قربان (ایک حقیقت)

اتوار 4 اکتوبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آج والدہ کی میڈیکل رپورٹ چیک کروانے ڈاکٹر کے کلینک پرگیا تو حقیقی پاکستان کا چہرہ دیکھنے کو ملا۔ قائد ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، آہا،ظالموں نے اس ریاست کا نقشہ ہی بگاڑ دیا۔ اپنے گھروں میں گی شکر اور غریب کے گھر پانی بھی نہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک چھوٹا سا معصوم لڑکا عمر 13سال نام قربان ،معصوم سے مراد خوبصورت نہیں کیونکہ وہ کبھی خوبصورت ہو ہی نہیں سکتاکہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور اس عمر میں ایک سبزی کی دُکان پر کام کرتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی کرسی درمیان پڑی ہے اور اُن کے دائیں طرف ایک کرسی جس پر مریض بیٹھتا ہے اور بائیں طرف ایک اور کرسی پڑی رہتی ہے جہاں دوسرا مریض بیٹھتا ہے، ابھی میں نے ڈاکٹر صاحب کی طرف رپوڑت بڑھائی ہی تھی کہ قربان کی سسکیوں کی آواز آنے لگ گئی ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا ہوا رو کیوں رہے ہو تو قربان نے روتے ہوئے جواب دیا کہ اُس کی پسلیوں میں شدید درد ہو رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اُس کو بہت تیز بخار بھی ہی۔

(جاری ہے)

میں نے داکٹر صاحب سے درخواست کی کہ پہلے قربان کو چیک کرلیں، اسی دوران قربان کی ماں ،جس کی بغل میں ایک اور چھوٹا سے معصوم لیکن غریب بچہ تھا، اور ساتھ شائد قربان کا بڑھا بھائی بھی تھا جس کی عمر بمشکل 14سال ہو گی بولی کہ یہ (قربان)سبزی کی دُکان پر کام کرتا ہے اور میں اسے بھی وہاں سے لائی ہوں (یہ رات کے 10بجے کا واقع ہے)جب میں نے اُسے ہاتھ لگایا تو یہ بخار سے تپ رہا تھا لہذا اسے آپ کے پاس لے آئی۔

خیر ڈاکٹر نے اُسے چیک کیا اور کچھ دوائیاں اپنے پاس سے دے دیں۔ جاتے ہوئے قربان کی والدہ نے کہا کہ ان کا باپ بھی کچھ دنوں سے بیمار ہے اُس کے لیے بھی کوئی دوائی دے دیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بی بی جب تک میں اُسے دیکھ نا لوں دوائی نہیں دے سکتا۔ قربان کی والدہ مایوس سی ہو کر چل دی، کہ شائد اُس کا خاوند اب کبھی ٹھیک نہیں ہو گا۔
یہ ایک چھوٹے سے علاقے کے چھوٹے سے خاندان کی کہانی ہے،جن کو آئیں اور طرز حکومت سے کوئی غرض نہیں یہ تو اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات کو پورا کرنا چاہتے ہیں، پورا پورا کنبہ کام کرتا ہے تب کہیں جاکرکے دو وقت کی روٹی میسر ہوتی ہے، وہ بچہ جس کی عمر سکول جانے اور کھیلنے کودنے کی ہے گھر والوں کو پالنے کی فکر میں لگا ہوا ہے،پاکستان میں بہت سے لوگ غریب پرور ہونے کے دعوئے دار ہیں مگر پتا نہیں کیوں ان لوگوں کو وہ غریب نظر کیوں نہیں آتے جنہیں ضرورت ہوتی ہے۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں ہر وقت حکمرانوں کا رونا رونے کا بھی کیا فائدہ ان کے سر کون سا جوں رینگتی ہے۔ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر امیر تر، روزانہ آخبارات کرپشن کی کہانیاں لیے ہوتے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
تمام حکومتیں ہمیشہ یہ وعدہ کرتی ہیں کہ وہ ملک سے کرپشن ،جہالت،بے روزگاری جیسی تمام لعنتوں کو ختم کر دیں گے مگر عملی طور پر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آتا، زرداری صاحب کے بارئے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنوں کو نوازا جبکہ میاں صاحب کے بھی تقریبا تمام رشتہ دار بڑئے بڑئے عہدئے سمجھالے ہوئے ہیں۔

دوسرئے ممالک میں جا کر یہ رونا روتے ہیں کہ ہمارئے ملک میں سرمایا کاری کرو مگر خود کی تمام سرمایا کاری ملک سے باہر، بہت سے دوست یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ پنجاب کا سارا بجٹ لاہور پر خرچ ہو جاتا ہے، تو ایسے دوستوں سے ہماری درخواست ہے ایک دفعہ آکر لاہور کے لوگوں کی حالت زار بھی دیکھ لیں، 100فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، سرکاری سکولوں کی حالت اتنی ابتر ہے کہ غریب سے غریب بندہ بھی اپنے بچوں کو وہاں داخل نہیں کرواتا،
نندی پور پراجیکٹ سے لے کر سولر پارک تک کے منصوبوں پر جو اربوں روپے خرچ کر دیے گئے اُس کا حساب کتاب لینے دینے والا کوئی نہیں۔

قربان جیسے بچے ہمیشہ کسمپرسی کا شکار رہے ہے اور رہیں گے۔ دیکھا جائے تو ملک میں سوائے دہشت گردی اور سیاست کے کوئی بحث نہیں ہوتی ،دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا کام فوج کا ہے جبکہ حکومتوں کا کام عوامی فلاحی منصبون پر کام کرنا ہوتا ہے۔ یہاں چند بچوں کو سکارلر شپ دے کر شہیدوں میں نام لکھوا لیا جاتا ہے۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہیں کہ اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچائے، تعلیم و تربیت سے لے کر علاج و معالج تک کی تمام ضروریات موجود ہوں۔

ملک کے تمام وسائل پر چند خاندانوں کا قبضہ جبکہ عام عوام کے پاس سوائے خودکشی کرنے کے دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں ۔سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے، پنجاب اسمبلی کے سامنے سے گزریں تو ایسی ایسی گاڑیاں دیکھنے کو ملتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ پاکستان دُینا کا امیر ترین ملک ہے۔ جیسے ہی مضافات میں جائیں تو لگتا ہے کہ افریقہ کے ملک بھی ہم سے بہتر ہیں۔

حکمران اپنے لیے تو کروڑوں کی گاڑیان اور ہیلی کاپٹر منگوا لیتے ہیں مگر ہسپتالوں میں گردے صاف کرنے والی مشینوں کو ٹھیک کروانے کے لیے ان کے پاس فنڈ موجود نہیں، خود کا تو گھٹنے کا علاج بھی کروانا ہوتو لندن سے کم کی بات نہیں کرتے، مگر غریب کو ملکی میں بھی یہ سہولت موجود نہیں، کیا کرنا ہے ایسے حکمرانوں کو جن کو عوام کے دکھ درد کا احساس نہیں، جن کا کام صرف اپنی جیبیں بھرنا ہے یا اپنے بچوں کو نئے نئے کاروبار کر کے دینا ہے۔

احتساب کے نام پر لوگوں کو اُلو بنانا تو کوئی حکمرانوں سے سیکھے، کل ہی ملک کے معروف کالم نگار روف کلاسرا نے احتساب کا آنکھوں دیکھا حال کے عنوان سے کالم لکھا ہے جسے بڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے حکمران کرپٹ لوگوں کو سزا دینے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :