ماسکو میں جامع مسجد کی تعمیر،روسی مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی ورثہ کی امین

بدھ 30 ستمبر 2015

Zameer Asadi

ضمیر اسدی

جہا ں ایک طر ف مغر بی دنیا میں مسلمان اسلا مو فو بیا سمیت مختلف قسم کے مسا ئل کا سا منا کر رہے ہیں وہیں دوسری جا نب مسلما نو ں سے رو ا بط بڑ ھا نے اور دور یاں ختم کر نے کے لیئے بھی کا وشیں جا رہی ہیں جس کی سب سے بڑ ی مثال روس کی جا نب سے سا منے آئی جہا ں روسی صدر و لا دمیر پو ٹن نے ما سکو میں170ملین ڈالرز کی لا گت سے تعمیر کی جا نے والی جا مع مسجد کا افتتا ح کیا جس میں بیک وقت دس ہزار نما زی نما زادا کر سکتے ہیں۔

مسجد کی تعمیر کے لیئے نہ صرف روس بلکہ فلسطینی اور تر ک حکو مت کی جا نب سے بھی رقم عطیہ کی گئی ۔اس سے قبل 1904 میں تعمیر کی جا نے والی اس مسجد میں بیک وقت صرف ایک ہزار نما زیوں کے نما ز ادا کر نے کی گنجا ئش تھی جس میں وقت کے ساتھ تو سیع کی اشد ضرورت محسو س کی جا ر ہی تھی جسے اب پورا کیا گیا۔

(جاری ہے)

ما سکو میں ایک محتا ط اندازے کے مطا بق تقر یبا 20لا کھ کے قر یب مسلمان آبا دہیں جن کی جا نب سے جا مع مسجد کی تعمیر کی خوا ہش کا اظہار طویل عر صہ سے کیا جا ر ہا تھا تا ہم اس میں بہت سے مسا ئل در پیش تھے جن پر وقت کے ساتھ سا تھ مذ ہبی ہم آ ہنگی اور بھا ئی چا رے کے تحت ہو نے والے مذاکرات کے ذ ریعے قا بو پا یا گیا اور اب اس کی تعمیر کو کھلے دل کے ساتھ قبو ل کیا گیا ۔

خیا ل کیا جا تا ہے کہ ما سکو کی کل آ بادی جو کہ دستیاب اعدادو شما ر کے مطا بق ایک کروڑ بیس لا کھ سے زائد ہے اس میں تقر یباً 16فیصد مسلما ن رہا ئش پز یر ہیں،اسی طر ح مسلمان روسی آ بادی کا 20فیصد بنتے ہیں جو کہ بہت بڑی تعداد ہے۔ سرد جنگ کے خا تمہ کے بعد سو یت یو نین سے مختلف ریا ستوں نے دنیا کے نقشے پر جنم لیا تو 1993میں روس میں نا فذالعمل ہو نے واے آ ئین میں اسلام کو دیگر تین مذاہب کے ساتھ بڑا مذ ہب تسلیم کیا گیا جسے قا نون کے مطا بق مساوی حیثیت حا صل ہے۔


اس مسجد کی تعمیر سے ما سکو کے مسلما نو ں کا ایک دیر ینہ مطا لبہ تو پورا ہوا تا ہم اتنی بڑ ی تعداد میں آ باد مسلما نو ں کے لیئے ابھی بھی یہ نا کا فی ہے جہا ں اس شہر میں اس کے علا وہ صرف تین مسا جد ہیں جو بمشکل 10ہزار سے زائد نما زیو ں کے لیئے منا سب سمجھی جا تی ہیں، شہر میں مسلما نو ں کے اکثر مذ ہبی اجتما عات گلیوں اور کھلے میدا نوں میں منعقد ہو تے نظر آ تے ہیں۔

مسجد کی تعمیر پر روسی سر کا ری ٹی وی چینل کی جا نب سے ایک خصو صی ڈا کو مینٹری بھی نشر کی گئی جس میں علما ء کرام کی جا نب سے اس مسجد کو روس میں مسلما نو ں کے مذ ہبی ورثے کا امین اور پہچان قرار دیا گیا۔یہا ں یہ با ت بھی قا بل ذکر ہے کہ روسی معا شرے میں گز شتہ بیس سا لوں کے ما بین مسلما نو ں کے با رے میں پا ئے جا نے والے منفی تاثرات بھی زائل ہو رہے ہیں اور معا شرے کی تعمیر نو میں مسلما نو ں کا کردار بھی قا بل ذکر ہے جہا ں ہر شعبے میں مسلمان قا بل تعر یف اور قا بل تحسین خد مات انجام دے رہے ہیں جنہیں ہمیشہ سے سر کا ری اور عوامی سطح پر فخر کے سا تھ تسلیم کیا جا تا ہے۔

روس کی اس کا وش کو نہ صرف اسلا می دنیا میں قدر کی نگا ہ سے دیکھا گیا بلکہ مغر بی میڈ یا نے بھی اسے قا بل تعریف اقدام قرار دیا، اور یہ خبر دنیا بھر کے میڈ یا میں نما یا ں ظور پر نظر آ ئی۔افتتا حی تقر یب کی خا ص با ت ترک صدر ر جب طیب اردگا ن اور فسطینی صدر محمود عباس کی مو جو دگی تھی جنہیں خصو صی طور پر تقر یب میں شر کت کے لیئے مد عو کیا گیا تھا۔

روسی صدر کی جا نب سے اس مو قع پرنہا یت دا نشمندی کے ساتھ مسلما نو ں کے با رے میں پا ئے جا نے والی منفی خیا لات کومسترد کر تے ہو ئے انتہا پسندی کو اسلامی نظر یا ت کے منا فی قرار دیا ۔ان کی جا نب سے دا عش جیسی نام نہاد اور تبا ہ کن نظر یات کے حا مل گروہ کو اسلا می نظر یا ت کے تشخص کے مخا لف قرار دینے سے پو ری دنیا میں یہ پیغام پہنچا کہ اسلام ایک امن پسند مذ ہب ہے جس کا قتل و غارت اور نفرت کے پر چار سے کسی قسم کا کو ئی تعلق نہیں ہے ،دا عش کی جا نب سے مذ ہب کے نا م پر کی جا نے والی کا روا ئیوں کو پو ری دنیا میں مسترد کیا گیا ہے جس کی اجازت دنیا کا کو ئی مذ ہب نہیں دیتا،اس حقیقت کا ا حساس انتہا پسندی کے نظر یات کو جڑ سے ختم کر نے میں مدد فرا ہم کر ے گا بلکہ ایسے گرو ہو ں کو اپنی موت آ پ مر نے پر بھی مجبور کر ے گا۔

ولا دمیر پو ٹن کی جا نب سے اس خطرے کا اظہار کیا گیا کہ داعش روس میں گمراہ کن نظر یات کے ذ ریعے لو گو ں سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر نے کی مذ موم کو شش کر ر ہی ہے جسے یہاں مسلمان علماء بہادری اور کسی بھی خوف و خطر کے بغیر اپنے اثرو رسو خ سے نا کام بنا رہے ہیں۔جا مع مسجد کی تعمیر مسلما نو ں اور دو سرے مذ اہب کے در میان مو جوددور یاں ختم کر نے میں اہم کردار ادا کر ے گی۔

جا مع مسجد روسی مسلما نو ں کے لیئے عید الاضحی کے مو قع پر ایک خا ص تحفہ قرار دیا گیا ہے جس کے ذر یعے داعش جیسی گمراہ کن تنظیموں کے نظر یا ت کو شکست دینے اوراسلا می نظر یات کی تر ویج میں تعاون فرا ہم کیا جا ئے گا۔ اس خطے میں اسلام کا پیغام تقر یبا آ ٹھو یں صدی میں پہنچا جب عر بوں نے اس خطے میں فتو حات حا صل کیں اور اب اسلام اس وقت دوسرے مما لک کی طر ح روس میں بھی بڑی تیزی سے پھیلتا ہوا مذ ہب ہے۔

سو ویت یو نین کے خا تمہ سے قبل اس ملک میں صرف 300مسا جد تھیں جن کی تعداد اب ایک اندازے کے مطا بق 8000کے قر یب ہے جن میں سے ز یا دہ تر مسا جد کی تعمیر تر کی، ایران اور سعودی عرب کی جا نب سے عطیہ کی جا نے والی رقم سے ممکن ہو ئی۔ایک سروے کے مطا بق تقر یباً 50سے 60مدارس مو جود ہیں جن سے 50,000 طا لب علم مذ ہبی علو م سے آ گا ہی حاصل کر چکے ہیں۔دنیا میں مو جو د مذا ہب اور اس کے پیرو کاروں کے ما بین دو ر یا ں اور غلط فہمیاں ختم کر نے کے لیئے اس طر ح کی کا وشیں نہ صرف قا بل تعریف و ستائش ہیں بلکہ پر امن دنیا کے قیام کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں مد د بھی فرا ہم کر یں گی۔

مختلف مذا ہب کے ما بین ہم آ ہنگی اور بھا ئی چا رے کی فضاء کا فروغ او لین تر جیح ہو نا چا ہئے جسے مختلف عقائد کے در میان مذاکرات کے ذ ر یعے ممکن بنا یا جا سکتا ہے۔پر امن بقا ئے با ہمی سے پو ری دنیا میں خو شحا لی اور امن کو یقینی بنا یا جا سکتا ہے،مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کو جب ایک ہی چھت تلے با ت کر نے کا مو قع ملتا ہے تو اس میل جول کے ذر یعے بے بنیا د غلط فمہیوں کو دور کر نے میں براہ را ست مدد ملتی ہے،یہ مقصد بچوں کو اس پیغام کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ مذ ہب کی بنیاد پر کسی بھی دوسرے شخص سے نفرت یا امتیا زی سلوک کا اظہار تباہ کن ہے۔

انسا ن کا تعلق کسی بھی مذ ہب سے ہو فطر تاً اسے دوسرے انسان کا ساتھ پیار سر شت میں ملتا ہے،دنیا کا کو ئی بھی مذہب آ پسی اختلا فات کی بنیاد پر کسی دوسرے مذ ہب کے پیرو کار سے نفرت کر نے کا درس نہیں دیتا ہر مذ ہب کی بنیا دی تعلیمات میں انسانیت سے پیار کا فلسفہ ہی بیان کیا گیا ہے جبکہ مذ ہب نے تو انسان کو نظم و نسق سکھا یا ہے۔انسا ن میں قدرتی طور پر مو جود پیار کر نے کی فطرت کو تعلیم اور آ گا ہی کے ذ ریعے پر امن بقا ئے با ہمی کی بنیاد بنا نا نا ممکن کام نہیں ہے۔

انسان کا تعلق کسی بھی مذ ہب سے ہو وہ امن کا داعی ہے جو اپنے معا شرے اور مستقبل کو محفوظ دیکھنا چا ہتا ہے۔مختلف مذاہب کے پیرو کا روں کو ایک دوسرے کے مذ ہبی مقا مات اور بنیا دی عقا ئد کی سمجھ بو جھ با ہمی عقیدت واحترام کی لڑی میں پروئے گی جس سے ایک ایسی دنیا تشکیل دینے میں مدد ملے گی جہا ں ہر شخص اپنے مذ ہب کی پیروی کر تے ہو ئے پر امن ز ندگی بسر کر سکے۔پر امن بقا ئے با ہمی کا حصو ل جو ش و جذ بے کے ساتھ عزم کا بھی مطا لبہ کر تا ہے تا کہ مستقل بنیا دو ں پر وہ نتا ئج حا صل کیئے جا سکیں جس کی تو قع کی جا رہی ہے اس جدو جہدمیں مختلف مذا ہب کے نوا جوان پیرو کاروں کو شا مل کر کے کا میا بی حا صل کی جا سکتی ہے جبکہ ہر کسی کو پر امن دنیا کے قیام میں اپنا حصہ ڈا لنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :