سیاست ، ریاست اور موسم

اتوار 2 اگست 2015

A Waheed Murad

اے وحید مراد

آپریشن ضر ب عضب اب اگر قبائلی علاقے سے پورے ملک تک پہنچ گیا ہے تو کیا ہوا۔ ریاست یہی کرتی آئی ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ جو پالیسی بناتے ہیں اگر اختیارات کے تمام چشمے بھی انہی کے جوتوں کی ایڑی لگنے والی چوٹ سے پھوٹتے ہوں تو پھر منظر ایسے ہی ہونگے۔ مردمومن ، مرد حق سے معاملہ ہوتے ہوئے پاکستانی اتاترک پرویز مشرف تک پہنچا، اور پھر مفکر ودانش ور جنرل اشفاق کیانی نے بھی جمہوریت کی مضبوطی کیلئے (تین برس اضافی نوکری) اپنی خدمات پیش کیں۔

اب آئے ہیں شریفوں کی حکومت کے ساتھ شریف جنرل ۔ وردی والوں کی ہمیشہ تعریف میں رطب اللسان لکھاری ہر بڑے جوتے والے شخص کو جرنیل اور بہادر شاید اس لیے سمجھتے ہوں کہ وہ عالی جاہ کی جانب نظر اٹھا کر دیکھ نہیں پاتے کہ اس کے کندھے پر بیج کی صورت کون سا رینک آویزاں ہے۔

(جاری ہے)

تجزیہ مگر مسائل کا ادراک چاہتا ہے ، اور تجزبہ نگار کو شخصیت پرستی اور چاپلوسانہ طبیعت سے چھٹکارا پاکر اصول وضع کرنے ہوتے ہیں۔


سولہ دسمبر دوہزار چودہ کے بعد معاملات کس کے ہاتھ میں ہیں اور فیصلے کون کرتاہے؟ کیا اس بارے میں کسی کو شک باقی ہے؟۔ ہتھیار بند گروہوں کے خلاف محاذ سنبھالنے سے لے کر تاجروں سے ملاقاتوں تک میں وردی اور ڈنڈابردار بڑے جوتے نظر آتے ہوں تو پھر سیاست اور حکومت کرنے کی باتیں پارلیمنٹ میں بھی مضحکہ خیز لگتی ہیں۔ ووٹ، مینڈیٹ، عوام اور جمہوریت کااسٹیج ڈرامہ اگر چہ اچھا ہے مگر اداکاری انتہائی بری ہے اور اس پر ایوارڈز ملنے کی توقع نہ رکھی جائے۔

دھاندلی اور احتجاج کرنے والے اپنی مستی میں مست ہیں، ان کی بلا سے جمہوریت تو کیا ملک اور اس کے جمہوری ادارے بھی بھاڑ میں جائیں، اگر ان کو اقتدا ر نہیں ملتا۔ ۔۔۔۔۔
مگر خود ایک جرنیل کے کہنے پر دھرنا کو سمیٹنے والے جب حکومت پر بے اختیار ہونے کی پھبتی کستے ہیں تو شیخ رشید جیسا مسخرہ سیاستدان یاد آجاتاہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی پارکنگ میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران اینکر نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ فوج یمن جانی چاہیے کہ نہیں؟۔

شیخ رشید نے جواب دیاکہ وہ فیصلہ تو ہوچکاہے اور جنرل راحیل شریف ہی بااختیار ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ خدانخواستہ اگر یمن میں فوج کے جوانوں کو نقصان پہنچا اور اموات ہوگئیں تو ذمہ دار کون ہوگا؟ شیخ رشید نے اسی سانس میں جواب دیا کہ حکومت اور وزیراعظم نوازشریف۔
راول پنڈی جیسے گنجان آباد شہر کے بیٹے سے پورے پاکستان کے بیٹے(فرزند پاکستان) بن جانے والے شیخ رشید جو عام طور فوج کے خودساختہ ترجمان سمجھے جاتے ہیں ،نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہاکہ وزیردفاع خواجہ آصف آج تک فوجی ہیڈکوارٹر میں موجود اپنی وزارت کے دفتر نہیں گئے۔

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وزیر دفاع اپنے دفتر جاسکے یا نہیں، اصل مسئلہ اس کے اختیارات کا ہے، اور شاید اس سے بھی بڑھ کے ملک کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم کے اختیارات کا۔ سولہ دسمبر 71کے سانحے سے(جب نوے ہزار فوج نے بدترین دشمن بھارت کے سامنے ہتھیارڈالے تھے) شاید ہم نے یہی سبق سیکھا کہ سولہ دسمبر 2014کے سانحے کے بعد ریاست، ملک اور حکومت کو اپیکس کمیٹیوں( جس کی سربراہی کور کمانڈر کرتے ہیں) کے حوالے کردیاہے۔


ریاست شیخ رشیدوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور جاوید ہاشمیوں کو پاگل قرار دیتی ہے۔ ریاست دنیا کی سب سے طاقتور اور بے رحم چیز ہے۔ ریاست کو ماں کے جیسی بنانے کے دعویدار اسی لیے چند ٹکوں کے عوض ریاض ٹھیکیدار کیلئے عدالتوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ان کو اندر کی تمام حقیقتوں کا علم ہوتاہے، وہ جانتے ہیں کہ خالی شاعری اور انقلاب آفریں بیانات سے ایل پی جی کے کوٹے نہیں ملاکرتے۔

اور مالیاتی مسائل حل نہ ہوں تو سب سے بڑا تبدیلی کا علمبردار بھی اصول ترک کردیتاہے اور جہانگیر ترین کے خلاف فیصلہ دینے والے اپنی ہی پارٹی کے بزرگ اور قابل احترام ریٹائرڈ جج کے دلائل پر ہنستا ہے۔
ریاست کا فیصلہ حتمی ہوتاہے اور فیصلہ ساز اگر چاہیں تو ریاست کو بچانے کے نام پر چند کروڑ لوگوں کو ایٹم بم چلا کر قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

ایک پڑھے لکھے شہری کو ریاست کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ماضی قریب میں جن لوگوں نے جذبات میں آکر ریاست کا ساتھ دیا، مرد مومن مرد حق کو ابدی سمجھ لیا، پوری دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرانے کے خواب دکھانے والوں کی باتوں میں آگئے مگر ان کی جیبوں پر نظر نہ کی، اور پھر ان کو نظر لگ گئی،ریاست کی نظر۔ اور آج ملک میں کوئی سیلاب کی نذر ہورہاہے، کوئی اسلام آباد میں وفاقی ترقیاتی ادارے کے بلڈوزر کی نذر۔

مگر وہ جو ریاست کی باتوں میں آگئے تھے ریاست کی بندوقوں کی نذر ہورہے ہیں۔ ریاست کی رٹ بحال ہورہی ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ پہلے ہی کی طرح بحال ہوگی۔اگر اس ریاست کے بارے میں کسی کو اڑسٹھ برس گزرنے کے بعد بھی شک ہے تو اس کی عقل ٹھکانے پر نہیں ہے۔
کسی بھی شہری کو ریاست کا وفادار ہونا چاہیے مگر اس کو ریاست کیا ہے، کیوں اور کون ہے؟ کا سوال کبھی نہیں پوچھنا چاہیے۔

ریاست کو چلانے کیلئے ایک لکھی ہوئی دستاویز بھی تیار کی جاتی ہے جس کو آئین یا دستور کہتے ہیں، مگر یہ باتیں صرف کتابوں میں ہی درج اچھی لگتی ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ عام شہری کو یہ معلوم ہو کہ ریاست کس کا نام ہے۔ ریاست کی آج کل کیا سوچ ہے۔ ریاست سے سر چھپانے کیلئے چھت مانگنے والے اگر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن میں کسی سے اچھے تعلقات بناکر نوکری حاصل کرلیں تو عقل مندی کا ثبوت دیں گے۔
امید ہے آپ لوگوں کو میری باتیں سمجھ نہیں آئی ہونگی۔ ویسے بھی سیاست کی بجائے ریاست کی باتیں بہت خشک محسوس ہوتی ہیں اور لوگ موسم سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ آئیے مارگلہ کی پہاڑیوں کو چلتے ہیں شام خنک ہو چلی ہے، ساون کی بارش میں بھیگنے کا اپنا مزا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :