امن اور عوام !

پیر 3 اگست 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سر ونسٹن چرچل برطانیہ کے مشہور وزیر اعظم تھے ، انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کیا ،وہ1901میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے 1965میں انتقال کر گئے ۔وہ ہوم سیکرٹری، نیوی اور فضائیہ کے سربراہ ،وزیر جنگ ، وزیر خزانہ اور اسلحے کے وزیرسے ہوتے ہوئے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچے۔

1936میں برطانوی وزیر اعظم چیمبر لین نے ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی تو چرچل میدان میں کو د پڑا ،یہی وہ وقت تھا جب چرچل کو برطانوی سیاست میں ”ان “ ہو نے کا موقعہ ملا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہو ئی تو اسے ایڈ مرل کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کر لیا گیا اوروہ مئی 1940میں برطانیہ کا وزیر اعظم بن گیا ۔ہٹلر نے خود کشی کی اور 1945میں جنگ ختم ہو گئی ،برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت قائم ہو ئی، چرچل قائد حزب اختلاف بن گیا ،یہ وہ دور تھا جب روس اور مغربی اتحادیوں میں سرد جنگ عروج پر تھی ، چرچل نے اس سرد جنگ میں روس اور مغربی اتحادیوں میں اختلافات بڑھانے میں اہم کر دار ادا کیا ، وکٹری کا نشان اور روس کے خلاف ”آہنی پردے “ کی اصطلاح بھی اسی نے ایجاد کی ۔

(جاری ہے)

1951کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کو دوبارہ منظم کیا ،الیکشن ہوئے ،قدامت پسند پارٹی جیت گئی ، چرچل دوبارہ وزیر اعظم بنااور 1955میں بڑھاپے کی وجہ سے سیاست سے الگ ہو گیا ۔ ونسٹن چرچل کو سیاست کی دنیا کا امام کہا جاتا ہے ،دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور جرمنی کی شکست میں ا سنے اہم کردار ادا کیا ، کہا جاتا ہے اگر دوسری جنگ عظیم میں چرچل نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو تا ۔

جرمنی کے بعد وہ روس کا بھی خاتمہ چاہتا تھااور اس کے لیئے اس نے مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر بھر پور لابنگ کی، امریکی صدر روزویلٹ نے اس لابنگ کی مخالفت کی جس کی وجہ سے روس بچ گیا۔چرچل برطانوی نوآبادیات کی آذادی کا سخت مخالف تھا ، اس نے صرف اس وجہ سے وزیر اعظم بننے سے انکار کر دیا تھا کہ اسے بطور وزیر اعظم ہندوستان کی آذادی کی تقریب کی صدارت کر نی پڑنی تھی ۔

چرچل اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کا سخت مخا لف تھا لیکن وہ اسلامی تہذیب وثقافت کا دلدادہ تھا ، بلنٹ اس کا ایک عربی دوست تھا ،چرچل اس کی پارٹیوں میں جاتا تو عربی جبہ اور لباس زیب تن کرتا ،اسلامی تہذیب کی طرف اس کا رجحان اس قدر شدید تھا کہ اس کے گھر والوں کو اس کے مسلمان ہونے کا ڈر رہتا ، چرچل نے ایک بار خط میں لکھا کہ وہ پاشا بننا چاہتا ہے جس پر اس کی بھابھی نے اسے ایک خط تحریر کیا جس میں لکھا ”مہربانی کر کے آپ اسلام قبول نہ کریں میں نے یہ نوٹ کیا ہے آپ میں مشرقی تہذیب کو قبول کرنے اور پاشا بننے کے رجحانات پائے جاتے ہیں “
ونسٹن چرچل کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار قوم سے خطاب کے لیئے اسے ریڈیو اسٹیشن جانا تھا ، وہ سڑک پر آیا اور ایک ٹیکسی والے کو اشارہ کیا کہ اسے برٹش براڈ کاسٹنگ ہاوٴس جانا ہے ، ٹیکسی ڈرائیور نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ چرچل کی تقریر سننے جارہاہے ،چرچل یہ سن کو جھوم اٹھا اور جیب سے ایک پاوٴنڈ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا،ٹیکسی ڈرائیور نے پاوٴنڈ دیکھا تو بولا ”بھاڑ میں جائے چرچل اور اس کی تقریر ، آپ بیٹھیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہو ں آپ جیسا رحم دل اور نیک انسان مجھے کہاں ملے گا “ چرچل نے بتایا کہ میں ہی چرچل ہوں اور مجھے ہی تقریر کرنے جانا ہے تو ٹیکسی ڈرائیور بہت شرمندہ ہوا اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی ، چرچل نے اسے سمجھاتے ہو ئے کہا ” کو ئی بات نہیں روپیا پیسا اکثر تعلقات اور رشتے بھلا دیتا ہے “چرچل ایک بار پاگل خانے گیا اور وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا ”آپ کا تعارف “اس شخص نے جواب دیا”میں پاگل خانے میں زیر علاج تھا ابھی صحت یاب ہو گیا ہوں اور آج گھر جا رہا ہوں ۔

“اس نے چرچل کا تعارف پوچھا تو چرچل نے کہا ”میں برطانیہ کا وزیر اعظم ہوں “وہ شخص قہقہے لگا نے لگا ، آگے بڑھا اور بڑی ہمدردی کے ساتھ چرچل کے کندے پر ہاتھ رکھ کر کہا ”میاں فکر نہ کرو آپ بہت جلد ٹھیک ہو جا وٴ گے ، یہ بہت اچھا ہسپتال ہے ، یہاں آنے سے پہلے میں بھی خود کو برطانیہ کا وزیر اعظم سمجھتا تھالیکن اب میں مکمل طور پر ٹھیک ہو “
بات دور نکل گئی ہم واپس آتے ہیں ،چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو شکست سے بچایا تھا ،جنگ کے فورا بعد برطانیہ میں الیکشن ہوئے تو برطانوی عوام نے چرچل کو ووٹ دینے سے انکا رکر دیا ،برطانوی عوام کا شعور قابل تحسین ہے ان کا کہنا تھا کہ چرچل ایک جنگی ہیرو ہے اور اب ہمیں جنگ نہیں امن چاہیئے اس لیئے چرچل برطانیہ کی تعمیر نو اور امن کے لیئے موزوں امیدوار نہیں ۔

برطانوی عوام نے مناسب وقت پر درست فیصلہ کیا ، برطانوی عوام جانتے تھے کہ چرچل ایک جنگجو ہے اور ایک جرنیل سے صرف جنگ کی امید ہی کی جا سکتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے چرچل اگر الیکشن جیت جاتاتو دنیا ایک نئی جنگ میں مبتلا ہوجاتی ۔ کسی ملک کی ترقی اور بہتری میں سیاسی کو ششوں کی بجائے عوام کی شعور ی کوششوں کا عمل دخل ذیادہ ہو تا ہے اگر عوام با شعور ہوں تو حکمران ذیادہ دیر تک غلط راستے پر نہیں چل سکتے ۔

پاکستان کو اس وقت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ، امن وا مان کا قیام پاکستان کے لیئے سب سے بڑا چیلنج ہے ، جب تک اس ملک میں امن قائم نہیں ہو گا معیشت ترقی کرے گی ، غیر ملکی سرمایہ کار آئیں گے ، دہشت گردی سے جان چھوٹے گی اور نہ ہی یہ ملک خوشحال ہو سکے گا۔ سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے ساتھ عوام کو چاہیئے کہ وہ اپنے رویوں پر بھی نظر ثانی کریں اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ،ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی تمام برائیوں اور تمام مسائل کا دوش حکمرانوں کو دیتے ہیں اور خود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں سب ٹھیک چل رہا ہے ،شاید ایسے کام نہیں چلے گا ۔

عوام کوبھی اپنی سطح پر قیام امن کے لیئے کوششیں کرنی ہوں گی ، اور یقین کریں جس دن اس ملک میں امن قائم ہو گیا اس دن اس ملک کے پچا س فیصد مسائل حل ہو جائیں گے ۔، آپ دنیا کی ابتدائی ریاست کو دیکھیں حضرت ابرہیم علیہ السلام جب مکہ آئے تھے تو انہوں نے سب سے پہلی دعا یہ کی تھی کہ اے اللہ اس شہر کو امن والا بنا ،نہ حکومت، نہ معیشت ، نہ زراعت اور نہ روز گار بلکہ پہلے امن کی دعا کرتے ہیں اس سے ہمیں اپنی اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں امن کا حساس ہو جانا چاہیئے ۔

آپ ایک اور مثال دیکھیں ، آپ دنیا کے 260ممالک کی ایک فہرست بنائیں اس میں ترقی یافتہ ممالک کو الگ کریں ،ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک کو ایک سائیڈ پے رکھ دیں ،آپ کو نظر آئے گا ترقی یافتہ ممالک صرف اس لیئے ترقی یافتہ ہیں کہ وہاں امن اور قانون ہے اور کو ئی شخص قانون کی حکمرانی سے بچ نہیں سکتا ،ترقی پذیر اور تیسری دنیا صرف اس لیئے پیچھے ہے کہ وہاں امن ہے نہ قانون او ر نہ قانون کی حکمرانی۔

آپ آج پاکستان میں امن قائم کردیں اگلے دس سال میں پاکستان ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کندھا ملائے کھڑا ہو گا ،پھر معیشت بھی ترقی کرے گی ، روز گار بھی آئے گا ، غیر ملکی سرمایہ کار بھی آئیں گے اوریہ ملک ترقی بھی کرے گا ۔ میرے خیا ل میں اگر ہم واقعی اس ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی ، اپنے طرز فکر کو بدلنا ہو گا اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر نا ہو گا ،اگر ہم اپنے چھ فٹ قد میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایک دن یہ ملک بھی تبدیل ہو جائے گا اور اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو پھر انتظار کریں تقدیر اپنا فیصلہ سنا کر رہتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :