5جولائی 1977ء :یوم سیاہ‘تب یا اب؟

اتوار 5 جولائی 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

پورے سال کے دوران سالگروں اور برسیوں کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی ایک دفعہ ”یوم سیاہ“ کا دن بھی مناتی ہے۔حقیقت میں یہی ایک پارٹی پروگرام ”سیاسی“ نوعیت کا ہوتا ہے ورنہ سالگراؤں میں شخصیت پرستی اور کیک کی بے حرمتی کے دوایٹم ہی پیش کئے جاتے تھے ۔برسیوں کو دعاؤں کی نذرکرکے ان خونی واقعات کے پیچھے اسباب،نظریات اور اختلافات کے ” حقائق “ ،سے منہ موڑ کرکبوتر کی طرح بلی کے سامنے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں ۔ صرف 5جولائی 1977ء کی فوجی بغاوت کی یاد میں منایا جانے والا دن‘ جس کو پارٹی قیادت نے ”یوم سیاہ “ قراردیا تھا ‘ ایک ایسا ”ایونٹ“ ہے جس پر نہ کیک کاٹا کر جان چھڑائی جاسکتی ہے اور نہ ہی ”دعا مغفرت“سے گزارا ہوسکتا ہے۔اس دن 38سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیاء الحق نے اپنے سامراجی آقاؤں کی آشیر باد سے ختم کرکے ایک طویل سیاہ دور کو پاکستان کے سماج پر مسلط کردیا تھا۔

(جاری ہے)

یہ پاکستان کا ہی نہیں دنیا کا تاریک ترین دن تھا۔جنرل ضیاء الحق وہ بدبخت فوجی جرنیل تھا جس نے اپنے غیرقانونی ،غیراخلاقی اقتدار کو طوالت بخشنے کے لئے سامراجی پٹھو بن کر ایک ایسی آگ بڑھکائی جس میں صرف افغانستان کا عظیم ثورانقلاب ہی نہیں جلا بلکہ اس آگ نے خود پاکستان کو پچھلے 38سالوں سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔مگر یہاں تک بس ہوجاتی تو پھر بھی بات تھی ،جنرل ضیاالحق کی ”جہادی آگ“ نے آنے والے سالوں میں تیونس، عراق، شام، لیبیا، ترکی، قطر، سعودی عرب،مصر،سوڈان،یمن ،نائجیریا،وسط ایشائی ریاستوں،کشمیر،برما،چین ،روس سمیت مغرب اور درجنوں چھوٹے بڑے ممالک کے تمدن کو پامال کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ بوکو حرام،القائدہ،طالبان ،مجاہدین،دولت اسلامی،النصرةبرگیڈ،لشکر جھنگوی،جیش محمد،لشکر اسلام،لشکر طیبہ ،جماعت الدعوةسپاہ صحابہ ،سپاہ محمدسمیت سینکڑوں چھوٹے بڑے دھشت گرد گروہ مالیاتی سرمائے کے مختلف دھڑوں ،ریاستوں ،مذہبی اور غیر مذہبی گروپوں کے ہاتھوں میں آکر خون کی ندیاں بہارہے ہیں۔جنرل ضیاء الحق اور اسکے ساتھی جرنیلوں نے” افغان انقلاب“ کو نیست ونابود کرنے کے لئے امریکہ،سعودی عرب،عرب ممالک، یورپ،آسٹریلیا،،چین ،ہندوستان ( عالمی سامراج) کی مکمل مدد کے ساتھ جس عالمی دھشت گردی کی تحریک اور تنظیم کی بنیاد رکھی تھی اسکے بچے سپولیوں کی طرح پوری انسانیت کو ڈس رہے ہیں۔اس کالی تحریک کے لئے فنڈزبھی کالی دولت پیدا کرکے حاصل کئے گئے۔اس کا سب سے بڑا ذریعہ پوست کی کاشت اور اس سے ہیروین بنا کر‘ پوری دنیا میں پھیلا ؤبنا۔”کالی دولت اور مذہبی دھشت گردی“کا پچھلے اڑتیس سالوں میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔دونوں وحشتوں کا‘ آگے بڑھنے کا مقابلہ جاری ہے۔ہیروئن اور کالی دولت نے سماجوں میں برائی کہلانے والی تمام سرگرمیوں کو جلاء بخشی اور پروان چڑھایا۔پچھلے اڑتیس سالوں میں اس دولت نے دنیا بھر میں ایک نیا حکمران طبقہ پیدا کرکے سماجوں پر اس کو حاوی کردیا۔بدقسمتی سے اس عنصر کو جنم دینے والی قوتوں نے جس سیاسی طاقت کو پچھاڑنے کے لئے ‘فوجی بغاوت کی اور ملک پر قبضہ کیا،اڑتیس سالوں بعد وہی سیاسی قوت اس سیاہ دولت کے نجس شکنجے میں کسی جاچکی ہے۔یہ المیہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ 5جولائی 1977ء کی فوجی بغاوت کے”مضمرات“ پاکستان ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے دنیا بھر کے تمدن کے خلاف صف آراء ہیں۔روشن خیالی ،انقلابی نظریات،تہذیب وتمدن کے ارتقاء کی بجائے ماضی کی سیاہ قوتوں نے تاریخ کا پہیہ پیچھے کو چلا کر انسانیت کی کروڑوں سالوں کی حاصلات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔دوسری طرف خو د پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے قاتل ضیاء الحق کی بدروح کے ہاتھوں پر بیعت کرکے اسی کالی دولت،کالی سیاست اور کالی معاشرت کے راستوں پر گامزن ہوچکی ہے۔ضیاء الحق نے اپنی ساری زندگی میں بے پناہ جرائم کئے جن میں سے سب سے بڑا جرم بنیاد پرستی کا احیاء اور عالمی دھشت گردی کا فرقہ ورانہ وہ آہنگ ہے جو آج عالمی سیاست اور معاشرت پر حاوی ہونے کے لئے سرگرداں ہے ۔مگر ضیاء الحق نے اپنی پوری زندگی میں پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی ہر سعی کی مگر ناکام و نامراد رہا۔تشدد اور وحشت کی بدترین مثالیں موجود ہیں مگر ان کی وجہ سے پیپلز پارٹی نہ ٹوٹی نہ ہی کمزور ہوئی ۔ان دنوں بھی اگر پارٹی کو کسی نے دھوکہ دیا یا غداری کی تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا کارکن نہیں بلکہ جاگیر دار،سرمایہ دار اور حکمران طبقے کی صفوں سے پیرا شوٹ لگاکر پارٹی میں شامل ہونے والے لیڈران تھے۔تب ان کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔مگر پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کی قیادتوں نے نظریاتی طور پر ضیاء الحق کے قدموں پر ڈھیر کرکے اسکی زوال پذیری کی وہ بنیاد رکھ دی ‘جس کی منطقی شکل اب اپنے جوبن اور شباب پر ہے۔پاکستا ن پیپلز پارٹی نے اپنی ابتدائی سفر میں بائیس خاندانوں کی دولت کے انبھاروں کو اپنے انقلابی نظریات سے شکست فاش دیکر دولت کے مقابلے میں نظریات کی طاقت کو ثابت کیا تھا۔ مگر جو کام ”کاروباری دولت“ (White Money)نہ کرسکی وہ اب کالی دولت نے کردکھایا ہے۔اس کی وجہ ”نظریات کا پچھلی نشستوں“پر بٹھادیا جانا ہے۔نظریات سے غداری کا عمل آصف علی زرداری نے شروع نہیں کیا بلکہ اس نے اسکی تکمیل کی ہے۔جن نظریات نے ملک اللہ دتہ نائی کو اپنے عہد کے فرعون نما جاگیرداروں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیا اور کامرانی بخشی تھی،ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کے اندر طرح طرح کے غدار،ابن الوقت اور موقع پرست ہی جنم دئے جاسکتے تھے۔ان دنوں پارٹی میں تطہیر نہیں ہورہی بلکہ پارٹی کا انہدام ہورہا ہے۔یہ انہدام جتنا لمبا عرصہ لے گا اتنی ہی غلاظت اوراسکا تعفن بڑھتا جائے گا۔پارٹی چھوڑنے اور تحریک انصاف میں شامل ہونے والے تمام عناصر،کسی نظریاتی وجہ سے پارٹی نہیں چھوڑ کر جارہے بلکہ ان موقع پرستوں کو ان حالات میں مزید موقع پرستی کا کوئی چانس نظر نہیں آرہا ۔پارٹی قیادت اور اسکی پالیسیاں اتنی ہی غدارانہ ،گمراہ کن اور زوال پزیری کا شکار اس وقت بھی تھیں جب پارٹی چھوڑنے والے وزارتوں سے لطف اندوز ہورہے تھے،تب ”مفاہمت کی پالیسی “ سے اختلاف نہ ہونا اور شہباز شریف اور اسکی مسلم لیگ کے ہاتھوں ہر طرح کی ذلت اور بے عزتی کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ثابت کرتا ہے کہ بھاگنے والے اس بحری جہاز کے چوہے ہیں جو جہاز کو ڈوبنے کاادراک ہونے پر اس سے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ڈوبنے والے جہاز کے باہر لگائی گئی چھلانگ والے سمند ر میں بھی ان کے بچنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی پر نظریاتی حملے ہوتے تھے جو رجعتی پارٹیوں، بنیاد پرستوں اور سامراجی عناصر کی طرف سے کئے جاتے تھے ،پارٹی ان حملوں میں ناقابل تلافی نقصان ہونے کے باوجود مرتی نہیں تھی ،ٹوٹتی نہیں تھی ،لڑتی اور جدوجہد کرکے کامران ہوتی تھی ۔پارٹی پر ریاست کے حملے ہوتے تھے،جو ظلم وجبر اور تشدد و بربریت کی مثالیں قائم کرکے بالآخر ناکام ہوجاتے تھے۔پارٹی ہر اس حملے میں سرخرو ہوئی جو مخالف سمت سے کئے گئے۔بدقسمتی سے پارٹی پر موجودہ حملہ باہر سے نہیں اندر سے بلکہ خود قیادت کی طرف سے ہورہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت جو ماضی میں نظریات اور جدوجہد کی مثال کے طور پر دیکھی جاتی تھی اب بدعنوانی،لوٹ مار،بے ضمیری اور غداری کی بریکٹ میں لازم ہوچکی ہے۔ ضیاء الحق کی فوجی بغاوت نے جس سیاہ دن کو اڑتیس سالوں پر محیط کیا تھا اس کی سیاسی تابعداری ،نظریات کی پیروی اور اسکے سیاسی فلسفے کی جانشینی کرکے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس یوم سیاہ کو پاکستان پیپلز پارٹی کا سرکاری دن بنادیا ہے۔اس یوم سیاہ کی تاریکی اب پارٹی کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔یہ ایک افسوس ناک اور افسردہ کردینے والی حقیقت ہے۔پارٹی پر قابض قیادت کی دولت اور مستقبل بیرون ملک محفوظ ہے مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ منسلک کروڑوں لوگوں کو دھوکہ دے کران کا مستقبل مخدوش کرنے کی سازش کی گئی ہے۔مگر لوگ بالآخر اس المناک اور مایوس کن حقیقت کے بوجھ سے نکل کر زندہ رہنے کی راہ تلاش کرلیں گے۔لوگوں نے زندہ رہنا ہے اور اسی ملک میں اپنی زندگی کو برقرار رکھنا ہے۔ان کی روائت گل سڑ رہی ہے۔امیدا ور ناامیدی کا کھیل زیادہ لمبا نہیں چل سکتا۔پاکستان کے محنت کش طبقے کے پاس اپنی انقلابی جدوجہد اور پیش قدمی کا ورثہ ہے ۔پارٹیاں بنتی مٹتی رہتی ہیں۔نظریات کے بغیر پارٹیاں نجی ملکیت میں چلنے والی فرموں کی شکل اختیارکرلیتی ہیں ،جن کے فیصلے عام اور منتخب لوگ نہیں ‘بورڈ آف ڈائریکٹرزکرتا ہے۔لوگ اپنی حاکمیت اور نجات کے متمنی ہیں ،ان کے سامنے پرانی بدبومارتی روایات کے مٹنے اور نئی روایات بننے کی اہلیت رکھنے والی پارٹیوں کا جنم ہوتامنظر یونان اور سپین میں نظر آرہا ہے۔ایسا یہاں بھی ہوسکتا ہے اب نہیں تو کچھ وقت بعد۔جنہوں نے 5جولائی کی سیاہی کو اپنا اور پارٹی کا مقدر بنادیا ہے وہ تاریخ کی سیاہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گم ہوجائیں گے مگر پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں نے اگر زندہ رہنا ہے تو انکے پاس لڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔صرف انقلابی نظریات ہی وہ واحد اوزار ہیں جن سے آنے والے دن کی روشن صبح کا راستہ تعمیر کیاجاسکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :