حکومت کااورسیزپاکستانیوں پر ٹیکس ڈرون حملہ

منگل 14 جولائی 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

اکثرکہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کے حکمران نالائق اور نااہل ہیں۔ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں کی نالائقی اور بے بصیرتی ہے کہ آج بے روزگاری،مہنگائی اور دہشت گردی ناقابل کنڑول ہوچکی ہے،پوراملک بدامنی کا شکار ہے اورمہنگائی لوڈشیڈنگ کے سبب پوری قوم اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے،دہشت گردی کے سبب کوئی یہاں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں۔

صحت تعلیم،پاکستان ریلوے،پی آئی اے،متروکہ وقف املاک، میگاکرپشن سے لے کر ہر سطح پر لوٹ مار،معاشی بحران ، انرجی کابحران جیسے لاتعداد مسائل ہیں۔ کیاواقعی ان سارے حالات کا باعث ہمارے سیاستدانوں اورحکمرانوں کی نالائقی و نااہلی ہے؟میرے خیال میں ہمارے سیاستدان اورحکمران تودُنیا کی چندنایاب ہستیاں ہیں کہ ان کے پائے کا ساری دُنیا میں صاحب ِ بصیرت، ذہین اور دور اندیش ڈھونڈنے سے نہ ملے۔

(جاری ہے)

اگر ان کی ذہانت مصلحت پسندی کا اندازہ کرنا ہے تو ان کے ذاتی کاروبار، جاگیروں،جائیدادوں،بیرون ملک بینکوں میں موجودان کی دولت کے انبار اوران کے روزبروزبڑھتے اثاثوں کودیکھیں۔ کیا کوئی نالائق اور نااہل انسان ایسے کارنامے سر انجام دے سکتاہے۔ اگر یہ لوگ نالائق اورنااہل ہوتے توان کے اثاثے بڑھنے کی بجائے کم ہوتے اور غریب عوام کی طرح یہ اہل اقتداربھی پریشان حال ہوتے۔

عوام کوامن وامان ، خوراک ،پینے کا صاف پانی، تعلیم اورصحت جیسے چندبنیادی حقوق کا میسرنہ ہوناہمارے حکمرانوں کی نالائقی اورنااہلی نہیں بلکہ اس کا سبب عوامی مسائل کے حل میں عدم دلچسپی ،ان کی نیت میں کھوٹ اورعزم کی کمی ہے۔
انسان کی نیت اس کے اعمال پراثراندازہوتی ہے،اس کے ارادوں میں کامیابی یا ناکامی کا سبب بنتی ہے اوریہی نیت انسان کے اندریقین کی طاقت پیدا کرتی ہے۔

جس کے تحت انسان کے اندر کی تمام خوبیاں اور صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔کسی بھی معاملہ یاعمل کے رد ِعمل کے طور پرہم جس رویہ کا اظہار کرتے ہیں وہ ہماری اندر کی سوچ اورنیت کا عکس ہوتاہے۔پھریہی سوچ دوسروں کے ساتھ ہمارے معاملات پراثرانداز ہوتی ہے۔یعنی جو ہماری ذات کے اندر ہوتا ہے وہی ہم باہرپیش کرتے ہیں اور جس کے اثرات ہمارے دائرہ اختیارتک پڑتے ہیں۔

لہٰذا ہماری سوچ کا حالات کے سنورنے یا بگڑنے سے براہ راست تعلق ہے۔مگرہمارے حکمران جنہیں ہرحال میں صرف اپنے فائدے سے غرض ہے۔جب ان کے اپنے مفاد کوٹھیس پہنچنے لگتی ہے توکل جماعتی کانفرنسوں کا انعقاداوراتفاق رائے پیدا کرنے میں دیرنہیں کرتے مگر عوام کی حالت سے انہیں کوئی غرض نہیں۔
ان کی سوچ نیت حالات بہتر کرنے کی بجائے غریب عوام کی جیب کاٹنے اوران کے حق پر ڈاکہ زنی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ان کے پیدا کئے ہوئے حالات سے تنگ آکرغریب لوگ اپنا وطن،گھر اوراہل وعیال کا ساتھ قربان کردیتے ہیں۔محنت مزدوری کے لئے دوسرے ممالک کارخ کرتے ہیں اوردن رات محنت مزدوری اورخون پسینہ ایک کرکے اپنے خاندان کی کفالت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔موجودہ حکومت کی تجربہ کار ٹیم کے سرغنہ اسحاق ڈار کاتازہ ڈرون حملہ ملاحظہ فرمائیں کہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے ،خون پسینہ اورمحنت مزدوری کے بعدجوپیسہ بیرون ملک موجودپاکستانی اپنے خاندان والوں کو بھیجیں گے اُس رقم پر بھی ٹیکس عائد کیا جا رہاہے۔

یعنی اورسیز پاکستانی جورقم اپنے ملک بھیجیں گے اُس پر ٹیکس اورپھر جب ضرورت کے وقت بینک سے نکلوائیں گے اُس پر ٹیکس ۔ اسی طرح بازار سے خریداری کریں گے تو اُس پر ٹیکس۔ واہ رے جمہوریت اورعوامی خدمت کے دعویداروں کیا کہنے تمھاری خدمت کے! یہ کیسی جمہوریت اورانسانی حقوق کی پاسداری کو نسا طریقہ ہے؟
چٹے بٹے ایک ہی تھیلی کے ہیں
ساہو کاری، بسوہ داری، سلطنت
پاکستان اور اس کے غریب عوام کولوٹنے اوربرباد کرنے کے حوالہ سے ہمارے سیاستدانوں اورحکمرانوں کی مستقل مزاجی کی داد دیجئے کہ جیسے ہی انہیں حکومت ملی،دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ذاتی کاروبار میں ترقی سے یہ لوگ بڑی تیزی سے جائیدادوں ، فیکٹریوں ، کاروباروں اورسرمائے کے مالک بنتے گئے۔

اپنے ملک کے بینکوں کو اس قابل نہ سمجھا کہ ان کا سرمایہ یہاں رہے ،لہٰذاانہوں نے اپنی لوٹی ہوئی دولت اور سرمایہ غیرملکی بینکوں میں مستقل طورپرمحفوظ کردیا۔ اسی طرح ان کے نزدیک سرمایہ کاری اورصنعت کے لئے بھی پاکستان کی نسبت دوسرے ممالک زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ان لٹیروں نے اپنی ذہنی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے دستاویزی ثبوت تک تبدیل کردیئے اورتمام اثاثے فرضی ناموں سے مختلف برطانوی سرمایہ کار کمپنیوں کے حوالے کردئے گئے ۔

لندن ،دوبئی ،فرانس اورامریکہ میں ان کے اثاثے اوردولت فرضی ناموں سے مغربی بینکوں کے پاس جمع ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے سیاستدانوں کی 60بلین ڈالر سے لے کر 100بلین ڈالر کے قریب دولت مغربی بینکوں میں جمع ہے۔مگر پاکستان کی بدنصیبی دیکھئے کہ اس کا خزانہ آج بھی خالی ہے اوریہ آج بھی اُسی طرح مقروض ہے۔
بدقسمی سے ہمارے حکمرانوں نے کبھی پاکستان اورپاکستان کے عوام کی بہتری کی نیت ہی نہیں۔

اگر ان کی سوچ اورنیت حالات میں بہتری لانے کی ہوتی تواب تک ضرور کچھ نہ کچھ بہتری کے آثار نظر آتے۔قیام پاکستان سے لے کرآج تک عوام سے عہدوپیماں اور ترقی کے سہانے خوابوں سے مزین تقاریر کے نتیجہ میں اقتدارسمبھالنے کے بعد، ہرنئی حکومت نے ہمیشہ عوام سے کہاملک مقروض اورخزانہ خالی ہے۔لہٰذا عوام کو حکومت کی مدد کرنی ہوگی ۔ لیکن کمال ہے کہ آج تک خزانہ خالی کرنے والوں کا کچھ پتہ نہیں چلا اور خزانہ خالی کرنے والوں کے کڑے احتساب کی بجائے ماضی میں کشکول توڑنے کے لئے"قرض اتارو ،ملک سنوارو " جیسی عوامی سکیمیں شروع کی گئیں۔

جس میں اس ملک کے غریب عوام نے اپنی حیثیت سے بڑھ کرحصہ لیا ۔ اس ملک میں موجود ہماری ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں نے اپنی جمع پونجی ،زیورات اور جہیزتک "قرض اتاروملک سنواروسکیم" میں جمع کروا دیاتھا۔ لیکن آج دن تک نہ تو پاکستان قرض کے بوجھ سے آزاد ہوا،نہ غریب عوام کے حالات بدلے اور نہ ہی پاکستان کے حالات میں بہتری آئی ہر دن بلکہ ہر لمحہ گزشتہ لمحہ سے بدترہوتا گیا۔ان کا پیٹ اس سے بھی نہ بھرا توبیرون ملک محنت مزدوری کرنے والوں کی آمدن پربھی ناجائز ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔کچھ شرم ہوتی ہے!کچھ حیاء ہوتی ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :