انصافی توقع

جمعرات 30 جولائی 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

دانش والوں کا قول ہے کہ ” خوشی چاہتے ہوتو دوسروں سے توقعات وابستہ نہ کرو“ ۔ مطلب دوسروں سے جس قدر توقعات وابستہ کرو گے اسی قدر غم اور ناخوشی سے پالا پڑے گا۔ عمران خان نے اگر عدالتی کمیشن سے توقعات وابستہ کیں تو یہ ان کی غلطی ہے نہ کہ کسی اور کی ، ان کی توقعات پوری کرنا عدالتی کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے نہ ہی کوئی قانونی مجبوری ۔

ویسے بھی عدالتی دستیاب شواہد کی روشنی میں قوانین کے مطابق فیصلے کرتی ہیں کسی کی توقعات کو پورا کرنے کا بوجھ عدالت کے کندھوں پر نہیں ۔ ویسے بھی عدالتی کمیشن کا فیصلہ کم از کم میرے لئے تو قطعاََ غیر متوقع نہیں اور کچھ اسی طرح کے خیالات میرے بہت سے دوستوں اور سپریم کورٹ میں صحافتی فرائض سرانجام دینے والے رپورٹرز کے بھی ہیں ۔

(جاری ہے)

دو برس تک دھاندلی دھاندلی کا ڈھول پیٹنے والوں کے پاس کوئی ایک بھی ثبوت اس بارے موجود نہیں تھا کہ ملک کے کسی بھی حلقے میں منظم دھاندلی کی گئی ہے اور مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے خود عدالتی کمیشن کے فیصلے سے پہلے ہی شکست کا اعتراف یہ کہتے ہوئے کرلیا تھا کہ پینتیس پنکچر ز کی بات تو سیاسی بیان تھا۔

دنیا جانتی ہے کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر عمران خان نے پینتیس پینتیس کی گردان کر کے نجم سیٹھی کا جینا حرام کردیا تھا۔ اور رہی سہی کسر ان کے سیاسی کزن اور ” مقدس غنڈے “ نے پوری کرد ی تھی ۔ سنا ہے آج کل دونوں کزنز کے درمیان دھرنے کے دنوں جیسے تعلقات نہیں ہیں بلکہ بہت دوریاں پید ا ہو چکی ہیں۔
اپنے کالموں میں کئی بار یہ خاکسار گزارش کر چکا ہے کہ دوہزار تیرہ کے انتخابات میں منظم دھاندلی کے کوئی امکانات ہی موجود نہ تھے اور پھر ا س کا الزام مسلم لیگ نواز کو دینا ایسا ہی ہے جیسے بھیڑیا بکری کے بچے سے کہے کہ تم پانی گندا کر رہے ہو۔

ایک ایسے ادارے (الیکشن کمیشن ) سے نقائص سے پاک انتخابات کی توقع بالکل بھی بجا نہیں جسے کسی سیاسی حکمران نے آزاد اور طاقتور بنانے پر توجہ دی الٹا آمروں نے اسے اپنے گھر کی لونڈی بنائے رکھا ۔جس ادارے کا سربراہ ایک ایسا جج ہو جس نے ساری پانچ سو بندوں کے کھانے کا انتظام نہ کیا ہو وہ ملک کی سب سے بڑی انتظامی مشق کو کیسے احسن طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے ؟ اور انتخابی عملہ ؟ماشا اللہ ، صرف ایک دن بلکہ حقیقتاََ چند گھنٹوں کی تربیت کے بعد میٹر ک ،ایف اے یا بی اے پاس اساتذہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑی سیاسی میلے کو غیر جانبدار اور شفاف انداز میں غلطیوں سے پاک کرنے کا فریضہ سرانجام دیں ۔

ان حالات اور ایسے وسائل میں کیونکر ایسا ممکن ہے ؟
کنٹینر پر کھڑے ہو کر ایمپائر کے نام کی دہائی دینے والے عمران خان آج یہ کہتے ہیں کہ دھرنے کے پیچھے کوئی نہیں تھا لیکن اعظم سواتی آج بھی کھلے عام اعتراف کرتے ہیں کہ ڈی چوک میں دھکا دینے والی اسٹیبلشمنٹ عین وقت پر ساتھ چھوڑ گئی جس کی وجہ سے منصوبہ پورا نہ ہوسکا۔ اب بھی اگر دانش کا مظاہرہ کیا جائے اور پی ٹی آئی کو یہ سمجھ آجائے کہ ” سو جوتے اور سو پیاز“ انہوں نے اپنی ہی غلطیوں کے سبب کھائے تو مستقبل میں ان کا بہت بھلا ہوگا لیکن امید اس کی مجھے کم ہے کہ صرف تحریک انصاف ہی نہیں ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت نے کبھی تاریخ سے یا اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔

دھرنے میں ایمپائر کی انگلی تو نہ اٹھی لیکن اس نے یہ واضح کر دیا کہ میچ جیتنا ہے تو کھیل کر جیتو، وکٹیں اکھاڑ کر پچ کے اوپر لیٹ کر واویلا کرنے سے ٹرافی نہیں ملنے والی ۔ ہٹ دھرمی لیکن عمران خان کی اب بھی دیکھنے کے لائق ہے فرماتے ہیں میرے اسمبلی جانے کا انحصارحالات پر ہے ۔ حضور والا !کون سے حالات ؟کیا زور زبردستی سے آپ کو قومی اسمبلی میں قائد ایوان کی نشست پر بٹھا دیا جائے تو حالات ایسے ہوں گے کہ آپ ایوان میں قدم رنجہ فرمائیں ؟خوابوں میں تو ایسا ممکن ہے لیکن حقیقت میں نہیں ۔


ترجیحات بدلنا ہوں گی ، ہر سیاسی گروہ کو اپنی ترجیحات میں سے ذاتی مفادات کا کیڑا نکالنا ہوگا۔ قوم کا رہنما کسی بھی حکمران سے بر تر ہوتا ہے ۔ قائد اعظم نے اس ملک پر دو برس بھی حکومت نہیں کی لیکن ستر برس گزر گئے اس قوم کے دلوں پر ان کا راج آج بھی قائم ہے ۔ اس لئے کہ ذاتی اقتدار نہیں بلکہ قوم کی عزت اور اقوام عالم میں ایک باوقار مقام ان کے پیش نظر تھا۔

ذاتی مفادات کو بالائے طا ق رکھ کر ہی آپ اپنی اور اس قوم کی عزت بحال کر سکتے ہیں ۔ خود حکومت کو وزیرا عظم محمد نواز شریف کی حالیہ تقریر کے مصداق پورے خلوص سے معاشی ،سیاسی اورسماجی شعبوں میں بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے ۔ ایک حد تک مفت ااور سستی اعلیٰ تعلیم ہر پاکستانی کا حق ہے اور اس حق کی پاسبانی حکومت کو کرنی چاہیے اس لئے کہ اس ملک اور قوم کے نوے فیصد سے زائد مسائل کا حل تعلیم و تربیت اور آگاہی میں پوشیدہ ہے ۔

صحت کا شعبہ بھی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کہ جہاں حکومتیں فنڈز فراہم کر بھی دیتی ہیں وہاں بعض نام نہاد مسیحاوٴں کی آڑ میں بیٹھے مگر مچھ عوام کی دواوٴں کا پیسہ شیر مادر سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ اقتصادی راہداری ایک انتہائی اہم منصوبہ ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں امن اور خوشحالی کے دور کا آغاز ثابت ہوگا لیکن یہ صرف شروعات ہیں۔ جی ہاں ! صرف شروعات ،اقوام عالم میں ایک باوقار اور طاقتور مقام کے لئے اس سے بھی بہت بڑے اقدامات کرنا ہوتے ہیں ۔


پنجابی کی کہاوت ہے ” قلفی کھوئے دی ۔۔۔ پلے ہوئے دی “ یعنی اچھے اور لذیذ کھانے کے لئے جیب میں وافر پیسے ہونا ضروری ہیں۔ طویل اور ہموار موٹرویز،میٹرو منصوبے ،میٹروٹرینز ،عالمی سطح کے تعلیمی ادارے اور تحقیق کا منبع جامعات اور مختلف شعبوں میں اسی طرح کے بے شمار منصوبے تب ہی ممکن ہیں جب ملکی خزانے میں ان کے لئے خاطر خواجہ پیسہ موجود ہو اور ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے پر خلوص،دیانتدار اور ہنر مندہاتھ۔

یہ سب کچھ حکومتی ذمہ داری میں شامل ہے پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی سمیت دوسری اپوزیشن جماعتیں بھی بری الذمہ نہیں ہیں۔ تنقید برائے تنقید کے کنوئیں سے نکل کر ایوان کے بائیں بازو کو خلوص نیت سے حکومتی غلطیوں اور مزید بہتراقدامات کی نشاندہی کرنا ہوگی ۔
عمران خان کے پاس تاریخ میں نام لکھوانے کا مگر ایک موقع اور بھی ہے ۔ سیلاب ہر سال آتے ہیں اور ہر برس ہی کالاباغ ڈیم کا مسئلہ سر اٹھا تا ہے ۔

خیبر پختونخوا میں انہیں سیاسی غلبہ حاصل ہے اگرملکی مفاد کے اس منصوبے کے حق میں وہ رائے عامہ ہموار کر سکیں تو نہ صرف یہ قوم ان کی مشکور ہو گی بلکہ ملکی ترقی میں ان کا حصہ بھی غیر معمولی ہوگا۔ سندھ اور بلوچستان کے تحفظات دور کرنا مشکل ضرور لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ پنجاب اس حوالے سے ہر ممکن قربانی پر بھی تیار ہوسکتا ہے لیکن اس منصوبے کی تکمیل سے جو فائد ہ باقی تین صوبوں کو ہوگا وہ پنجاب کے فائدے سے کہیں کم ہے لیکن اگر حقیقت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ۔

تمام متعلقہ فریقین کے اشتراک اور نابالغ ” بے وقوف ڈبے“ کی آنکھوں سے اوجھل ایک برس کی پرخلوص ،بھرپوراور انتھک کوششوں سے اگر اتفاق رائے نصیب ہوجائے تو بیس کروڑ کی آبادی میں سے کچھ لوگ ایسے مل ہی جائیں گے جو آئندہ دو برس میں کالاباغ ڈیم پر اس قدر کام مکمل کر دیں کہ پھر کوئی مائی کا لال کسی لسانی یا صوبائی عصبیت کی آڑ میں اس منصوبے کو متنازعہ نہ بنا سکے ۔ سو فیصد اتفاق رائے ویسے بھی کسی منصوبے کے لئے نہ تو ممکن ہے اور نہ دنیا بھر میں کہیں کسی جگہ اس نام کی کوئی بیماری پائی جاتی ہے ، گاجر اور چھڑی کا فارمولہ بھی لاگو کرنا پڑے تو قومی مفاد میں ایسا کر گزرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ خلوص نیت لیکن پہلی شر ط ہے ۔
واللہ عالم با الصواب ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :