چار مناظر اور ہمار ا فکری اور معاشرتی بحران

اتوار 26 جولائی 2015

Haris Azhar

حارث اظہر

منظر 1:ایک سرکاری دفتر میں کچھ سرکار ی اور غیر سرکاری تنظیموں کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ۔چائے کا پرتکلف دور چل رہا ہے اور یہ آپس میں قہقہے بکھیرتے ہوئے اس بات پر گفتگو کررہے ہیں کہ اب سیلاب آنے والا ہے اور اس سیلاب کے قہر کی بدولت آپس میں امداد کی بندر بانٹ کیسے کرنی ہے؟ اور ان کے چہروں پر طمانیت کے آثار نمایاں ہیں۔
منظر2:ایک مشہور جامعہ یونیورسٹی کے لان میں جنڈر سٹڈیز کے استاد اور ایم فل کے طلباء بیٹھے ہوئے ہیں۔

ان کے استاد ان سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی میں کلاس کے اندر آپ کو پڑھا رہا ہوں وہ اس پر عمل بالکل نہ کریں کیونکہ اس سے عقل ،شعور اور سوال کے دروازے تمہارے ذہنوں پر دستک دیں گے۔ طلباء بھی ان کے قول پر ایمان لے آتے ہیں اور اسی ایم فل کا ایک طالب علم کہتا ہے کہ جامعات میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)


منظر 3:میرے ایک عزیز دوست کے دفتر میں ایک ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہیں اور پچھلے دنوں آرمی کے ٹرین حادثے پر وہ فرماتے ہیں کہ شہید ہونے والے ایک کرنل صاحب ان کے جاننے والے ہیں ۔

یہ تو اچھا ہوا کہ وہ اس حادثہ میں شہید ہوگئے کیونکہ اگر جیتے بھی تو بس پندرہ بیس سال کی زندگی اور تھی اور وہ اس شہادت سے محروم رہ جاتے ۔
منظر 4:پاکستان کے بہت بڑے چینل پر جنید جمشید صاحب دوسری بار اپنی رعونت کے ساتھ عورتوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں اور ان کے پیرو مرشد جناب طارق جمیل صاحب کی طرف سے رد عمل کا ایک بھی لفظ نہیں آتا ۔

وسیم بادامی سے بھی جرأت نہ ہوئی کہ ایک پروگرام ہی اس ایشو پر کردیتے ۔ جنید جمشید کی یہ ڈھٹائی اس معاشرے کا عکس ہے کہ جہاں ان کو تو تبلیغی استثناء حاصل ہے لیکن کسی آسیہ بی بی یا اقلیتی مذہبی فرقے کو یہ نعمت حاصل نہیں۔
بظاہر یہ چاروں مناظر الگ الگ وقت میں وقوع پذیر ہوئے لیکن ان تمام میں ہمارا علمی ، فکری اور معاشرتی بانجھ پن نمایاں ہے ۔

ہمارے اکثر نیم پڑھے لکھے اور بہت پڑھے لکھے چاہے ان کا تعلق دینی تعلیم سے ہویا دنیاوی تعلیم سے کم و بیش ایسی ہی فکر اور سوچ کے خالق اور مالک ہیں ۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ ہماری سمت کسی بھی منزل کی جانب نہیں بلکہ ایک بھٹکی ہوئی راہ پر متعین ہے اور کسی بھی دینی اور دنیاوی ارباب اختیار کو اس کے بھیانک نتائج کی فکر نہیں وہ مستقبل کے امکانات کو بالکل بھول بیٹھے ہیں ۔ ہمیں ہر لمحے یہ احساس کرنا چاہیے کہ ہم چھوٹی چھوٹی سرحدو ں سے اپنے آپ کو پاک اور بلند کریں اور ایک Pluralisticسوسائٹی کی طرف قدم بڑھانا شروع کریں تاکہ آنے والی نسلیں ایک بہتر انسانی ،جمہوری اور ترقی یافتہ معاشرے میں کسی خوف اور خطرے کے بغیر اپنی پرسکون زندگی بسر کرسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :