پنجاب یونیورسٹی، شعبہ ابلاغیات کا ایم فل اسکینڈل

اتوار 4 اکتوبر 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہمیں تسلیم کر نا ہو گا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں لوگ قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ، اپنی انا کے نشے میں مست لوگوں کو تکلیف پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پھر لوگوں کی فر یاد سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے اور یوں اپنے آپ کو”پھنے خاں“ سمجھنے والے لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہونے والی عوام کے پاس میڈیا کے علاوہ اور کوئی دروازہ موجود نہیں ہو تا جسے وہ کھٹکا سکیں۔


روزہی ٹیلی فون کالز، ایس،ایم،ایس ، اور ای۔ میل کے ذریعے لوگوں کے ایسے ایسے مسائل دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کوئی کسی کا پُرسان حال نہیں۔کچھ روز قبل ایک ایسا ہی خط موصول ہوا جس میں پنجاب یونیورسٹی کے کچھ طالبعلموں نے اپنا مسئلہ اجاگر کر نے کی درخواست کی اور مسئلے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے من وعن شائع کیا جا رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ وائس چانسلر ڈاکٹر کامران مجاہد، مجاہدانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے یہ مسئلہ حل کرائیں گے۔

(جاری ہے)


پنجاب یونیورسٹی ایشیا کی قدیم ترین اور سب سے بڑی درسگاہ ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلباء و طالبات پوری دنیا میں اپنے اپنے شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسیات ہو یا معاشیات، علوم اراضی ہو یا شعبہ انجینئرنگ، سیاست ہو یا صحافت، ہر میدان میں پنجاب یونیورسٹی کو کلیدی مقام حاصل ہے۔اسی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات نے بڑے بڑے سپوت پیدا کیے ہیں جس سے پنجاب یونیورسٹی کا امیج پوری دنیا کے سامنے بلند ہوا۔

پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں یونیورسٹیز کی پہچان ہوا کرتی ہیں مگرافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ دو، تین سالوں سے پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ علوم ابلاغیات نے ان ڈگریوں کے انٹری ٹیسٹ میں بے ضابطگیوں کی انتہا کر دی ہے۔
فی زمانہ دنیا بھر میں ابلاغیات صرف نظری (Theoratical)ہی نہیں بلکہ عملی تعلیم (Professional)کا بھی نام ہے۔پنجاب یونیورسٹی نے ایسے افراد کی اعلیٰ تعلیم کیلئے ایم فل پروفیشنل ٹریک شروع کیا تھا لیکن اس کے انٹری ٹیسٹ میں ہی ایسے سوالات شامل کر دئیے گئے جسے بجا طور پر پروفیشنل صحافیوں کو دور رکھنے کی کامیاب سازش کہا جا سکتا ہے۔

حالیہ ہونے والے ایم فل پروفیشنل ٹریک کے انٹری ٹیسٹ میں زیادہ تر سوالات ریسرچ ٹریک سے متعلق تھے حالانکہ اصولی طور پر پروفیشنل ٹریک کیلئے الگ پیپر ہونا چاہئے تھا۔دوسری بڑی نا انصافی یہ ہے کہ انٹری ٹیسٹ سے پہلے ہی ادارہ کی انچارج اعلان کر دیتی ہیں کہ فلاں کا داخلہ ہونے دوں گی اور فلاں کا نہیں ہونے دوں گی اور گزشتہ دو، تین سیشنز سے وہ یہ” فریضہ“ ببانگ دہل انجام دے رہی ہیں۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاس شدہ سٹوڈنٹس کا پیپر DDPC (ڈیپارٹمنٹل ڈاکٹورل پروگرام کمیٹی)کے تمام ممبران کو نہیں دکھایا جاتا بلکہ اسے پراسرار انداز میں خفیہ رکھا جاتا ہے تاکہ اپنی مرضی کے سٹوڈنٹس کے داخلے کی راہ ہموار کی جا سکے۔مطلب یہ ہوا کہ نتائج ترتیب دینے کے پراسیس میں دال میں محض کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔
اس عمل سے نہ صرف اہل طلبہ میں بددلی پیدا ہو رہی ہے بلکہ ادارے میں بددیانتی کی نئی مثالیں بھی قائم ہو رہی ہیں۔

دوسرے معنوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ تحقیقی ڈگریاں چھ اساتذہ کا فرمائشی پروگرام بن چکی ہیں جس میں کچھ ڈی ڈی پی سی کے ممبر ہیں اور کچھ نان ممبر بھی ہیں۔ برسر مطلب امسال ہونے والا پروفیشنل ٹریک کا انٹری ٹیسٹ نہ صرف آؤٹ آف پیٹرن تھا بلکہ اغلاط سے بھی بھرپور تھا۔پیپر میں پائی جانے والی غلطیوں اور سوالات کی تکرار سمیت دیگر کوتاہیوں کے حوالے سے ایک پروفیشنل صحافی نے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کو تحقیقات کیلئے درخواست دی۔

وی سی نے اس درخواست پر انکوائری لگائی اور اپنی سربراہی میں تمام متعلقہ افراد کو بلا کر تحقیقات کیں جس میں یہ واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ پیپر انتہائی عجلت میں محض ایک دن قبل بنایا گیا اور اسے کسی نے فائنل کر کے دیکھنا یا پڑھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔جس کے نتیجے میں پیپر میں پائی جانے والی اغلاط کو درست نہیں کیا جا سکا۔اندریں حالات وی سی پنجاب یونیورسٹی نے فکلیٹی ڈین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی مگر اس کمیٹی نے طے کر لیا کہ شکایت کنندہ کو ہر گزداخل نہیں کیا جائے گا بلکہ داخلہ کے پراسیس مکمل ہونے تک مختلف حیلے بہانوں سے ٹال مٹول کا کام لیا جائے گا۔


قارئین !شکایت کنندہ کا یہ مطالبہ تھا کہ جب اس کی طرف سے اٹھائے جانے والے تمام سوالات اور الزمات کو درست تسلیم کر لیا گیا ہے تو اب پیپر کو کینسل کیا جائے اور پروفیشنل ٹریک کا انٹری ٹیسٹ دوبارہ لیا جائے مگر اس مطالبے کو کمیٹی نے اپنی عزت اور وقار کے خلاف قرار دیتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ آئندہ ان کوتاہیوں اور الزامات پر قابو پا لیا جائے گا۔

حالانکہ ان معزز اساتذہ کرام کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ ان کی غلطی کا خمیازہ طلبہ نہ بھگتیں کیونکہ اس طرح طلبہ کا ایک سال مزید ضائع ہو جائے گا۔شکایت کنندہ نے اب یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان بے بنیاد داخلوں کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے جو اصلی جوابی کاپیوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کرے اور بد دیانتی ثابت ہونے پر ڈین، انچارج اور ممبران کے خلاف قواعد و ضوابط کے تحت انضباطی کارروائی کرے۔اب یہاں اصل امتحان انتظامیہ کا شروع ہوتا ہے کہ وہ انٹری ٹیسٹ پر اٹھائے جانے والے سوالات اور شکایات کا ازالہ کرتی ہے یا دوسری چیزوں کی طرح اس پر سے بھی صرف ِ نظر کر کے مستقبل میں اپنے لئے نئی مشکلات کو دعوت دیتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :