جنگ کی کہانی میری زبانی

اتوار 6 ستمبر 2015

Abdul Rauf

عبدالرؤف

جنگ ستمبر 1965ء کے دن بچپن سے ہی یاد کرتے آ رہے ہیں۔ فوجی جوانوں کی بہادری کے قصے اور عوامی جذبے کی کہانیاں والدین اکثر سنایا کرتے تھے اور ہم بچے خاص کر میں ان باتوں میں بہت دلچسپی محسوس کرتا تھا۔ جنگ ستمبرمحض جنگ نہیں تھی یہ قوم کے جذبے اور ولولے کی ایس 17روزہ کہانی تھی جسے قوم نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے مقابلے میں نہ صرف دفاع کیا بلکہ دشمن کے علاقے پر قبضہ بھی کیا۔

میرے والد سول آدمی تھے۔ مگر انہیں جنگ زدہ علاقے میں جانے کا موقع ملا آئیے انہی کی زبانی سنتے ہیں۔ یہ 1964-65کے ہی سال تھے جب مجھے کالج کی تعلیم چھوڑ کر والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونا پڑا۔ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے صرف میں ہی تھا جو ان کا ہاتھ بٹا سکتا تھا چنانچہ میں والد صاحب کے مشورے پر کاروبار میں شامل ہو گیا۔

(جاری ہے)

ان دنوں جنگ کی وجہ سے ریڈیو کی مانگ میں بہت اضافہ ہو چکا تھا۔

چنانچہ مجھے اپنے آبائی شہر سے خریداری کے لیے لاہور آنا پڑتا۔ جہاں چیمبر لین روڈ پر واقع نثار آرٹ پریس کی چوتھی منزل پر قیام ہوتا۔شروع کے دنوں میں مشہور و معروف رانی توپ سے ہونے والی گولہ باری کی وجہ سے نیند نہیں آتی تھی اور بعد میں یہ حال ہوا جب تک رانی توپ کی دھاڑ نہ سن لیتے تو نیندنہ آتی۔ یہ تو پ کہیں بی آر بی کی حفاظت پر معمور تھی۔

جنگ ستمبر میں اس توپ نے دشمن پر کاری وار کئے۔ عوامی جذبے کا یہ عالم تھا اگلے دن لاہور شہر کے عین اوپر فضائی معرکہ ہو رہا تھا اور حکومت کی جانب سے بار بار گھروں کے اندر رہنے کے اعلانات مساجد میں گونج رہے تھے لیکن لوگ اس قدر ولولہ رکھتے تھے کہ فضائی جھڑپ کے دوران ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر اجتماع کی صورت میں اکھٹے ہو جاتے اس دوران ہندوستان کا ہوائی جہاز پاکستانی شاہین نے مار گرایا۔

یہ جہاز بند روڈ پر گرا اور عوام نے اس تپتے ہوئے جہاز کے ٹکڑے اٹھا کر سرکلر پر سجا دئیے۔ لوگوں میں کسی قسم کا ڈر نہیں تھا۔ میں نے خود فضائی جھڑپ کا یہ منظر موری دروازہ کے قریب کھڑے ہو کر دیکھا۔ ان دنوں پنجابی زبان کے جنگی ترانے بہت مقبول ہوئے۔ ان میں سے ایک کے بول یہ تھے۔
آلو چھولے ، وڑیاں، پاپڑ کھا کہ ہوئے جوان
مٹی دے پلوان لالہ جی جان دیو
جنگ تواڈے وس دی گل نئیں
1965ء میں جن لوگوں نے جنگ کے دنوں میں ریڈیو پاکستان سے شکیل احمد کی آواز میں خبریں سن رکھی ہیں۔

وہ لوگ آج پچاس سال بعد بھی شکیل احمد کی آواز کو نہیں بھول سکتے اس قدر بھاری اور طاقتور آواز کے سا تھ خبریں پڑھی جاتیں کہ سننے والے فرحت جذبات میں نعرے لگاتے۔
اب آتے ہیں اصل واقع کی طرف ابھی ہم لاہور آنے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ ریڈیو پاکستان سے پاکستانی فوجوں کی کھیم کرن پر قبضے کا اعلان ہوا یہ قصور کے قریب واقع ہندوستانی قصبہ تھا۔

میں اور میرے کاروباری ساتھی عبدالرحمن نے نہ جانے کس جوش میں قصور جانے کا ارادہ کر لیا پہلے ہم بذریعہ بس جایا کرتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ بذریعہ ٹرین براہ راستہ قصور جانے کا پروگرام ترتیب دیا۔ جوانی کا جوش تھا جو جنگ زدہ علاقے میں جانے کا ارادہ کر لیا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم ٹرین میں سوار ہوئے تو عملے کے علاوہ ہم صرف دو لوگ تھے پوری ٹرین خالی تھی اور قصور پہنچنے تک خالی رہی جیسے ہی ٹرین قصور ریلوے اسٹیشن پر پہنچی وہاں عوام کا جم غفیر تھا۔

جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین میں سوار ہو گیا۔ ہم نیچے اترے اور دیکھنے لگے کہ قصور کے لوگ قصور چھوڑ کر جا رہے تھے۔ آرمی کو یہ بھی اطلاع ہو چکی تھی پھر فوجی جوان آگے بڑھے اور عوام کو یقین دلایا کہ ہم آپ کی حفاظت کیلئے اور آپ ہی کے بھروسے پر میدان جنگ میں ہیں آپ چلے گئے تو ہم کس کی خاطر لڑیں گے۔ اس یقین دہانی پر لوگ واپس اتر آئے ہمارا قیام عبدالرحمن کے پھوپھا کے گھر تھا۔

جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم قصور نہیں کھیم کرن جانے کے لئے آئے ہیں۔ وہ لوگ سخت خیران ہوئے ۔ کھیم کرن جانے کیلئے فوج کی اجازت ضروری تھی جو کہ پوچھنے پر نہیں ملی لیکن ہم باضد تھے کہ کھیم کرن ہر صورت جانا ہے۔ ہمارے جذبے دیکھ کر مزید ایک درجن لوگ اکھٹے ہو گئے۔ ہم نے فوج کی آنکھوں سے بچ کر ہندوستان کی زمین میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔

قصور اور کھیم کرن کے درمیان ایک نہر ہے جس کا نام اب مجھے یاد نہیں اس کو بغیر پل کے پار کرنا تھا ہم میں سے ایک صاحب بہت موٹے تھے جب ہم نہر میں داخل ہوئے تو احساس ہوا کہ نیچے کی زمین بہت چکنی ہے اور سب نے ایک دوسرے کو تھام کر لائن بنائی ہوئی تھی ۔ ایک پھسلتا تو سب پھسل جاتے ۔ پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا ایک دفعہ ایسا ہو بھی گیا چنانچہ ان موٹے صاحب سے معذرت چاہی جو انہوں نے قبول کر لی اور دوسرے کنارے پر ہی ہماری واپسی کے منتظر رہے نہر پار کر کے ہم آگے بڑھے شوق اس قدر حاوی تھا کہ راستے کی دوری کا پتہ بھی نہ چلا حالانکہ کھیم کرن قصور سے 13میل کی مسافت پر تھا راستے میں کپاس کے کھیت تھے جن میں جابجا اسلحہ کی بند پیٹیاں بکھری ہوئی تھیں۔

جن پر For Pakistan کا لفظ کاٹ کر For Indiaلکھا ہوا تھا نیچے Made In Americaدرج تھا اور یاد رکھنا چاہیے اس وقت ہم سیٹو اور سینٹو معاہدوں کے تحت امریکہ کیمپ کا حصہ تھے دوران جنگ ہماری مدد ان کی ذمہ داری تھی۔ خیر دوست اور دشمن کی پہچان بھی میدان جنگ میں ہی ہوتی ہے۔ یہ ہندوستانی فوج کے چھوڑے ہوئے ہتھیار تھے کھیت پار کر نے کے بعد کی زمین بالکل سرمے کی طرح کی مٹی پر مشتمل تھی۔

کھیم کرن پر قبضے سے پہلے یہاں پر ٹینکوں کی جنگ ہوئی تھی۔ اس دوران ہمیں پاکستانی فوج کے جوان بھی نظر آئے ۔ انہوں نے ہمیں قصور کی طرف سے آتا دیکھ کر کچھ نہ کہا۔ تھوڑی ہی دور ہندوستانی فوجیوں کی لاشیں بھی دکھائی دیں۔ راستے میں پاکستانی فوج کی طرف سے بورڈ آویزاں تھے جن پر یہاں کا پانی نہ پینے کی ہدایات درج تھیں جو کہ زہرآلودہ کر دیا گیا تھا۔

اب ہم کھیم کرن میں داخل ہو چکے تھے۔ کھیم کرن اجڑا ہوا اور ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا ماحول پر وحشت کے آثار نمایاں تھے۔ ایسے لگتا تھا کوئی لوٹ مار کر کے یہاں سے فرار ہوا ہے۔ وہاں موجود مکانات سے اینٹیں اتار کر پاکستانی فوج نے قصور تک سولنگ بنا دئیے تھے ۔ ہمیں وہاں ہندوؤں کے خطوط ، ٹوکریاں اور توپ کے گولوں کے علاوہ کوئی چیز نظر نہ آئی شام ڈھلنے سے پہلے واپس جانا ضروری تھا۔

چنانچہ اپنی فوج کی کامیابی کا آنکھوں دیکھا حال دیکھ کربہت خوشی محسوس ہوئی ۔ اب واپسی کا سفر بہت تھکاوٹ بھرا تھا جو کہ پاکستانی فوج کی گاڑی نے ہمیں دیکھ کر ساتھ بٹھا لیا اور قصور لا کر اتار دیا ۔دوسرے دن تھکاوٹ اتری تو لاہور امرتسر روڈ پر ہندوستانی طیاروں کی شدید بمباری کی اطلاعات ریڈیو سے موصول ہوئیں۔ عبدالرحمن کہنے لگا لاہور بھی جانا ہے تو ادھر امرتسر روڈ کو دیکھ کر ہی روانہ ہونگے ۔

ہمارے پاس ایک عدد ریڈیو بھی تھا جس سے بار بار اعلان ہو رہے تھے کہ یہاں پر کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔ جو کہ کسی بھی طرح کا کھلونا بم ہو سکتا ہے۔ امرتسر روڈ پر ہندوستانی فوج کے تباہ شدہ اور کچھ صحیح سلامت حالت میں ٹینک کھڑے تھے۔ ایک تباہ شدہ ٹینک کے اوپر لوگوں نے چڑھ کر اس کا ڈھکن کھول دیا جو کہ نہایت بھاری بھرکم تھا میں اور عبدالرحمن بھی ٹینک پر چڑھ گئے۔

وہ پچاس سالہ پرانا منظرآج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھوم سا جاتا ہے۔ ٹینک کی موٹی لوہے کی چادر کو طاقتور گولے نے دونوں طرف سے پھاڑ دیا تھا ۔ اندر ایک سکھ فوجی کی لاش پڑی تھی جس کے ہاتھ پر تھوڑا سا گڑ اور چنے پڑے تھے اور تعفن اس قدر شدید تھا کہ اگلے چند روز تک میں نے متعدد دفعہ کھانا چھوڑ دیا بو دماغ سے نکل ہی نہیں رہی تھی عبدالرحمن نے ٹینک کے ساتھ لگے سن ریز کی ٹیوبز نشانی کے طور پر اپنے ساتھ رکھ لیں۔

پھر ادھر سے ہی لاہور روانہ ہو گئے۔ یہ جنگ میں نے اپنے عالم شباب میں دیکھی تھی سول آدمی ہونے کے باوجود جنگی محاذ پر جا کر جنگ زدہ علاقوں کا مشاہدہ کیا پاکستانی فوج اور عوام کی بہادری اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ لوگوں نے جس طرح بڑھ چڑھ کر دفاعی فنڈ میں اپنے زیورات، نقدی یا جو بھی بن پایا وہ گیا ۔ ہمارا خاندان 47ء میں ہندوستان چھوڑ کر سرزمین پاکستان میں داخل ہوا تھا۔

اس وقت میں محض چند سال کا بچہ تھا۔ شاید اس ہجرت کی وہ مصیبتیں ہی تھیں جو کہ مجھے ہندوستانی فوج کی شکست دیکھنے ہندوستانی سرزمین تک لے گئیں۔
آج میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ دفاع وطن آج بھی جاری و ساری ہے۔ ہماری بہادر سپاہ دفاع وطن پر مسلسل قربانیاں دے رہی ہے۔ اندرونی اور بیرونی خطرات پہلے سے زیادہ شدیدہیں۔ ہندوستان کی دشمنی کے بارے میں با خبر رہنا اور نوجوان نسل کو اس سے باخبر رکھنا ہم بزرگوں کی زمہ داری ہے۔

ہندوستان آج بھی ہماری سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے ساتھ ہماری فوجی قیادت ہندو بنیے کی سازشوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ صرف ہمیں متحد رہنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس پاک دھرتی کا حامی و ناصر ہو ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :