کالاباغ ڈیم ،کیا اب بھی نہیں ؟

جمعرات 2 جولائی 2015

Qasim Ali

قاسم علی

کالاباغ ڈیم کا بتدائی سروے 1955ء میں کیا گیا مگر اس کی تعمیر کا باقاعدہ اعلان 1984میں کیا گیا لیکن اس اعلان کے کچھ عرصہ بعد ہی صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخواہ)کی جانب سے اس عظیم منصوبے پر پہلی انگلی اٹھائی گئی اور یہ اعتراض کیا گیا کہ کالاباغ ڈیم صوابی،نوشہرہ اور مردان ڈوب جائیں گے لہٰذا ہم اس ڈیم کی اجازت نہیں دیں گے اس کے بعد سندھ کی جانب سے بھی مخالف آوازیں آنا شروع ہوگئیں جس کے َ بعد حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل میں یہ معاملہ رکھ دیا جس کے آٹھ میں سے سات ارکان نے اس منصوبے کی بھرپور تائید کرتے ہوئے اسے قابل عمل اور پاکستان کیلئے انتہائی ضروری قراردیا جس کے بعد چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے 16ستمبر 1991ء کو ایک معاہدے پر دستخط کرکے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کردیا۔

(جاری ہے)

لیکن اس کے بعد حکومتوں کی مسلسل تبدیلیوں نے اس منصوبے کو سردخانے میں ڈال دیا پرویز مشرف نے اگرچہ کالاباغ ڈیم بنانے کا عزم ظاہرکیا مگر شدید مخالفت کے آگے وہ بھی ڈھیر ہوگئے ۔اور پھر ان کے بعد آنیوالی پیپلزپارٹی کی حکومت نے کالاباغ منصوبے کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کا اعلان کردیا مگرحال ہی میں پاکستان بالخصوص کراچی میں گرمی و لوڈ شیڈنگ سے ہونیوالی ایک ہزار سے زائد ہلاکتوں نے ایک بارپھر کالاباغ ڈیم کی اہمیت و افادیت کو روزروشن کی طرح عیاں کردیا ہے اگرچہ اس میں کے الیکٹرک کی مبینہ غفلت کا بھی عمل دخل ہے مگریہ بات اب ایک بار پھر زبان زردِ عام ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم ہوتا تو پاکستان میں بجلی کی فراوانی کے باعث اتنی بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا ۔

کالاباغ ڈیم ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کی گرتی ہوئی معاشی حالت کو سنبھال سکتا ہے ،توانائی بحران سے نجات دلاسکتا ہے اور اس کے مثبت اثرات پورے پاکستان پر پڑیں گے لیکن ہمارے حکمرانوں میں شامل ایسے لوگوں کی کمی کبھی نہیں رہی جو آتے تو ملکی و عوامی مفاد کا نام لے کر ہیں مگر اسمبلی میں پہنچتے ہی ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں اور کالاباغ ڈیم جیسے عظیم الشان منصوبے کی تعمیر مکمل نہ ہونے میں ایسے ہی عناصر کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے بے جا اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے کالاباغ ڈیم کو روک رکھا ہے حالاں کہ ان الزامات کی تحقیق کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں جو کہا جارہاہے وہ بالکل حقیقت کے برعکس ہے مثلاََ خیبرپختونخواہ کی جانب سے جو دو اعتراض سامنے آتے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ،صوابی اور مرادان ڈوب جائیں گے حالاں کہ کالاباغ ڈیم کے ماہرین اور انجینئرز یہ بتاچکے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی اونچائی 916فٹ ہے جبکہ یہ شہر 1000فٹ کی بلندی پر واقع ہیں اگر کالاباغ ڈیم بھر بھی جائے تو یہ شہر نہیں ڈوبیں گے بلکہ باقی ماندہ پانی بحرہند میں ہی جائے گا نہ کہ شہروں کو نقصان دے گا۔

دوسرا اعتراض بھی انتہائی بودا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی جھیل تو صوبہ سرحد میں بنے کی مگر اس کی آمدنی پنجاب کو حاصل ہوگی اس اعتراض کا بڑا آسان اور سادہ سا حل مرحوم شیرافگن نیازی صاحب نے دیا تھا کہ کالاباغ ڈیم کا یہ سارا حصہ خیبر پختونخواہ میں ہی شامل کردیاجائے مگر یہ بات بھی قبول نہیں کی گئی اور خیبر پختونخواہ سے ''میں نہ مانوں ''کی رٹ ہی جاری رہی اور وہاں کے اسفند یار ولی صاحب تو یہ بھی فرما چکے ہیں کہ حکومت کالاباغ ڈیم یا پاکستان میں سے کسی ایک کاانتخاب کرلے۔

آج اسفندیارولی صاحب قوم کو یہ بھی بتادیں کہ انہیں نوشہرہ اور صوابی کے ان لوگوں کا بڑا احساس ہے کہ کہیں وہ اس منصوبے کے باعث ڈوب کرمرنہ جائیں مگر کیا نہوں نے ایک لفظ ہمدردی کا بھی ان لوگوں کیلئے داکیا ہے جو انہی جیسے لیڈروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تعمیر نہ ہونیوالے کالاباغ ڈیم کی وجہ جاں سے گزرگئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے کیا کوئی بتائے گا کہ ان معصوموں کا خون کس کے سر ہے ؟سندھ سے اٹھنے والے اعتراض اس سے بھی زیادہ بھونڈا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے دریائے سندھ کا پانی رک جائے گا اور سندھ کی سب فصلیں ویران ہوجائیں گی حالاں کہ کالاباغ کی تعمیر کے بعد اس سے نکلنے والی نہریں نہ صرف پورے سندھ کی آٹھ لاکھ ایکڑبنجر اراضی کوشاد باد اور ہرا بھرا کردیں گی اور دریائے سندھ کا بحرہند میں ضائع ہوجانے والا پانی سٹور کرکے اس سے وافر اور سستی بجلی بھی بنائی جاسکے گی جو ملکی ضروریات کو پورا کرے گی اور وہ سرمایہ کار جو توانائی بحران کی وجہ سے ملک چھوڑ رہے ہیں اور جس کے باعث بیروزگاری و غربت میں اضافہ ہورہاہے کالاباغ کی تعمیر کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی اس کے علاوہ کالاباغ ڈیم کا پانی پنجاب کی چھہ لاکھ اور خیبرپختونخواہ کی پانچ لاکھ ایکڑ زمینوں کو بھی سیراب کرے گا اس طرح ملک میں زرعی ترقی کا ایک نیا اور روشن باب شروع ہوگا فصلیں زیادہ ہونے سے مہنگائی کا زور بھی ٹوٹ جائے گا الغرض ایک ایک عام پاکستانی کالاباغ ڈیم سے فیضیاب ہوگا۔

اب ایک ہلکی سی نظر 2010ء کے بعد ہرسال آنے والے سیلابوں اور ان سے ہونیوالے نقصانات پر بھی ڈال لیں کہ اگر کالاباغ ڈیم ہوتا تو پاکستان ان سے باآسانی بچ سکتاتھا2010 ء میں آنیوالے سیلاب میں 2000اموات ہوئیں اور مجموعی طور پر دوکروڑ سے زائد لوگ اس سے متاثر ہوئے ،2011ء میں آنیوالے سیلاب نے 500جانیں لیں ،مجموعی طور پر53لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور بے گھر ہونیوالے لوگوں کی تعداد پندرہ لاکھ تھی ۔

ستمبر 2012ء میں آنیوالا سیلاب اپنے ساتھ 100قیمتی جانیں لے گیا ،ہزاروں ایکڑزرعی زمینیں متاثر ہوئیں،بیشمار لوگ بے گھر ہوئے،31جولائی 2013ء کے سیلاب نے بھی 80 زندگیاں لیں 2014ء میں تین سو ہلاکتیں ہوئیں ۔یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں اصل نقصانات اس سے کئی گنا زیادہ ہوں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے سیلابوں اور اب لوڈشیڈنگ سے ہونیوالی ہزاروں ہلاکتوں کے بعد بھی ہمارے سیاسی زعماء کوکچھ عقل آتی ہے یا نہیں اور حکومت اب بھی کوئی دلیرانہ فیصلہ کرتی ہے یا اب بھی یہ معاملہ ٹھنڈے ٹھار کمروں میں''اتفاق رائے ''کی فضول مشق پر ختم ہوجائے گا اور عوام یوں ہی گرمی اور لوڈ شیڈنگ میں تڑپتے،بلکتے اور مرتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :