تارکینِ وطن کے وسوسے!

جمعرات 1 اکتوبر 2015

Sajid Khan

ساجد خان

جیسے ہی جہاز نے اڑان بھر تو اندازہ ہوا کے اند ر کا موسم گرم سا ہے۔ ”پی آئی اے“ کے عملہ سے شکایت کی تو کچھ دیر کے بعد موسم ٹھیک ہوا۔ مانچسٹر میں کافی بوریت رہی ۔میں نے آئی پیڈ نکالا اور اپنی محفوظ میل کو دیکھنا شروع کیا۔ایک ڈاک جیو کی تازہ فلم ”منٹو“ کے حوالہ سے تھی۔ ساتھ ایک ویڈیو بھی تھی۔ ”منٹو“ فلم پر ہمارے عسکری دوست حسن معراج کی تحریر اور اپنے ڈرامائی کردار کے حوالہ سے تقریباََ آٹھ منٹ کی مختصر سی فلم کا کلپ بھی تھا۔

اس کلپ نے اب تک سے سفر کی تمام کوفت دور کر دی۔ منٹوفلم کی تعریف تو پاکستان میں سنی تھی۔ بلکہ شانتی دیوی نے بھی فلم کی سی ڈی کی فرمائش کی تھی۔ جو اتنی جلدی پوری کرنی مشکل تھی۔ سو اس کو بھی اس کلپ نے ذریعے رام کرنے کا سوچا۔

(جاری ہے)

حسن معراج زندگی سے بھرپور نوجوان ہیں۔ان کی کچھ تحریریں نٹ پر دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا اور سنے ہے کہ ان کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ”ریل کی بیٹی“ بھی اس سال منظر عام پر آسکتی ہے۔

اب سوچ رہا تھا کہ نیویارک میں دودن رک کر کینیڈا چلا جاوٴں گا۔
کسی نے میرا کندھا ہلکا سا ہلایا۔پی آئی اے کی فضائی میزبان نے کہا۔ ہمارے نیویارک اترنے کاوقت نزدیک ہے۔ اپنی کرسی کی پشت سیدھی کر لیں اور پیٹی باندھ لیں۔ میں نے اپنا آئی پیڈ بند کیا اور اترنے کی تیاری کرنے لگا۔ چند لمحوں کے بعد جہاز ایک جھٹکے سے زمین سے لگا۔ پھر رفتار آہستہ ہونے لگی سب مسافر کھڑے ہو گئے۔

عجیب افرا تفری کا عالم تھا کہ جہاز ابھی رکا بھی نہیں اور مسافر بے کل، پھر اعلان ہوا کہ جب تک جہاز رک نہ جائے سب لوگ نشتوں پر بیٹھے رہیں مگر کون سنتا، بس اپنے پاکستان اور گھر جیسا ماحول ،من مانی اور خود نمائش کا بازار۔ خیرجہاز جیٹی سے لگا اور لوگ باہر نکلنے کے لیے بے قرار اور بے چین۔ خیر چند منٹ کے بعد دروازہ کھولا تو صاف ہوا کی لہر کا اندازہ ہوا۔

سب کو جلدی تھی ۔ جب پاسپورٹ کنٹرول پر گئے تو سب سیدھے ایک لائن میں لگ چکے تھے۔ پاسپورٹ افیسر نے حسبِ سابق آنے کی وجہ پوچھی۔ پاسپورٹ دیکھا جواب کا انتظار کیے بغیر ٹھپا لگایا اور اگلے مسافر کو بلایا۔ سامان آنے میں حسبِ معمول کافی دیر لگی۔
شام کو شانتی سے ملاقات ہوئی تو اقوام متحدہ کے اجلاس کی وجہ سے خاصی مصروف تھی ۔ رسمی سی ملاقات کے بعد اگلے دن کا پروگرام بنانے کے بعد رخصت ہوئی۔

میاں عظیم اور افاق خیامی سے رابطہ کا سوچا۔ میاں عظیم کا فون کافی مصروف تھا۔ افاق خیامی سے فون پربات ہو سکی۔ ان کا وعدہ تھاکہ دوبارہ فون کریں گے اس وقت گاڑی چلا رہے تھے۔ مگر ہم دونوں دوستوں کی شفقت اور میزبانی سے محروم ہی رہے۔ اگلے دن دوپہر کے بعد شانتی آگئی۔ میں نے پروگرام کا پوچھا س نے کہا کچھ پاکستانی دوست ایک جگہ پکنک کر رہے ہیں ان کی دعوت ہے اور تم بھی میرے ساتھ چلو گے ۔

عید کی وجہ سے ہفتہ کو عیدملنی ہو رہی تھی۔ سمندر کنارے 30 کے قریب تارکین وطنی کی عید ملنی تھی۔ سب لوگ کچھ نہ کچھ لائے تھے شانتی بھی کچھ جوس کے ڈبے لائی تھی دیسی کھانے بھی خوب تھے۔ خوب مزا آیا ۔ کچھ دیر کو کرکٹ بھی کھیلی۔ پھر کچھ لوگوں نے گایا بھی۔ بات چیت پاکستان کی سیاست اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیراعظم کے حوالہ سے شروع ہوئی۔

میں نے ایک ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ اس میں کتنا سچ ہے کہ پاکستانی وزیرخزانہ جناب اصحاق ڈارکو نماز عید کے بعد لوگوں نے گھیر لیا۔ وہ صاحب ہنسے اور بولے، صاحب جی آپ بھی اخبار والے خوب ہیں۔ بھائی صاحب وزیر خزانہ پاکستان کو کس نے مشورہ دیا تھاکہ وہ نماز عید کسی پاکستانی مسجد میں ادا کریں۔ لوگوں کا غصہ بجا۔ لوگوں کو پاکستانی مشن سے شکایات ہیں۔

حکومت سے شکایت ہے۔ ہماری بات سنی نہیں جاتی۔ زرمبادلہ ہم دیتے ہیں اور قرض آئی ایم ایف سے مانگے ہیں۔ وہاں پر نعرے بازی بھی ہوئی اور جب معاملہ خراب ہونے لگا تو ان کو مقامی پولیس نے نکالا اور حکم دیا کہ وہ فواََ اس جگہ سے چلے جائیں ۔ان کو نہیں اندازہ کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ایک اور صاحب بولے ہمارے ایک دوست عید کے دن مکہ میں جو حادثہ ہوا س کی وجہ سے انہوں نے پاکستان مشن فون کیا کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔

پاکستان فون کیا کوئی معلومات نہ مل سکی۔ جدہ اور مکہ پاکستان مشن فون کیا کوئی شافی جواب نہ ملا۔ ایسے میں آپ سوچیں کہ میاں نواز شریف کو امریکہ آنا چاہیے ؟ ان کوجنرل راحیل کی طرح فوراََ سعودی عرب جانا چاہیے تھا۔مگر وہ تو امریکہ کی دوستی اور مہربانی کے لیے آرہے ہیں۔ لوگ ان سے کیسے خوش ہو سکتے ہیں۔ میں نے پوچھا بھارت کے وزیراعظم تو پورے امریکہ کی یاترا کرتے نظر آتے ہیں۔

کئی لوگ بیک وقت بولنے لگے پھر ایک صاحب نے ہاتھ بلند کرتے کہا کہ اپنی اپنی باری پر ایک خاموش کے بعد وہ ہی بولے ۔ بھارتی وزیراعظم نے امریکہ میں نیک نامی کمانے کی کافی کوشش کی ہے ۔ مگر میڈیا امریکی انتخابات کی وجہ سے ان کو زیادہ وقت نہیں دے رہا اور ہمارے وزیراعظم صرف ہمارے ہی چینلوں پر نظر آرہے ہیں۔ امریکی اپنے مسائل میں گھرے میں اقوام متحدہ میں سب سے اہم معاملہ شام کا ہے پھر اقوام متحدہ نے نمائشی اعلان کیا ہے کہ وہ پاک بھارت تنازعہ میں کردار ادا کر سکتا ہے اس نے کشمیر کے معاملہ پر تو دم سادھ رکھا ہے۔

اسے میں پاکستان نے وفد کا معاملہ عجیب سا ہے۔سب اپنے اپنے نمبر بنا رہے ہیں شانتی بولی۔ دیکھو،جی ایسا تو ہوتا ہے ایک پاکستان امریکہ،بی بی بولی: ایسا کیوں ہوتا ہے وہ ہمارے نمائندے ہیں۔ ان کو ہماری بات کرنی چاہیے وہ امریکہ سے کیا چاہتے ہیں۔ اگر جنرل راحیل آئیں تو امریکی ان کے لیے زیادہ بے چین ہو نگے۔
مجے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ سب لوگ پاکستان کی سرکار اور میڈیا سے ناراض ناراض سے لگتے ہیں۔

میں نے پوچھ ہی لیا کہ پاکستان سے کون کونسے صحافی آئے ہیں۔ جواب بڑا عجیب تھا ” جن کو کوٹا ملنا تھا وہ آگئے“ میں نے خیرانگی سے کہا کہ کونسا کوٹا۔ ایک صاحب مسکرائے جناب وزیراعظم سے دوستی کا کوٹا۔ اس کے لیے کچھ ہونا ضروری نہیں۔ پھر اتنے سارے لوگ یہاں کونسا گیر ماریں گے۔ ہر شخص اپنا اپنا راگ گا رہا ہے مجھے ان تارکین وطن کے موڑ کا اندازہ ہو چلا تھا۔

میں نے آخری سوال کیا ، کیا وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ میں اردو میں خطاب کریں گے۔ فوراََ سب بولے کبھی نہیں کبھی نہیں۔ میں ذرا حیران تھا کیوں ! دوستوں اب تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے ایک بزرگ بولے کونسی سپریم کورٹ وہ پاکستان میں جنتا کے لیے سپریم کورٹ ہے ۔ سرکار خود سپریم ہے وہ کہاں کورٹ کو سنتی ہے ۔اردو زبان کے لیے فیصلے ابھی تو ہونے ہیں دعوے دار تھے وہ ویسے ہی خاموش ہیں۔

اب میں سمجھ گیا کہ سب کو راضی کرنا مشکل ہے شانتی نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا اور سب سے اجازت چاہی۔
کل مجھے کنیڈا کے شہر ری جانہ(Regina) جانا ہے۔ جہاں کینڈا کی پولی(RCHP) کی تربیت ہوتی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پولیس کسی ملک میں اپنا کردار کیسے ادا کرتی ہے۔ وہاں کی داستان اور اپنی پولیس کے کردار پر کچھ موازنہ ہو کسے گا۔ شانتی کا موڈ اُف تھا۔ ایسے اس طرح کے سلوک کا اندازہ نہ تھا۔ مگر اس طرح تو ہوتاہے اس طرح کے کاموں میں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :