چیف جسٹس جواد ایس خواجہ

ہفتہ 22 اگست 2015

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

وزیرآبادسے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس آف پاکستان جناب جواد ایس خواجہ کی شخصیت پہلے دن سے انفرادیت کی حامل رہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی حیثیت سے 17اگست 2015کو حلف اٹھانے کی تقریب بھی یادگار حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جناب چیف جسٹس کی تاریخ، جرأت مندانہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ کا حلف برداری کی تقریب سے تاریخی خطاب میرے لئے نیا نہیں تھا۔

قانون کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں ان کے ماضی سے آگاہ ہوں اور ایسے ہی اقدامات کی توقع کر رہا تھا جن کا جسٹس جواد ایس خواجہ نے اعلان کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ چیف جسٹس کے حلف کی تقریب اردو میں کروانا بھی ان کا منفرد اعزاز ہے۔ خوبصورت یاد گار تقریب میں پہلی دفعہ چیف جسٹس کا اپنا پورا عملہ بھی موجود تھا۔

(جاری ہے)

شاید انہیں بھی جناب چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس لئے بلا رکھا تھا ۔

دیکھو میں آج پاکستان میں تبدیلی کا آغاز کر رہا ہوں۔اپنا پاکستانی ہونے کا عملی ثبوت دیتے ہوئے قومی زبان میں حلف لے کر عملی طورپر سادگی اپنانے کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہوں۔ آپ لوگوں کو بھی میرا ساتھ ایسے ہی دینا پڑے گا۔جسٹس خواجہ کا ایک ایک عمل انفرادیت کا حامل بنا رہا ہے۔ وہ 9ستمبر کو صرف 23دن چیف جسٹس آف پاکستان رہنے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔

لیکن قیام پاکستان کے 68سال بعد جس چیف جسٹس نے قومی زبان میں حلف برداری کی تقریب کرکے جو بنیاد رکھ دی ہے وہ عدلیہ سمیت دیگر اداروں کے لئے مضبو ط راہ عمل کا باعث بنے گی۔ حلف کے بعد ہر معاملے میں سادگی اپنانے ، ایئرپورٹس سمیت کسی جگہ وی وی آئی پی لاؤنج استعمال نہ کرنے اور چیف جسٹس کی رہائش گاہ میں منتقل نہ ہونے اور بلٹ پروف گاڑی نہ لینے سمیت دیگر سادگی کے اعلانات کرکے یقینا نئی تاریخ رقم کی ہے ۔

میری ذاتی رائے میں ان کی زندگی کے ایف سی کالج سے لے کر پنجاب یونیورسٹی لا کالج تک یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کرنے تک لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکالت کے جوہر دکھانے تک اور بطور استاد لاہور کالج آف مینجمنٹ سائنسز (لمز)میں طویل عرصہ تک خدمات انجام دینے تک لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے مستعفی ہو نے کے فیصلے تک ایک ایک مرحلہ یاد گار اوراہمیت کاحامل رہا ہے ۔

غیر جانبداری ان کے عمل کا حصہ رہی ہے ۔آج اگر وطن عزیز میں بلدیاتی انتخابات کا خواب عرصہ بعد شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے تو وہ سو فیصد جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کی جرات مندانہ روایات کا نتیجہ ہے۔ورنہ گزشتہ چار سال سے جس انداز میں صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کی طرف سے بلدیاتی اداروں کے انتخابات سے راہ فرار اختیار کی جاتی رہی۔ وہ سب کے سامنے ہے ۔

آج جسٹس خواجہ کے دلیرانہ فیصلوں کے بعد دو صوبوں اور کنٹونمنٹ بورڈ میں الیکشن کا انعقاد ہو چکا ہے اور پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کی طرف سے ایک دفعہ پھر الیکشن کے التوا کی تمام کوشش جسٹس خواجہ کے دو ٹوک موقف کی وجہ سے دم توڑ چکی ہیں اور 12 اکتوبر کو پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے کا اعلان کر دیا گیا ہے،چیف جسٹس آف پاکستان کی زندگی کے خوشنما پہلو یقینا بڑے نام کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔

مگر جو گزارشات میں نے کرنی ہیں وہ بھی سادہ منش، جرأت مند چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ سے ہیں۔ جناب والا۔حلف اٹھانے کے بعد آپ کے اعلانات آپکی ذات تک محدود رہیں گے ۔ قوم آپ کے 23روزہ دور کو 68سال سے مسلط انگریز ی نظام کی تبدیلی کے عمل سے دیکھ رہی ہے۔کیا آپ کے اردو میں حلف پڑھنے سے ہمارے وطن عزیز پر مسلط کردہ انگریزوں کے عدالتی نظام اور طریقہ عمل پر بھی کچھ اثر ہوگا۔

پولیس،فوج،دیگر ایجنسیاں بڑی مشکل سے جانیں قربان کرنے کے بعد ملزمان کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کرتی ہیں۔ہمارا فرسودہ عدالتی نظام انہیں دو تین پیشیوں کے بعد رہا کر دیتاہے اور ملزمان پھر رہائی کا بدلہ مظلوم عوام سے جس انداز میں لیتے ہیں اس سے آپ آگاہ ہیں اپنے قومی زبان میں لئے گئے حلف کی پاس داری کرتے ہوئے پورے عدالتی نظام کو قومی زبان میں کرڈالیے۔

جناب والا ! ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ سے انصاف لینے کے لئے لاکھوں اور کروڑوں روپے درکار ہیں۔ جناب والا! سول کورٹ ،ڈسٹرکٹ کورٹ اورہائی کورٹ میں انصاف کے سرعام سودے ہو رہے ہیں۔ظالم سرمایہ کار،جابر جاگیردار ہر چیز کا سودا کرنے پرتلُا ہوا ہے۔ 1000روپے کی چوری میں گرفتار ہونے والا دس دس سال جیلوں میں سڑ رہا ہے اور کروڑوں اور اربوں ہڑپ کرنے والے قانون کے رکھوالوں کی نگرانی میں عیش کر رہے ہیں ۔

وکلاء گردی عدالتی نظام کو گرفت میں لے چکی ہے۔ 10ہزار روپے لینے والے وکیل سول کورٹ اورڈسٹرکٹ کورٹ میں کیس کی سماعت دو دو سال لٹکانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔پانچ پانچ مرلے زمین کے کیس دس دس سالوں سے ڈسٹرکٹ اور سول کورٹ کے درمیان ہیں۔ جناب والا!آپ سب سے آگاہ ہیں،جیلوں میں کیا ہو رہا ہے۔ سرمایہ کار جیل میں بھی حکمرانی کر رہا ہے۔ 20کروڑ عوام آپ کی حلف برداری کی اردو میں تقریب کے انعقاد اور اردو میں حلف سے خوش ہیں اور سادگی کا درس بھی قابل ستائش ہے۔

عدالتی نظام کی تبدیلی کے لئے بھی کچھ ہوگا؟ عوام کے لئے بھی کچھ ہوگا؟عوام پولیس ،فوج انقلاب میں رکاوٹ صرف عدلیہ کو سمجھ رہی ہے۔؟ کیا وقت نہیں آیا عدالتی نظام سے اردو کا آغاز کر دیا جائے اور بیوروکریسی سمیت تمام اداروں میں اردو کو بطور قومی زبان رائج کر دیا جائے۔ عدالتوں سمیت اسمبلیوں میں اردو کا راج ہو۔ یقینا آپ کر سکتے ہیں۔23دنوں میں کچھ کر گزئیے جناب قوم آپ کی منتظر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :