کراچی میں موت کا ناچ

جمعہ 10 جولائی 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

کراچی کو عروس البلاد بھی کہا جاتا ہے اور روشنیوں کے شہر کی ’طرح‘ بھی مشہور تھی۔حکمران تو اس شہر کی اہمیت کو ابھارنے کے لئے کراچی کو پاکستان کی معاشی حب کہتے چلے آرہے ہیں۔کراچی کو” منی پاکستان“ بھی کہا جاتا ہے ۔ مگر یہ عجب بات ہے کہ جب کراچی پر کڑا وقت آیاتو ہر کسی نے اس سے آنکھیں موند لیں۔لوٹ مار میں دن رات مصروف ‘کراچی اور سند ھ کے حکمرانوں نے ’موت کے اس ناچ ‘ جس نے ہزاروں افراد کی جانیں لے لیں‘کو وفاق اور کراچی الیکٹر ک کی ذمہ داری قرار دے کر دوبارہ سے اپنے لوٹ مار کے کام میں مصروف ہوگئی ،جب کہ وفاقی حکومت نے اس کو صوبے کا معاملہ قراردے کر راہ فرار اختیارکرلی۔

کراچی کو دن رات بھنبھوڑ کر اربوں روپے اینٹھنے والی تنظیموں اور پارٹیوں نے اس شہر پر کڑے وقت میں ”لفاظی “ کے بیہودہ مقابلے کئے۔

(جاری ہے)

اس شہر میں یوں بھی ہر روز شہری مارے جاتے ہیں ۔کبھی ٹارگٹ کلنگ سے،کبھی فرقہ ورانہ بنیادوں پر،کبھی بھتہ نہ دینے پر سینکڑوں محنت کشوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور کبھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مبینہ مقابلوں میں لوگوں کو ماردیا جاتا ہے۔

طالبان اور القائدہ کا بھی یہیں مسکن ہے ،موت جن کی زندگی کا مقصد اورکاروبار ہے۔گینگ وار کرنے والے گروہ بھی باہمی کشمکش میں بیچ میں آجانے یا لائے جانے والے افراد کو دستی بموں کا نشانہ بنا کر ماردیتے ہیں۔ایک لمبے عرصہ سے ‘جس کا دورانیہ تیس سال سے بڑھ گیا ہے‘ کر اچی میں موت کارقص جاری ہے ۔مگرچند دنوں میں اتنی اموات کبھی نہیں ہوئی تھیں جو حالیہ ”گرمی کی شدت“ سے ہوئیں ہیں۔

میڈیا،سیاسی کارکنوں اور ریاستی اداروں کی مسلسل تنقید میں رہنے والے وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ ان اموات پر عجیب وغریب بیان دے رہا ہے۔وہ اور دیگر وزیر مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ”تاریخی گرمی“ کی وجہ سے پچاس سال سے زیادہ عمر والے افراد کی اموات ہوئی ہیں ۔اگر یہ بات سچ ہے تو پھر قائم علی شاہ،آصف علی زرداری ،فاروق ستار اور ’دیگران ‘کا بچ جاناکیا معجزہ ہے ؟ مگر یہ آدھا سچ ہے۔

گرمی یقینی طور پر بہت زیادہ تھی اور حبس کی شدت بھی پچھلے سالوں سے زیادہ تھی ،اسی دوران پورے ملک کی طرح یا کچھ زیادہ ہی لوڈ شیڈنگ نے کراچی کو اپنے محاصرے میں لیا ہوا تھا۔مگر موت کا رخ یک سمتی تھا۔اتنی شدید حبس ،گرمی اور لوڈشیڈنگ میں مرنے والے تمام لوگوں کا تعلق غربت زدہ طبقے سے تھا۔کلفٹن اور ڈیفنس میں گرمی سے ایک بھی موت نہیں ہوئی۔

حکمران خود مان رہے ہیں کہ مرنے والوں میں سے 250کے قریب گھروں اور بجلی کی محتاجی سے ماورا سڑکوں پرلاوارثوں کی زندگی گزارنے والے بزرگ تھے۔یہ اور اسی طرح کے ہزاروں لوگ سڑکوں پرکس وجہ سے بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔کیاریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو گھر،عزت دارانہ زندگی اور اور زندگی کا مقصد فراہم کرے۔اگر مرنے والے 250افراد میں نشہ کرنے والے لوگ بھی تھے تو یہ زندگی سے بے گانگی کا شکار لوگ اسی نظام کی ظلمتوں کی وجہ سے خود کو فراموش کرنے کے لئے نشے کا شکار ہوئے ہیں ،اسکا بھی تو کوئی ذمہ دار ہوگا۔

ریاست اور حکومتیں ایک ہی وقت میں بے نیازی ،سفاکی اور خوف کے عالم میں ہیں۔پانی اور بجلی کی عدم فراہمی گرمی ،حبس اور دراصل ریاستی انفراسٹرکچر کے زمین بوس ہوجانے کی وجہ کراچی میں سے مرنے
والوں کی تعداد چوتھے دن ایک ہزار کا ہدف عبور کرچکی تھی۔اگلے روز بارہ سو ہوگئیں۔پھر اگلے ایک ہفتے کے سات دنوں میں ہر روز پچاس سے لیکر ڈیڑہ سو تک ہلاکتیں ہوئیں مگر مرنے والوں کا سرکاری فگر 1250ہی رہا ۔

تب سے اب تک 1250افراد کے علاوہ باقی مرنے والوں کی موت کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا گیا ہے۔بہت سے ذرائع مرنے والوں کی تعداد چار ہزار کے قریب بتارہے ہیں۔یہ مضحکہ خیز حرکت ہے ،حکومت اگر 1250اموات پر نہ شرمندہ ہے نہ ہی ذمہ دار تو پھر 4000افراد کے موت کو تسلیم کرنے سے بھی ان کے کان پر جوں نہیں رینگنی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق64فی صدلوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ دوسوروپے روزانہ کی آمدن والے چونسٹھ فی صد (اصل فگر دس فیصد زیادہ بتائی جاتی ہے)نہ تو غذائت والی خوراک حاصل کرسکتے ہیں ،نہ ہی صاف پینے کا پانی خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔اتنی آمدنی میں رہائش گاہیں بھی موسموں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت والی نہ تعمیر کی جاسکتی ہیں اور نہ ہی ان کو اس مقصد کے لئے آراستہ کیا جاسکتا ہے۔

گویا کل آبادی کا چونسٹھ فی صد35سنٹی گریڈ سے اوپرموسم کی شدت بڑھنے پر ائیر کنڈیشنڈ تو درکنار بجلی خریدنے کی گنجائش بھی نہیں رکھتے۔یہ تو لوگوں کی ہمت ہے کہ گرمی اور سردی کی شدتوں میں پانی ،خوراک،گیس،بجلی،علاج معالجہ کی عدم موجودگی میں بھی جئے جارہے ہیں ورنہ یہاں جینے کے لوازمات تو صرف ایک فی صد یا اس سے بھی کم طبقے کے پاس موجود ہیں ۔

جس قسم کے اسپتال عام لوگوں کے لئے موجود ہیں ،حبس کے موسم میں ان اسپتالوں میں صحت مند انسان دم گھٹنے سے مرسکتا ہے۔سرکاری اسپتالوں کی تعدادعام لوگوں کی کل تعدادکے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ،اسپر ان میں جان بچانے والی ادویات،آلات،ڈاکٹرزاور انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے۔حکومت کے قائم کردہ کسی اسپتال میں جانے والے افراد کا وہاں سے زندہ بچ کر آجانا خود ایک معجزہ ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو کسی نہ کسی طرح (پانی کے چند گھونٹ پلا کر)بچ سکتے تھے جب ان کو بے ہوشی کے عالم میں کراچی کے ’معدودے ‘اسپتالوں میں لایا گیا تو وہاں مریضوں کے رش، ماحول اورحبس کی وجہ سے وہ زندگی کی بازی ہارگئے۔وزیراعظم بہادر نے چند روز کے بعد رسمی اورسرسری سا دورہ کراچی کیا،وزیر اعلی سندھ کے ساتھ ٹھٹھہ مذاق کیا اور واپس راجدھانی روانہ ہوگئے ۔

جاتے جاتے فرما گئے کہ ”لوگ بجلی نہ ہونے پر صبر کریں“،یہ ایک بھیانک اور سفاکی سے بھر پور بیان ہے ،جو پورے حکمران طبقے کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ لوگوں کو پینے کے پانی کی ضرورت ہے جو کراچی میں چندمافیازکو روزانہ کروڑوں روپے کا منافع بخشتا ہے اور کراچی کے کروڑوں افراد پانی کی بوند بوند کوترس رہے ہیں۔کراچی کومیٹروکی بھی ضرورت ہے مگر سب سے پہلے پانی چاہئے۔

یہاں بجلی بنانے والا ایٹمی کارخانہ بھی ہے اور نج کاری کیا گیا کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن بھی ،مگر بجلی 36/36گھنٹے بند رہتی ہے،کراچی کی پورٹ کے ذریعے اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں ملک کے لئے 65فی صد ریونیو مہیا حاصل کیا جاتا ہے،مگر خرچ پانچ فی صد بھی نہیں ہوتا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ کراچی حکمرانوں کی زبان میں کہے جانے والے جملوں کے برعکس محنت کش طبقے کی اکثریت کا شہر ہے،پاکستان کی ساری قومیتوں کا محنت کش طبقہ یہیں پر مقیم ہے۔

اس کو سزابھی اسکے اسی وصف کی بنیاد پردی جارہی ہے۔ماضی بطور خاص 67-68میں محنت کشوں کی جدوجہداور بطور مزدورفیصلہ کن قوت سے خوف زدہ حکمران طبقے نے ،کراچی کے محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کی وحدت کوتوڑنے کے لئے حکمرانوں نے اس کوفرقہ ورانہ وحشت،قومی اور لسانی تعصبات اور مسلسل عدم استحکام کے جبر کا استعمال کرکے‘ اس شہر بے مثال کو ایک ایسے وحشی مافیا کے سپرد کردیا ہے جو حکمران طبقے کی شکل میں بھی ہے اور انکے پالتو غنڈوں اور گینگسٹروں کی شکل میں بھی۔

یہ سب مل کر کراچی شہر کو بھنبھوڑ رہے ہیں۔99فی صد محنت کشوں کے اس شہر پر انکے دشمن طبقات کا قبضہ ہے ،اس لئے یہاں گرنے والی کسی لاش پر انکے جذبات تمسخرانہ اور بے نیازی پر مبنی ہوتے ہیں۔پورا ملک،بطور خاص خاص اکثریتی محنت کش طبقہ ہزاروں افراد کی غیر فطری اموات پر سکتے کے عالم میں ہے۔جانے یہ سکتہ کب ٹوٹے گا!کیوں کہ جب تک عوام سکتے ،تذبذب اور بے بسی میں رہیں گے ،حکمران ان کی زندگیوں اور اموات پر اسی طرح تمسخر اڑاتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :