردیتی ہیں۔اگر یہ مشیران کہیں کہ ”بادشاہ سلامت! آج موسم خاصاخوشگوار ہے‘ ہرسو ہریالی ہی ہریالی ہے کیوں نہ آج مملکت کی سیر کی جائے “ بس جی بادشاہ سلامت کا بھی جی مچلنے لگتا ہے اور وہ مشیروں‘مشیراؤں کے جھرمٹ میں خصوصی طیارے کے ذریعے کسی دوسرے ملک چل نکلتے ہیں کہ ”’ہرملک ‘ملک ماست“
بہرحال ہمیں موجودہ حکمرانوں کا تو پتہ نہیں ‘ البتہ احساس ضرور ہے کہ ان حاکمین کو بھی الا ماشااللہ ایسے بے شمار مشیروں کی خدمات حاصل ہے جو دن کو رات اوررات کو دن قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور ہمیں یقین کہ حاکمین وطن اپنی آنکھوں سے دن نکلتا دیکھنے کے باوجود ”آمین“ کہہ کر سر جھکالیتے ہیں کہ ”بے شک کالی رات ہوتی ہے لیکن آج دن کالا ہے“
چھوڑئیے کہ ”ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ“ کے مصداق یا پھر”اقتدار کے ساون میں اندھے کو ہرسو ہریالی ہی نظرآتی ہے“کے مطابق اقتدار کا ساون جب ہرسو چھن چھن برس رہاہو تو پھر بندہ خواہ مخواہ کی بے حسی کی چادر تانے رہتاہے۔


اب مسلم لیگ کو ہی دیکھ لیجئے․․․․․․عوام آج بھی منتظر ہیں اور بلکہ کئی منچلے تو مینار پاکستان کے ٹھیک اس مقام پر کہ جہاں ”خادم “ صاحب نے کیمپ لگایا تھا‘ ٹینٹ وغیر ہ لیکر پہنچ گئے ۔کسی کے ہاتھ میں وہ ”پنکھا“ بھی تھا جسے آج کل ”خاص پاکستانی زبان “ میں ہمت فین بھی کہاجاتاہے۔ ہوسکتا ہے کہ ”خادم “ صاحب بوجہ مصروفیت اتنا ٹائم نہ نکال سکیں کہ بازار سے ہی ہمت فین منگواسکیں لہٰذا کیوں نہ ایڈوانس میں ہمت فین اورٹینٹ کے ساتھ آن موجو د ہوئے لیکن بیچاروں کی امید خاک میں مل گئی کیوں کہ شایدمشیران نے ”خادم صاحب“ کو بتادیاتھا کہ ملک کی حالت محض ایک سوا ایک سال میں بہت بدل گئی ہے‘ توانا ئی کا بحران ٹل گیا ہے‘ اور لوڈشیڈنگ․․․․․․․ لوڈشیڈنگ تو سرے سے موجود ہی نہیں ہر سو ‘دن ہویارات لائٹیں ہی لائٹیں چمکتی نظرآتی ہیں‘ پنکھا دن رات چلتارہتا ہے ‘ بس مزے ہی مزے ہیں․․․․․․ لیکن مشیروں میں کوئی دل جلا ”نائی “ موجود نہیں جو اپنا استرا چوری ہونے پر کم ازکم اتنا تو شورمچادے کہ ”ملک میں لوٹ مار ‘چوری چکار ی عام ہے“ یا پھر یہ بھی ہوسکتاہے کہ کوئی مشیر سرکاری گاڑی میں ”نجی خریداری “ کیلئے بازار نکلے اورجس شاپنگ مال میں اسے خریداری کرنا ہووہاں لوڈشیڈنگ کا جن قبضہ جمائے بیٹھا ہو ‘ دکان دار پسینے سے شرابور ہو‘ کبھی دائیں طرف سے اورکبھی بائیں طرف سے پسینہ پونچھ رہا ‘ ایسے بھیگے بھیگے ماحول میں ”مشیرخاص “ پسینے میں بھیگتے بھگوتے ‘خریداری کرکے جب واپس آئیں تو چیخنے چلانے لگیں ”خادم صاحب ! او ․․․خادم صاحب ! ملک میں واقعی توانا ئی کا بحران‘ ہرسوگرمی کے ڈیرے ہیں‘ میری حالت دیکھیں گرمی نے مت ہی ماردی ہے‘ خدا کیلئے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مینار پاکستان پر کیمپ ہی لگالیں“آگے سے خادم صاحب !پردہ سرکاتے ہوئے کہیں ”اوئے تمہیں پتہ نہیں ہے کہ اوپر کی سرکار میرے بڑے بھائی جان کی ہے‘ کیا میں اپنے بھائی کے خلاف احتجاج کرونگا ‘ یہ ٹھیک ہے کہ لائٹ وائٹ کچھ نہیں ‘ لوڈشیڈنگ بہت ہے لیکن بھائی جان تو پھر بھی بھائی جان ہیں اورتمہیں پتہ ہے کہ بھائی جان مجھے لوڈشیڈنگ سے تو پیارے ہی ہیں“
صاحبو! گذشتہ برس تو خواجہ صاحب نے ایک اور نیافارمولہ متعارف کرادیاتھا ۔

فرماتے تھے کہ اگر لوڈشیڈنگ میں کمی چاہتے ہیں تو دعا کریں کہ بارش ہوجائے‘ بات تو ان کی بھی ٹھیک ہے ‘ توکئی یاران وطن نے جواباً کہاتھا کہ پھر آئیے سارے کام ہی دعا سے کرتے ہیں‘ یعنی بل جمع نہ کرائیں اوربس دعا کرلیں کہ بل جمع ہوجائیں‘ سرکار کو ٹیکس دینے کے بجائے محض دعا دیدیں کہ ٹیکس جمع ہوجائے‘ سرکاری ملازمین ڈیوٹی کرنے کی بجائے رات دن مصلے پر بیٹھ کر ”یااللہ !میرا فرض پورا کردے “ یا پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر نہایت خشوع وخصوع کے ساتھ دعا مانگتے نظرآئیں ”یااللہ ! میری نوکری اسی سکون کے ساتھ چلتی رہے“ یقینا ہرسو سکھ چین ہی ہوگا ‘ سڑکوں پر گاڑیوں ہوں گی نہ دفاتر میں بندہ نہ بندے کی ذات ‘ پھر یوں ہوگا کہ
”گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے“
لیکن خواجہ صاحب کو کون سمجھائے کہ بعض کام دعاؤں کے ساتھ ”دواؤں“ کے بغیر نہیں ہوپاتے ۔

آج پھر خواجہ ٹیلیفویژن سکرینوں پر سنجیدہ چہرے کے ساتھ چمکتے دکھائی دئیے اورپھر نیا وعدہ قوم کی کانوں میں انڈیل دیاکہ ”دودن تک بجلی کی سپلائی میں بہتری آجائیگی“ ہوسکتاہے کہ یہ وعدہ فردا بھی بالکل ایسے ہی ہو جیسا کہ میاں جی صاحبان اقتدار سے پہلے چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ کا وعدہ کیاکرتے تھے اقتدار آیا تو ایک سال کا وعدہ پھرد وسال کی یقین دہانی، دوسال پورے ہونے پر پیچھے مڑکردیکھا تو خالی چٹیل میدان ہی منہ چڑاتے دکھائی دیتے ہیں یعنی اس بلاکے تریاق کیلئے ایک فیصد بھی عمل درآمد سامنے نہیں آیا اب کہاجارہاہے کہ 2018تک بحران کی بلا ٹل جائیگی لیکن ہمیں یقین ہے کہ سال 2018 کے اوائل میں(اگر اس وقت تک لیگی حکومت قائم رہ گئی تو)یہی صاحبان کہتے نظرآئیں گے کہ ہم نے تو سرتوڑ کوشش کی مگر دھرنوں کی وجہ سے توانائی بحران سمیت دیگر مسائل حل نہ ہوپائے ․․․․باقی باتیں خود سمجھ جائیے کہ ہماری نئی نسل اب اندھیروں کی عادی ہوگئی دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد کی نسل کے مقدر میں وراثتی حاکمیت کے علاوہ ان اندھیروں میں اضافہ ہوتاہے یانہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :