کیا ہم یونہی سیلابوں میں ڈوبتے رہیں گے؟

ہفتہ 1 اگست 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

یہ ٹھیک ہے کہ قدرتی آفتوں کے آنے کو روکا نہیں جا سکتا مگر انسانی عقل اور وسائل کا استعمال کر کر کے ان سے ہونے والے نقصانات کو تو کم کیا جا سکتا ہے جیسے دیگر ترقی یافتہ ممالک نے کیا ہے۔ جاپان جہاں زلزلوں کی بہار رہتی ہے، وہاں انہوں نے عوام میں زلزلوں سے بچاو کی آگاہی کے ساتھ عمارتوں کی تعمیر اس طرح کی کہ جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو اسی طرح دیگر ممالک ہیں جہاں قدرتی آفتیں آتی رہتی ہیں لیکن انہوں نے بھی قدرتی آفتوں سے بچاو کے طریقے ڈھونڈ نکالے ہیں ۔

لیکن پاکستان میں گزشتہ کئی دہایوں سے آنے والے سیلابوں سے ہماری حکمران اشرافیہ نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔اب تو ہر سال سیلاب تباہی مچانے لگے ہیں۔تیزی سے رونما ہوتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں نے پاکستان میں سیلاب کو ہر سال کا مسئلہ بنا کر رکھ دیا ہے۔

(جاری ہے)

تجزیہ کاروں کے مطابق قدرت سے تو نہیں لڑا جا سکتا لیکن سیلابوں سے نمٹنا سیکھا جا سکتا ہے۔


گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس سال بھی پاکستان شدید سیلابوں کی زد میں ہے۔ بے قابو سیلابی پانیوں نے ملک کے کئی حصوں میں کئی دیہات ملیا میٹ کر دیے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں سڑکیں اور پل تباہ ہو چکے ہیں، گلگت، بلتستان اور چترال کی خوبصورت وادیاں آفت زدہ قرار پا چکی ہے۔ جنوبی پنجاب کے علاقوں میں بھی مکین در بدر ہو رہے ہیں، کہیں غذائی قلت کا خدشہ ہے اور کہیں وبائی امراض پھیلنے کا خوف چھایا ہوا ہے۔

بلند بانگ حکومتی دعووٴں کے باوجود تباہی کی یہ داستان پاکستان میں ہر سال معمول کی کہانی ہے۔
پاکستان جو پانی کی کمی کے شکار ملکوں میں شمار کیا جانے لگا ہے میں یہ افسوس ناک صورت حال اس ملک کی حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ جس ملک میں بے پناہ بارشیں ہوتی ہوں ، جہاں برف کے پہاڑوں کا سسلسلہ دراز ہو کیا اسے پانی کی کمی ہونے چاہیے ؟ ہم قدرت کی دی ہوئی اس مفت قیمتی نعمت کو اپنی نااہلی کے سبب نہ صرف ضائع کر رہے ہیں بلکہ اس سے جو نقصان ہو رہا ہے وہ بھی ناقابل تلافی ہے۔

شہروں میں چھوٹے چھوٹے پانی کے زخیرے صرف پبلک پارکوں کو کچھ گہرا کرنے سے بن سکتے ہیں جبکہ بڑئے زخیرے بناننے کے لئے بھی ہمارے پاس جگہ موجود ہے لیکن کیا ہے کہ ہم اس جانب توجہ نہیں دے رہے اور ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو رہے ہیں، درختوں کو بے دریغ کاٹا جارہا ہے جس سے قدرتی توازن خراب ہو رہا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے عالمی ماہر ڈاکٹر قمرالزماں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے سیلابوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

دریاوٴں کے پیٹ اور سیلابی میدانوں میں واقع وہ علاقے، جہاں موجود انسانی آبادیوں کو نوّے فیصد نقصان پہنچتا ہے، انہیں وہاں سے شفٹ کر دیا جانا چاہیے۔ ان علاقوں کو محدود کاشتکاری کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن وہاں بستیوں کا بسایا جانا درست نہیں ہے۔ ہم پورے پاکستان کو سیلاب سے نہیں بچا سکتے لیکن مناسب منصوبہ بندی اور موثر اقدامات کے نتیجے میں اہم اربن سینٹرز کو سیلابی نقصانات سے ضرور بچا سکتے ہیں۔


موسمی تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والے ماہرین اس ضمن میں یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے جو اثرات رونما ہو رہے ہیں، ان سے میڈیا، سیاست دان اور پالیسی سازوں سمیت سب لوگ پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں جتنے اور جیسے سیلاب آئے ہیں، ہم نے ایسے سیلاب سّتر اور اسّی کی دہائی میں نہیں دیکھے تھے۔

جدید دنیا میں فالٹ لائنز پر رہنے والے لوگوں نے اپنے تعمیراتی طریقوں اور طرز زندگی میں تبدیلیاں لا کر اپنے نقصانات کو کم کر لیا ہے لیکن ہم اتنے سالوں سے دریائی علاقوں میں موجود بستیوں کو نہیں ہٹا سکے۔ ہم پیشگی حفاظتی انتظامات کی بجائے آفت کے آنے پر شور مچانے اور آفت آنے پر کام شروع کرنے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں سیلابی نقصانات کو کم کرنے کے لیے نئے آبی ذخائر کی تعمیر، موجودہ آبی ذخائر کی مرمت و صفائی، حفاظتی پْشتوں کی مضبوطی، آبپاشی اور دیگر متعلقہ محکموں سے کرپشن کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔


پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک مئسلہ ہے اور جو شخص مکان خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، وہ دریائی علاقے میں جا کر گھر بنا لیتا ہے، ”پانی آنے پر اسے مدد کی ضرورت پڑتی ہے اور پانی جانے پر وہ پھر وہاں آکر دوبارہ آباد ہو جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے ملک بھر میں کوئی پالیسی نہیں ہے جس کا جو جی چاہے وہ کئے جارہا ہے ۔ ہمارا تربیلا ڈیم اپنی ایک تہائی سٹوریج کیپیسٹی کھو چکا ہے، ہم نے 1973ء کے بعد تربیلا جیسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ۔

پاکستان میں سیلاب کچھ لوگوں کے لیے آمدن کے مواقع بھی لے کر آتا ہے گلی گلی ٹینٹ لگ جاتے ہیں۔ اس سیلاب میں کچھ لوگوں کے گھر گر جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے شاندار گھر بن بھی جاتے ہیں۔ چین سمیت بہت سے ملکوں نے اپنی عقل اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے سیلابی نقصانات کو کامیابی کے ساتھ کم کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ قومیں آئندہ کئی برسوں کا سوچتی اور پلاننگ کرتی ہیں جبکہ ہم سوچتے ہی نہیں تو پلاننگ کیا کریں گے۔


کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کو گندی سیاست کی نذر کر کے ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے ساتھ مستقبل میں پانی کی کمی کاشکار ہونگے پر بھی کوئی نہیں سوچتا۔ہم نے قومی اہمیت کے تکنیکی معاملات کو بھی سیاست بازی کی نذر کر دیا اور آج اسی کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
آج کل جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہمیں بادلوں کی گھن گرج اور بارشوں کے برسنے سے لیکر سمندروں میں اٹھنے والے مد و جزر تک کا پیشگی پتہ چل جاتا ہے لیکن ہم پھر بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ڈوبنے والوں کو بچانے کا سامان نہیں کرتے سیلابی علاقوں میں لوگوں تک اطلاعات کی موثر فراہمی یقینی بنا کر سیلاب کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے نذدیک نہ ہی انسان کی کوئی وقعت ہے اور نہ اس کی املاک کی حالا نکہ ہم فصلوں ، پھلوں ، اور سبزیوں کی صورت میں سیلاب کے آنے سے بہت نقصان اٹھاتے ہیں مگر ان سے بچاو کے لئے تدابیر اختیار کی جائیں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :