فیصلہ آگیا

منگل 28 جولائی 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

آج ہم بہت پریشان ہیں اور حیران بھی۔ کچھ کھانے کوجی چاہتاہے نہ پینے کوالبتہ رونے کو کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ”ہَتھ“ ہوگیا۔ جمعرات کی شب الیکٹرانک میڈیاپرشورمچاکہ تحقیقاتی کمیشن نے اپنی سربمہر رپورٹ وزارتِ قانون کوبھجوادی ہے اورحکومتی ذرائع کے مطابق نوازلیگ ”کلین سویپ“ کرچکی ہے لیکن ہم نے ہرگز اعتبارنہیں کیا۔وجہ یہ کہ ہم بے پَرکی اُڑانے والے” شَرپسند“ الیکٹرانک میڈیاکو خوب جانتے ہیں۔

ویسے بھی ہماری بے یقینی کی کئی وجوہات تھیں ،پہلی یہ کہ بقول ایک سینئرلکھاری ”کپتان جھوٹ نہیں بولتا“اورکپتان صاحب ”بقلم خود“تحقیقاتی کمیشن کے 84 دنوں کے دوران ہم جیسے سونامیوں کو 370 سے زائدمرتبہ یہ یقین دلاچکے تھے کہ اُنہوں نے تحقیقاتی کمیشن میں ایسے ناقابلِ تردیدثبوت جمع کروائے ہیں جنہیں دیکھتے ہی تحقیقاتی کمیشن نوازلیگیوں کو”پھڑکا“ کے رکھ دے گا۔

(جاری ہے)

تحقیقاتی کمیشن کی ہرکارروائی کے بعدوہ یہ اعلان کرتے رہے کہ فیصلہ تحریکِ انصاف کے حق میں ”آوے ای آوے“کیونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزارناقابلِ تردیدثبوت تحقیقاتی کمیشن میں جمع ہوچکے۔ ویسے ”رَولاشولا“ تونوازلیگ کی ”طوطیاں اور طوطے“بہت ڈالتے رہے لیکن ہم نے اُن کے کہے کوکبھی” لفٹ“ نہیں کروائی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ”سچ“ صرف تحریکِ انصاف کی دوکان سے ملتاہے ۔

ہماری یقین نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم شاہراہِ دستورپر 126 روزہ دھرنادے کر گینزبُک آف ورلڈریکارڈ میں سنہری حروف میں لکھوا چکے تھے۔ ہم چاہتے تواُس وقت بھی حکومت پرقبضہ کرلیتے لیکن ہم ٹھہرے”جمہوری لوگ“اِس لیے قبضے کا صرف ”ٹریلر“ چلانے پرہی اکتفاکرتے ہوئے پہلے پارلیمنٹ ہاوٴس اورپھر ptv پرقبضہ کیااور پھرخود ہی پیچھے ہٹ گئے۔

ہم وزیرِاعظم ہاوٴس پربھی بڑی آسانی سے قبضہ کرلیتے لیکن وہاں بھی ایک توہماری جمہوریت پسندی آڑے آئی اوردوسرے وزیرِاعظم ہاوٴس کے سامنے قطاراندر قطارکھڑے فوجی جوان۔ اُن دنوں چونکہ ہمیں افواجِ پاکستان سے بہت پیارتھا اورہم کسی کی ”انگلی“کھڑی ہونے کے منتظربھی تھے اِس لیے قبضہ کیے بغیرہی پلٹ آئے ۔جب ہماری کاوشوں سے چینی صدرکا دَورہ ملتوی ہوا توہونا تویہ چاہیے تھاکہ میاں صاحب حب الوطنی کاثبوت دیتے ہوئے وزیرِاعظم ہاوٴس اُس کے” اصلی حقدار“ کے سپردکرکے خوداللہ اللہ کرنے سعودی عرب چلے جاتے لیکن اُنہوں نے تواُس”جعلی پارلیمنٹ“ میں پناہ لے لی جہاں سارے جعلی اراکینِ پارلیمنٹ ”اکٹھ“کیے بیٹھے تھے ۔

اصلی اراکین توصرف وہی تھے جنہوں نے جعلی پارلیمنٹ میں جانے کی بجائے مستعفی ہوناپسند کیا۔یہ الگ بات ہے کہ جب کئی مہینے گزرنے کے باوجودہمارے استعفے منظورنہ ہوئے توہمیں مجبوراََ پارلیمنٹ میں واپس جاناپڑاجہاں خواجہ آصف سیالکوٹی نے ”کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاہوتی ہے“جیسے” دِلپذیر“ جملوں سے ہمارااستقبال کیا۔ کسرتو خیرکسی بھی سیاسی جماعت نے نہیں چھوڑی لیکن خواجہ سیالکوٹی کے استقبالی جملے ”بَلے بَلے“۔


بے یقینی کی تیسری بڑی وجہ یہ کہ ہم نے نیاپاکستان بنانے کی خاطرجلسے ،جلوسوں اور دھرنوں میں ایساانداز اختیارکیاجسے بے تحاشہ پذیرائی ملی۔جونہی ہمارا ”پروگرام“شروع ہوتا نسلِ نَو خودبخود کھنچی چلی آتی ۔یہ بجاکہ ہمیں اِس اندازِ سیاست کواپناتے ہوئے کروڑوں اربوں خرچ کرنے پڑے اورصرف ڈی جے بٹ نے ہی ہم سے کئی کروڑ ”ہتھیا“لیے لیکن کچھ پانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کھوناہی پڑتاہے۔

حاسدین الزام دھرتے رہے کہ سونامیے اورسونامیاں تو میوزیکل کنسرٹ دیکھنے آتے ہیں ،نیاپاکستان بنانے نہیں لیکن ہم نے کبھی پلٹ کرجواب دینابھی گوارانہیں کیاکہ ”حاسدحسد کی آگ میں خود ہی جلاکرے“۔ ہم نے نیاپاکستان بنانے کی خاطر کئی جانوں کی قربانی بھی دی لیکن یہ سوچ کرصبر شکرکر لیاکہ ”خونِ صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحرپیدا“۔

انہی اوردیگر کئی وجوہات کی بناپر ہمیں یقین تھاکہ فیصلہ ہمارے حق میں ہی آئے گالیکن جمعے کی صبح پتہ چلاکہ” ہونی“ توہو چکی اور”ہونی“ کوتو ہوکر ہی رہناہوتاہے۔ ۔۔۔ تحقیقاتی کمیشن کا فیصلہ آگیاکہ 2013ء کے انتخابات صاف اورشفاف تھے ،دھاندلی کاشائبہ تک نہ تھا اورمنظم دھاندلی کاتو سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔تحقیقاتی کمیشن نے الیکشن کمیشن کو”رگڑا“ بھی دیااور ہماری اشک شوئی کی خاطر اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھ دیاکہ تحریکِ انصاف کا تحقیقاتی کمیشن کے قیام کامطالبہ کچھ ایساغلط بھی نہیں تھا لیکن ہمارے دِلی دردکوچیف جسٹس محترم ناصرالملک سمجھ سکے نہ جسٹس امیر ہانی مسلم اورنہ ہی جسٹس اعجاز افضل۔

ہم تویہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اب وزیرِاعظم ہاوٴس سونامیوں کا ہوگا لیکن ہمارے خواب چکناچور ہوگئے اسی لیے اب سارے سونامیے مِل کرتواترکے ساتھ یہ گا رہے ہیں
دِل کے ارماں آنسووٴں میں بہہ گئے
ہم بھری دنیا میں تنہا رہ گئے
تنہا توخیر ہم پہلے بھی تھے کہ پاکستان کی ساری ”دونمبر “ سیاسی جماعتوں سے ہماراکوئی تعلق ہی نہیں تھالیکن اب تویہ تنہائی کاٹ کھانے کودوڑتی ہے کیونکہ اب ”دھوم دھڑکے “والاڈی جے بَٹ بھی پرایاہو گیا،ٹینٹ سروس والوں نے بھی بائیکاٹ کررکھا ہے اوردھرنے کے دنوں کے لاکھوں روپے کے بِل پکڑے جلوس نکال رہے ہیں۔

ہمارے ”لوٹے“بھی سب کھوٹے نکلے ۔یہ سب کیادھرا انہی لوٹوں کا ہے جنہوں نے ”ایویں خواہ مخوا“ہمارے کپتان صاحب کوگمراہ کرکے تحقیقاتی کمیشن بنوایا جس نے بیچ چوراہے بھانڈاپھوڑ دیا۔ اگربات تحقیقاتی کمیشن تک نہ پہنچتی توہم آج بھی منظم دھاندلی کاڈھنڈوراپیٹ رہے ہوتے اور نوازلیگ آج بھی ”نُکرے“لگی ہوتی لیکن اِس تحقیقاتی کمیشن نے توہمارے پلّے ”کَکھ“ نہیں چھوڑا۔

اب ہمارے کپتان صاحب کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہیں بچا۔ نہ پائے رفتن ،نہ جائے ماندن کے مصداق اگرتحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کوتسلیم نہیں کرتے تونہ صرف توہینِ عدالت کاخطرہ بلکہ ساری سیاسی جماعتیں اورمیڈیا ہمارے پیچھے لَٹھ لے کردَوڑ پڑے گا اورتسلیم کرنے کی صورت میں میدانِ سیاست ہمارے لیے اُتناہی دورہو جائے گاجتنا مریخ۔ اب تحریکِ انصاف کی کورکمیٹی سَرجوڑ ے بیٹھی ہے، وکیلوں سے مشورے ہورہے ہیں۔

حیرت مگریہ کہ مشورے بھی (جعلی ڈاکٹر )بابراعوان سے لیے جارہے ہیں۔ کیاتحریکِ انصاف میں اتناہی قحط الرجال ہے کہ اُسے کوئی ڈھنگ کاوکیل بھی میسرنہیں؟۔ہمارے بھولے بھالے کپتان صاحب نے ”نامعقول“ مشیروں کے مشورے پرحکومت پردباوٴ ڈال کر تحقیقاتی کمیشن پہلے بنوایااوردھاندلی کے ناقابلِ تردید ثبوت اکٹھے کرنے کی باری بعدمیںآ ئی۔ اب تحریکِ انصاف کے بزرجمہروں نے ساراالزام شیخ رشید پر دھردیا۔

سوال مگریہ کہ شیخ رشیدکا توتحریکِ انصاف سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔اُسے توجب کہیں جائے اماں نہ ملی توکپتان صاحب نے گلے لگالیا۔ جب وہ خاں صاحب کوغلط مشورے دے رہے تھے تویہ بزرجمہرکہاں سوئے ہوئے تھے؟۔ویسے تحریکِ انصاف کے شبلی فراز ایک ٹاک شومیں کہہ رہے تھے کہ منظم دھاندلی توہوئی اِس لیے قوم سے معافی کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاالبتہ ہم تحقیقاتی کمیشن کے فیصلے کوتسلیم کرتے ہیں۔

اُنکے اِس بیان سے ہمیں کچھ حوصلہ ملالیکن ہمارے چودھری سرورنے توکمال ہی کردیا۔ اُن کایہ بیان توسونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ عدالتوں میں 90 فیصدمجرم عدم ثبوت کی بناپر بری ہوجاتے ہیں۔ اب ہم بھی نوازلیگیوں کوکہہ سکتے ہیں کہ ہم کل بھی سچّے تھے اورآج بھی سچّے ہیں البتہ ہم اپناکیس صحیح طریقے سے پیش نہیں کر سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :