الطاف بھائی!اب بس کردیں

بدھ 5 اگست 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ ساون کے اندھے کو بڑی ہی دور کی سوجھتی ہے، پتہ نہیں کہنے والوں نے مقولہ دہرانے کی کوشش کی ہے یا پھر الطاف بھائی کی آئے روز تقاریر سن کر یہ جملہ باربار دہرایاجارہاہے، کیونکہ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ الطاف بھائی دن میں چاند اوررات کو سورج ڈھونڈنے کی وہی غلطی دہرارہے ہیں جس کی تلاش میں آدمی پاگل اور آنکھوں سے محروم ہوجاتا ہے ،لیکن سمجھائے توکون کہ یہاں سبھی عقیدت کے اندھوں کابازار سجا ہے۔

موصوف پر ترنگے کی اس قدر محبت غالب ہے کہ ہربار بلکہ باربار ہی اسی کی جانب اشارہ کرکے گنگناتے ہوئے فرماتے ہیں ” تم بڑے ہی دردی ہو، درد دے کر بھی دو انہیں دیتے“ بات اب چونکہ درد سے آگے بڑھ چکی ہے ،کراچی آپریشن کے بعد رینجرز اورحساس اداروں کا پاؤں ان کی دم پرپڑچکا ہے اورلندن میں عمران فاروق قتل ان کے گلے کی زنجیر بنا ہوا ہے ظاہر ہے کہ جب دم پر پاؤں دھرا ہو اورگلے میں زنجیر اٹکی ہوئی ہوتو بندہ خود کوچھڑانے اور بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں تو مارتا ہے لیکن یہ بھی کیا عجب ہے کہ بندہ دشمنوں کو ہی پکار تا پھرے۔

(جاری ہے)

لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ بندہ کسی بھی مشکل میں اپنے ہی دوستو ں کو مددکیلئے پکار تا ہے پھر نہ دین دھرم کی پرواہ ہوتی ہے اورنہ ہی رشتوں کی، سو الطاف بھائی بھی ان دنوں جکڑی دم اور اکڑی گردن کے ساتھ اپنے دوستوں کوپکاررہے ہیں بلکہ جملہ معترضہ ہے کہ بھائی نے پکارتے پکارتے اب طعنے بھی دینا شروع کردئیے ہیں جیسا کہ پچھلی رات فرمارہے تھے کہ ”بھارت بزدل ، ڈرپوک ہے اگر وہ بہادر ہوتاتو کراچی میں مہاجر قتل نہ ہوتے “ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے لوگ حیران ہیں کہ بھائی عجب دور کی ڈھونڈ لائے ہیں کہ قتل کراچی میں ہورہے ہیں اور بھارت مدد کو آئے یعنی ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ بھائی دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بھارت آخر اپنے تنخواہ داروں کوبچانے کیوں نہیں آتا ، ظاہر ہے کہ مالک کی گردن پھنسے تو نوکر کی شامت آجاتی ہے اوراگر نوکر پھنسے تو مالک کو اپنی جان کے لالے پڑے رہتے ہیں، سواب مالک نے اپنی گردن بچانے کیلئے تنخواہ داروں پر توجہ دینا چھوڑدی ہے ۔

سواب چیخ وپکار کیسی؟؟
بھائی نے طعن وتشنیع پر ہی بس نہیں کی بلکہ وہ تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے ،فرماتے ہیں اقوام متحدہ کراچی میں نیٹوافواج بھجوائے، لو کرلو گلاں․․․․․․ بھائی کو چاہئے کہ وہ کچھ دن واقعی آرام کریں کیونکہ اب ان کاذہنی خلل بڑھتا ہی جارہاہے، یہ بھی کرنے کی بات ہے کہ جرائم پیشہ افراد کیخلاف کاروائی ہو ، پہلے بھائی کہتے ہیں یہ ہمارے نہیں لیکن آگ کی تپش انہی کی طرف بڑھنے لگی تو چیخنے لگے ”ہائے میں جلا ہائے میں جلا“ گویا جن کو اپنانے سے گریزاں تھے ان کے جلنے کی تپش انہی تک تو آپہنچی اب بیچارے دم دباکر اورکبھی اچھل کود کر دنیا کو متوجہ کررہے ہیں کہ ان کی دم کو آگ لگادی گئی ۔


بعض لوگوں کااعتراض ہے کہ الطاف بھائی ہمیشہ ہی دشمن ملک بھارت سے مدد کے طالب رہتے ہیں ،بعض کملے لوکی موصوف کو جی ایم سید سے جاملاتے ہیں جو سندھو دیش کا نعرہ لگاتے لگاتے اللہ میاں کو پیارے ہوگئے بلکہ بعض لوگوں نے جملہ معترضہ کہا کہ وہ بھارت کو پیار کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے مگر دوسری جانب سے کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہ آیا۔ اب الطاف بھائی کراچی کو الگ صوبہ بناتے بناتے اکھنڈ بلوچستان، اکھنڈسندھ اور پتہ نہیں کیا کیاسوچ کر لوگوں کے کانو ں میں انڈیل رہے ہیں ، لگتا ہے کہ انہوں نے اپنا ”تقریری مشیر“ تبدیل کرلیا ہے جو انہیں ہی نہیں ان کی پارٹی کو بھی ڈبونے پر تلا ہوا ہے، یعنی کھلے عام ریاست اورریاستی اداروں کو چیلنج کرنا غداری نہیں تو کیا ہے؟
دوسری جانب ایک بارپھرحکومت نے اس بارے ریفرنس کا عندیہ دیکر قوم کو تھپکی دیکر سلانے کی کوشش کی ہے، مگراب کی بار لگتا ہے کہ معاملہ ریفرنس سے کہیں آگے جاپہنچا ہے ۔

دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آنکھوں سے ”سیاسی مفاہمت “ کی پٹی کو اتار کر ”ملکی مفاد “ کی عینک کب لگاتی ہے۔
حکومت کو چھوڑئیے کہ ہمارے ہاں اپوزیشن میں بات کرتے ہوئے لہجہ الگ ہوتا ہے اورحکومت میں آنے کے بعد ”ٹون“ ہی بدل جاتی ہے جیسا کہ ن لیگ کے شیروں نے اپنی رام لیلیٰ شروع کی تو انداز الگ تھا اوراب الف لیلیٰ تک جب بات پہنچی ہے تو انداز جدا ہوگیا ہے بلکہ اب تو کبھی کبھار غصے کے مارے دانت تک پیستے دکھائی دیتے ہیں یعنی جب بے بسی کاشکار تھے تو دانت پیسا کرتے تھے اوراب طاقت کے نشے میں بھی دانت پیسے جارہے ہیں۔

گو کہ نقصان کسی اور کا نہیں ہونا بلکہ اپنے ہی دانتوں سے محروم ہوجائیں گے ،خیر الطاف بھائی کاذکر چل رہاتھا کہ تو سنئے کچھ ہی سال پہلے موصوف بھارت گئے تو اقتدار اوراپوزیشن والوں سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر ”عرض گزار “ رہے کہ خدا کیلئے سندھ میں مہاجروں کاقتل عام بند کرائیں، اس وقت بھی حیرت ہوتی تھی اورآج بھی حیرت ہوتی ہے کہ جو شخص خود کو ساٹھ پینسٹھ سالوں میں ”پاکستانی “ نہ سمجھ سکا اورآج تک مہاجر ہی تصور کرتاہے وہ کیسے حب الوطنی کادعویدار ہے، اسے اگر سندھ اورکراچی سے محبت کادعویٰ ہے تو سب سے پہلے تسلیم کرناہوگا کہ وہ پہلے پاکستانی ہے پھر سندھی اورپھر مہاجر ․․․․․مگر ․․․․وائے افسوس ایسا نہیں ․․․․․․چلئے چلئے قیام پاکستان سے پہلے چلنے والی تحریکوں کاجائزہ ہی لے لیں، دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ اورکانگریس اپنی اپنی طاقت آزمارہی تھیں ایک کامنشور لسانیت یعنی علاقائیت تھا ،جو پنجاب کا رہنے والا ہے چاہے وہ ہندو ہے یاسکھ یا مسلمان یا پھر عیسائی ، وہ پنجابی ہی کہلائے گااسی طرح جو سندھ میں آبا د ہے مگر ہے ہندو، مسلمان، سکھ عیسائی مگر سندھی ہی کہلائے گا ،یہ لسانیت کی بنیاد تھی جس کے بل بوتے پر کانگریس نے الیکشن لڑا لیکن مسلم لیگ کا منشور دوقومی نظریہ تھا یعنی مسلمان چاہے کسی بھی صوبے میں رہتا ہے وہ مسلمان ہے وہ اولاً مسلمان ہے پھر اس کے بعد اس کی کوئی دوسری پہچان ہے، یعنی لسانیت کا درس اس وقت بھی کانگریس کا منشورتھا اورآج بھی یہی منشور ہے ۔

آج بھار ت میں کانگریس برسراقتدار نہیں مگر جو بنیادپڑی تھی اسی پر آج بھی حکومتیں عمل پیراہیں، اگر پاکستان میں رہ کر کوئی لسانیت کی بات کرے تو سمجھ لیجئے کہ وہ بھارت کانمک خوار تھا اور ہے ․․․․․یقینا بھائی اوراس کے ماننے والوں کو اگر اس چھلنی سے گزارا جائے تو واقعی عقدہ کھل جائیگا۔لہٰذا آخری بات کے طورپر یہی مشورہ دیں گے کہ الطاف بھائی اب بس کردیں اور اگرآپ کو پاکستان سے اتنی ہی نفرت اوربھارت سے پیارہے تو پھر اسی کو ہی گلے لگائیے چھوڑئیے پاکستان میں کیا رکھا ہے؟؟مگرایک بات یاد رکھئے کہ بھارت ماتا میں مسلمان کیلئے کوئی جگہ نہیں،یقین نہیں آتا تو دو روز قبل پھانسی چڑھنے والے یعقوب میمن کی کتھا پڑھ لیں ،پھر بھی یقین نہ ہو تو پھر برسراقتدار بی جے پی کا منشور ہی پڑھ لیں ۔

مگر کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ بھائی جس طرح گرگٹ جیسے رنگ بدلتے ہیں ان کیلئے مذہب بدلنا کونسا مشکل کام ہوگا۔ سوبھارت کی محبت میں․․․․․․․․باقی رہے نام اللہ کا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :