یورپ نے برصغیر اور امریکہ کو کیسے لوٹا !

اتوار 4 اکتوبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کولمبس اور واسگوڈے گاما نے پندرھویں صدی کے اختتام پر سمندری راستے اور نئی دنیائیں دریافت کر کے یورپ میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ برطانوی سامراجیت اور نوآبادیاتی نظام نے اس انقلاب کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ ایک طرف کولمبس نے امریکہ دریافت کر کے اہل یورپ کے لیئے امریکی دولت کے دروازے کھول دیئے تھے اور دوسری طرف واسگو ڈے گاما نے ایشیا کا سمندری راستہ ڈھونڈ لیا تھا جس سے یورپ کی ایشیا کے ساتھ تجارت دوبارہ بحال ہو چکی تھی ۔

کولمبس جب امریکہ پہنچا تو وہاں کے مقامی باشندے انتہائی قدامت پرست تھے ، اہل یورپ نے مقامی باشندوں کو ختم کر نا شروع کر دیا ، مقامی باشندوں میں بیماریوں کو پھیلا دیا گیا جس سے ان کی آبادی گھٹ کر آدھی رہ گئی ۔ سولہویں صدی میں میکسیکو کی آبادی گھٹ کر آدھی رہ گئی تھی ۔

(جاری ہے)

ریڈ انڈینز کا قتل عام ہوا ، انہیں جنگوں میں ہلا ک کر دیا گیا اور جو باقی بچے انہیں غلا م بنا لیا گیا۔

نئی دنیا دریافت ہونے کے بعد اہل یورپ نے وہاں دھڑ ادھڑ زمینیں خریدنی شروع کر دیں ، زراعت اور صنعت وحرفت کا آغاز ہوا ، مقامی لوگ کم پڑ گئے تو افریقہ سے غلام پکڑ کر لائے گئے اور ان سے جبری مشقت کا کام لیا گیا ۔ افریقی غلاموں کو سمندری راستے سے امریکہ پہنچایا جاتا تھا ،جو جہاز میں مر جاتے انہیں سمندر میں پھینک دیا جاتا ، تقریبا دس لاکھ افریقی غلام بناکر امریکہ لائے گئے ۔

زراعت اور صنعت شروع ہوئی تو سماج میں تبدیلیاں آنے لگیں ،سرمایہ دار اور تاجر طبقہ دجود میں آیا ۔ یورپ کی ترقی میں اہم کر دار امریکہ سے لوٹی ہوئی دولت کا بھی تھا ، امریکہ میں جتنی بھی سونے اور چاندی کی کانیں اور دیگر معدنیا ت تھیں سب یورپ روانہ ہونے لگیں ۔1646تک تقریبا 180ٹن سونا اور 1700ٹن چاندی یورپ بھیجی گئی ۔ یورپ میں 1561سے 1580تک پچاسی فیصد چاندی امریکہ سے بھیجی گئی ، امریکی سرمایہ ، سونا اور چاندی یورپ پہنچے تو یورپ کی معاشی حالت سنبھلنے لگی ، تاجر اور سرمایہ دار طبقہ وجو د میں آیا جس نے زراعت اور صنعت کو فروغ دیا ، فیکٹریاں قائم ہونے لگیں ، صنعتی انقلاب کی راہیں ہموار ہونے لگیں اور بین الااقوامی تجارت یورپ کے کنٹرول میں چلی گئی ۔

جب امریکہ کی دولت یورپ کے ہاتھ لگی تو یورپ میں دو طرح کے رجحان پروان چڑھے ، ایک ، اسپین ، اٹلی اور پرتگال نے اس دولت کو فضول خرچی، عیاشی اور جنگوں میں جھونک دیا ،ساری دولت اسلحہ اور بارود خریدنے پر لگا دی ، نتیجے میں یہ تینوں ممالک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ، اٹلی نے تو اپنا آپ سنبھال لیا لیکن اسپین اور پرتگال تا حال پیچھے چلے آ رہے ہیں ۔

دوسرا رجحان جرمنی ، برطانیہ ، آئر لینڈ اور ہالینڈ میں پروان چڑھا ، ان ممالک نے اس دولت کو تعلیم ،سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کیا ۔ تعلیم آئی تو دانشور طبقے نے جنم لیا ، نئے تخلیق کا ر ابھر کر سامنے آئے اور نئی ٹیکنالوجی وجود میں آنے لگی ۔ اسکالرز کی انجمنیں بنیں ، بحث ومباحثہ ہونے لگا ، نئی تحقیق اور نئی ردیافتیں سامنے آنے لگیں ۔

چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو یہ تحقیق چھپ کر سامنے آنے لگی ، تحقیقی مقالے مقامی رسالوں اور جرنلز میں چھپنے لگے ، ان پر تبصرے ہوتے ، بحث و تحقیق کے لیئے اکادمیاں وجود میں آئیں ۔ سب سے پہلی اکادمی روم میں 1603میں منظر عام پر آئی ، اس کے بعد 1633میں فلورنس ، 1660میں رائل اکادمی لندن اور1666میں پیرس میں اس طرح کی اکادمیاں وجود میں آئیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دانشور طبقے نے قدیم یونانی فلسفے کو بھی چیلنج کر نا شروع کر دیا جسے یورپ کیتھولک چرچ نے اپنے مذہب کا حصہ بنا لیا تھا ۔

اب مذہب اور سائنس آمنے سامنے آگئے ، یورپ اس وقت تک عقلیت پرستی کی راہ پر چل نکلا تھا اس لیئے مذہب پیچھے رہ گیا اور سائنس جیت گئی۔ سائنس جیتی تومعاشرے کو اب سائنسی نکتہ نظر سے دیکھا جا نے لگا ، نئی نئی ایجادات وجود میں آئیں ، عوام میں سہولت پسندی آ گئی ، انسانی نفس کی تسکین سب سے بڑا مذہب قرار پایا ۔ جب پادریوں اور مذہبی طبقے کی طرف سے مذہب کے احیا کی کوشش کی گئی تو مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر سیکولرزم کا فلسفہ گھڑا گیا اور مذہب کو سیکرلرزم کی کی بیساکھیوں کے سہارے زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔


سترھویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یورپی معاشرہ جاگیرداری کے چنگل سے نکل کے تاجروں اور سرمایہ داروں کے قبضے میں آ چکا تھا ۔ ایک طرف یورپ اندرونی طور پر خوشحال ہو رہا تھا اور دوسری طرف نوآبادیات سے حاصل ہونے والی دولت نے ان کے وارے نیارے کر دیئے تھے۔ نو آبادیاتی نظام کے قیام اور اس کے دوام میں تاجروں اور سرمایہ داروں کا بڑا ہاتھ تھا ،یہ وہ لمحہ تھا جب خو دیورپ اور یورپی تہذیب نے دنیا کے دیگر ممالک اور تہذیبوں کو پیچھے چھوڑ کر تیزی سے آگے بڑھنے کا سفر شروع کر دیا تھا ۔


امریکہ کی دولت لوٹنے کے ساتھ اسی طرح کا کھیل ہندوستان کے ساتھ کھیلا گیا ۔ یورپ کی ترقی کی زنجیریں کسی خاص قوم یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ اس کی کڑیاں دنیا کے اکثر علاقوں ، خطوں اور اقوام کے خون پسینے میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔ پہلے انگریز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا بہانہ بنا کر ساحلی علاقوں پر تجارتی کوٹھیاں قائم کیں ، پھر ان کی حفاظت کے لیئے فوج رکھنی شرو ع کر دی ، جب برصغیر کے حکمران راجہ آپس میں لڑتے تو انگریز سے فوج اور اسلحہ کرائے پر لے لیتے ۔

اب انگریز تجارتی کوٹھیوں سے نکلا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا بنگال کے قلب تک جا پہنچا ۔ انگریز یہاں تجارت کی غرض سے آئے تھے ، جب امریکہ سے حاصل ہونے والی دولت نے انہیں عیش پرست بنا دیا تو وہ سامان تعیش خریدنے دنیا میں ہر جگہ پہنچے ۔ قرون وسطیٰ میں اپنی غربت کی وجہ سے یہ لوگ صرف اونی کپڑا پہنتے تھے اور سوتی کپڑا ان کے لیئے ایک خواب تھا ۔

ڈھاکہ کی ململ ساری دنیا میں مشہور تھی ، جب انگریز نے یہ کپڑا انگلستان برآمد کرنا شروع کیا تو ہندوستان کا مزدور اور کسان خوشحال ہو ا، لیکن اس کی خوشحالی کو اس وقت نظر لگ گئی جب یورپی تاجروں نے براعظم امریکہ میں کپاس کی کاشت شروع کر دی ، اب کپاس کے بھرے ہوئے جہاز امریکہ سے یورپ پہنچنے لگے ، انگلستان میں صنعتی سرگرمیاں تیز ہوئیں ، تاجروں اور سرمایہ داوروں نے نئی نئی فیکٹریا ں قائم کیں ، مزدور خوشحال ہو اتو معاشرے میں بھی تبدیلیاں آنے لگیں ، اب دستکاری کی جگہ بڑی بڑی مشینیں آ گئیں ، انڈسٹری وجود میں آئی تو اس سے متعلقہ علوم بھی درسگاہوں میں پڑھے پڑھائے جانے لگے جس کے نتیجے میں یورپ میں ٹیکنالوجی کو باقاعدگی کی شکل مل گئی ۔

انگلستان نے خود سوتی کپڑا بنانا شروع کیا تو ہندوستانی مارکیٹ بیٹھ گئی ، کپڑا وافر مقدا رمیں بنتا تھا لیکن اب اس کا کوئی خریدار نہیں تھا ۔ برآمدات رکیں تو مزدور فارغ ہو گیا اور معاشرے کی ترقی رک گئی۔ انگلستا ن میں صنعتی انقلاب آیا تو عالمی اقتصادی صورت حال بدلنے لگی ، دنیاکی اکانومی کو یورپ کنٹرول کرنے لگا اور دنیا کا سارا سرمایہ یورپ میں اکٹھا ہو گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :