یورپ کا عروج

پیر 28 ستمبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سوال بڑا دلچسپ ہے اور اہم بھی،سوال یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرون وسطیٰ میں انتہائی پسماندہ ہونے کے باوجود یورپ نے عروج کیسے حاصل کیا۔ اس سوال کے جواب میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں ،ایک تکوینیات اور دواقوام کی اجتماعی کوششیں ۔ تکوینیات کا مطلب ہے کہ جب سے یہ کائنات بنی ہے اس وقت سے تقدیر کا یہ اصول چلا آ رہا ہے کہ ایک وقت میں ایک قوم یا تہذیب عروج کے اوج ثریا پر کھڑی ہوتی ہے لیکن اگلے زمانے میں اس کا یہ عروج کسی دوسری قوم یا تہذیب کی گو دمیں چلا جاتا ہے اور ماضی کی یہ تہذیب اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے ۔

دنیا کی معلوم تہذیبوں میں سمیر ی تہذیب، بابلی تہذیب ، یونانی تہذیب، رومی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے ساتھ یہی کچھ ہوا اور ہو رہا ہے ۔ نہ جانے اس میں تقدیر کی کیا حکمتیں اور مصلحتیں چھپی ہیں لیکن دنیا کی ہر تہذیب کے ساتھ یہی ہوتا چلا آ رہا ہے ۔

(جاری ہے)

اور دوسری بات جو بڑی اہم ہے وہ یہ کہ کسی تہذیب کا عروج یا زوال دنوں ، ہفتوں ،مہینوں یا سالوں کی بات نہیں ہو تی بلکہ اس کے لیئے صدیاں درکا رہوتی ہیں ۔

مغربی اور یورپی تہذیب اگر اپنے موجودہ مقام تک پہنچی ہے تو اسے اس مقام تک پہنچنے کے لیئے تین سو سال کا سفر طے کرنا پڑا ہے اور اب یہ تہذیب اپنے نکتہء عروج سے ہو کر زوا ل کی راہ پر چل پڑی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگلے دو چار سالوں میں یہ زوال کی اتھا ہ گہرائیوں میں جا گرے گی ، ہرگز نہیں بلکہ جس طرح عروج آنے میں صدیاں لگتی ہیں اسی طرح زوال آنے میں بھی وقت لگتا ہے ۔

دراصل عروج زوال ایک ارتقائی عمل ہے جس میں معاشرہ ، سماج ،ادارے اور فرد بتدریج آگے بڑھتے ہیں ۔ تکوینیات کے باب میں انسانی فکر اور انسانی کوششیں بے بس اور محدود ہوتی ہیں ۔تکوینیات کے باب میں ابن خلدون ، اشپنگلر اور ٹائن بی کے نظریات بھی بڑے اہم ہیں ۔ ان کے نزدیک افراد کی طرح اقوام ،معاشروں اور تہذیبوں کی بھی ایک طبعی عمر ہوتی ہے ، جس طرح ایک فرد اپنی طبعی عمر گزار کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اسی طرح مختلف تہذیبیں بھی اپنی طبعی عمر پوری کر کے دنیا سے مٹ جاتی ہیں ۔

عروج وزوال کی بحث میں دوسری چیز ہے اقوام کی اجتماعی جد و جہد۔ اقوام کی اجتماعی جد وجہد کے نتیجے میں کچھ چیزیں خو د بخود قدرتی حالات کے تحت وقوع پذیر ہو تی رہتی ہیں جو عروج کا باعث بنتی ہیں اور باقی کام افراد ، اقوام اور معاشرے کی اجتماعی جد وجہد کے نتیجے میں پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔ مثلا یورپ کے عروج میں اس کے ماحول اور اس کے جغرافیائی حالات کا بڑا عمل دخل تھا۔

یورپ میں جس ملک نے سب سے پہلے ترقی کی شاہراہ پرکامیابی کا سفر شروع کیا وہ برطانیہ تھا ، برطانیہ کا محل وقوع اور جغرافیائی حالات کچھ اس طرح ہیں کہ یہ چاروں طرف سے سمندر میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا ملک تھا ، سمندر سے گھر اہونے کی وجہ سے اس کی چاروں طرف کی سرحدیں محفوظ تھیں ، اگر کوئی ملک اس پر حملہ کرنا بھی چاہتا تو اسے سمندری راستے سے حملہ کرنا پڑنا تھا اور یہ اس دور میں تقریبا ناممکن تھا۔

جغرافیائی حالات اور سمندر میں گھر اہونے کی وجہ سے اس نے جو پیسہ دفاع پر خر چ کرنا تھا اس نے ترقی پر خرچ کیا ، دنیا کے اکثر ممالک کا بجٹ ان کے دفاع پر خرچ ہوتا ہے اور آج دنیا میں وہی ممالک ترقی یافتہ ہیں جو دفاعی لحاظ سے محفوظ ہیں ۔ برطانیہ نے سکاٹ لینڈ کو سیاسی معاہدوں اور آئر لینڈ کو انتظامی طور پر اپنا حصہ بنا لیا تھا ، اس طرح جغرافیائی طور پر یہ سب مل کر ایک قوم بن چکے تھے اور یہیں سے ان کی ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے ۔

یورپ کی ترقی میں جغرافیائی حالات کے علاوہ ماحول اور آب وہوا کا بھی بڑا اثر تھا ۔ ایشیا اور افریقہ کے برعکس یورپ کی آب و ہوا معتدل اور ٹھنڈی تھی ، ابن خلدون کے نزدیک معتدل علاقوں کے لوگ محنتی اور باصلاحیت ہوتے ہیں ۔ گرم علاقوں میں آب و ہوا گرم ہونے کی وجہ سے بیماریاں ذیادہ پھیلتی ہیں ، جراثیم ذیادہ ہوتے ہیں جلدی وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں اور لوگ اکثر کاہل اور سست ہو جاتے ہیں ۔

موسم کی شدت کی وجہ سے انسانی مزاج میں بھی شدت آ جاتی ہے ، عوام چڑ چڑ ے ہو جاتے ہیں اور اخلاقیات دم توڑ دیتی ہیں ۔ ماحول معتدل اور مناسب ہو تو افراد میں تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں ،کام کرنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور معتدل اخلاقیات رواج پکڑتی ہیں ۔
یورپ کے عروج میں ایک اہم کردار سمندری راستوں کی دریافت کا بھی رہا ہے اور اس حوالے سے 1492کا سال بڑا اہم ہے ۔

1492میں جب مسلمانوں کو اسپین سے شکست ہوئی اور ابو عبداللہ آنسو بہاتا ہوا غرناطہ کی پہاڑیوں میں گم ہو گیا تو اس وقت فرڈیننڈ اور ازابیلا کے حوصلے بہت بلند ہو چکے تھے ۔ اسپین سے مسلمانوں کو نکالنے کے بعد وہ نئے راستوں کی تلاش میں تھے ، اسی عرصے میں کولمبس ان کے دربار میں حاضر ہوا اور بحری مہم جو ئی کی درخواست کی ، فرڈیننڈ اور ازابیلا نے اس کی بھرپور مدد کی اور کئی ملاح اس کے ساتھ کر دئیے ۔

کولمبس نے جس روز سمندر میں قدم رکھا تھا اس رو ز ایک نئے یورپ کا آغاز ہو رہا تھا ۔ اس وقت کے سمندری راستوں کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ بحیرہ روم ایشیائی ممالک کے ساتھ رابطے اور تجارت کا واحد ذریعہ تھا لیکن جب اس پر عثمانی ترکوں کا قبضہ ہو گیا تو اہل یورپ کا ایشیا کے ساتھ رابطے کا یہ آخری سہارا بھی جاتا رہا ۔ اگر اسپین کی طر ف سے مسلمانوں کو یورپ سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا تھا تو دوسری طرف سے عثمانی ترک یورپ کے قلب تک جا پہنچے تھے ۔

ترک تقریبا تمام مشرقی یورپ پر قابض ہو چکے تھے اور اب ان کا اگلا ہدف مغربی یورپ تھا ۔ یورپ اب بحیرہ روم کا سمندری راستہ مسدود ہو جانے کی وجہ سے پریشان تھا کیوں کہ بحیرہ روم چین ، جاپان ، ہندوستان اور مشرق بعید تک تجارتی سامان کی آمد و رفت کا وا حد ذریعہ تھا ۔ یورپ کے لیئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا، اب ان کے سامنے دو راستے تھے ، ترکوں کے ساتھ جنگ کر کے ان سے سمندری راستے چھڑوا لیں یا نئے سمندری راستے تلاش کریں ، انہوں نے دوسرے آپشن کو ترجیح دی اور یہ آپشن ان کے لیئے انتہائی مفید ثابت ہوا۔

اب انہوں نے نئے جہاز بنائے ، ماہر ملاح ساتھ لیئے اور 1498میں واسگوڈے گاما بحیرہ روم کے اوپر سے ہوتا ہوا بحرالکاہل کے راستے ایک لمبا چکر کاٹ کر ہندوستان کی بندر گاہ کالی کٹ پر لنگر انداز ہوا ، جس دن واسگو ڈے گاما نے کالی کٹ کی بندر گاہ پر قدم رکھا تھا اسی دن سے ترکوں کی بحیرہ روم پر بالا دستی ختم ہو چکی تھی ۔ یورپ ایک نیا جنم لے رہا تھا ، ایک طرف کولمبس نے امریکا دریافت کرنے کا اعلان کر دیا تھا اور دوسری طرف واسگوڈے گاما نے ایشیا سے رابطے کے لیئے نئے سمندری راستے ڈھونڈ لیئے تھے ۔ تقدیر نے یورپ کا ہاتھ تھا م لیا تھا اور اب یورپ کا ایک نیا دور شروع ہونے والا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :