کسان راج

جمعرات 8 اکتوبر 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ایک زمانہ تھا جب کسانوں کی انجمن سازی اور مزدوروں کی ٹریڈ یونینزکو بھائی بھائی سے لڑانے کی سازش قراردیاجاتا تھا۔’مزدوروں اور کسانوں کے راج ‘ یا سوشلزم کو کفر اور طبقاتی تقسیم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج کردینے کے فتویے عام تھے۔ان فتووں کا مرکز و منبع ’منصورہ‘ ہوا کرتا تھا۔اسی زمانے میں ’جماعت‘ کے بانی اور نظریاتی راہنما مولانا ابوالاعلی مودودی نے ”ذاتی ملکیت کے تقدس“ اور سرمایہ دارنہ نظام معیشت کے حق میں اپنے قلم کا خوب استعمال کیا اور درجنوں کے حساب سے پمفلٹ اور کتابیں لکھی گئیں۔

مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لئے انکے حامیوں پر جسمانی اور نظریاتی حملے کیا جانا ’ثواب دارین‘قراردیا جاتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ابھی تک وہ دیواریں اپنی شکستگی کے باوجود سلامت ہیں جن پر ’جماعت ‘کی طرف سے کرائی گئی وال چاکنگ میں ”زمین دارمزارعہ بھائی بھائی“ کے غیر حقیقی نعرے درج کئے جاتے تھے۔پاکستان پیپلز پارٹی بنی تو اسکے ’روٹی ،کپڑا اور مکان ‘ کے نعرے کو ’شرک‘ قراردیاجاتا رہا۔

پیپلزپارٹی کے پروگرام میں مزدوروں اور کسانوں کے راج کی تفصیلات اور سوشلزم کے ذریعے اسکے اطلاق کے خلاف ”فتووں “ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا توان حملوں کے پیچھے بھی ”جماعت اسلامی“ کی ہی توانائی اور وسائل پائے گئے۔پیپلز پارٹی ان نعروں اور پروگرام کی وجہ سے دنوں میں ہی ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تو مخالفین کو ہر میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

فتووں کے برعکس ‘ملک بھر کے مزدور،کسان اور طلبہ‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن بنتے گئے۔پارٹی قیادت ‘ اپنی کوتاہیوں اور شعوری غلطیوں کے سبب پروگرام پر عمل درآمد کے ذریعے یعنی سوشلسٹ انقلاب سے دور ہوتی گئی ورنہ پاکستان کے مزدروں ،کسانوں اور طلبہ نے تو ایوبی آمریت کو بھی شکست دے دی تھی اور تمام فتووں اور مخالفتوں کو بھی۔اگلے مرحلے میں 22معروف مذہبی سکالرز،علماء بشمول جامعتہ الزہرکے سربراہ نے ایک فتوی جاری کیا کہ ”پاکستان پیپلز پارٹی کافروں کی جماعت ہے اور اسکو ووٹ ڈالنا کفر ہے،جو ایسا کرے گا وہ کافر ہوگا اور اسکا نکاح فسخ ہوجائے گا“۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے کوئی کفر نہیں کیا تھا سوائے سماج اور حکومت پر مزدور اور کسان راج کے دعوے اور نعرے کے ۔1970ء کے الیکشن میں پاکستان کی عوام نے اس فتوے کو رد کردیا اور پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی ووٹ لیکر مغربی پاکستان سے جیت گئی۔2015ء میں پاکستان پیپلز پارٹی مزدور کسان راج کے نعرے سے دستبرادارہوکر اسی پرانے فرسودہ نظام اور ذاتی ملکیت کے فلسفے پر گامزن ہور کر تقریباََ تحلیل ہوکر معدوم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔

دوسری طرف ”جماعت اسلامی“ بھی اپنے پروگرام کے کئی نقطوں سے منحرف ہوکر لفظوں کی حد تک مزدور اور کسان کے درد میں مبتلا ہوچکی ہے۔کچلے ہوئے طبقوں کی ”طے شدہ“غربت اور گراوٹ کا تعلق قسمت سے ہے اورپچھڑے طبقات کوہر حال میں بھوک اور افلاس کی چکی میں پستے رہنے دو‘کی پالیسی اب جاری رہنا ممکن نہیں رہی ہے۔ ان دنوں‘ جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے ”کسان راج تحریک“ کے ایک خاص مرحلے کا آغاز کیا ہے۔

صادق آباد سے شروع ہونے والی اس تحریک کی نسبت سراج الحق نے تو 1958ء میں صادق آباد میں ہی علیانی کاٹن فیکٹری ماچھی گوٹھ میں ہونے والی جماعت اسلامی کی کانفرنس سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ،اس متنازعہ کانفرنس میں جماعت اسلامی ایک بڑی سپلٹ کے بعد اپنے اچھے کیڈرز سے محروم ہوگئی تھی۔ان دنوں جماعت اسلامی طبقوں پر بٹے معاشرے کی تقسیم کو کسی طور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھی اور سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے اثاثوں اور دولت کے انبھار کو اللہ کا انعام اور مزدوروں ،کسانوں کی غربت پر صبر،شکر اور تسلیم ورضا کی بات کیا کرتی تھی۔

اپنے ایک حالیہ مضمون میں جماعت اسلامی پنجاب کے امیر مولانا ادریس نے کسانوں کی نجات کے لئے بہت سے انقلابات کا نام لیتے ہوئے روس میں ہونے والے (بالشویک انقلاب) کا بھی ذکر کیا ہے ۔قاضی حسین احمد کے بھٹو کی قبر پر پر فاتحہ خوانی کے بعد یہ ایک قابل ذکر ارتقائی مرحلہ ہے۔پانچ اکتوبر کو صادق آباد میں تقریر کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ جب تک کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کے چہروں پر رونق نہیں دیکھ لیتا ان کے حقوق کی جدوجہد جاری رکھوں گا۔

پاکستان صرف اسلام آباد میں بیٹھے شہزادوں کا نہیں اس کی خاطر خون پسینہ ایک کرنے والے کسانوں کا بھی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد کسانوں اور مزدوروں کی ہے جو ملکی ترقی و خوشحالی اور عوام کا پیٹ پالنے کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں مگر ان کی محنت کا پھل وہ لوگ کھا رہے ہیں جو اقتدار پر قابض ہیں۔سراج الحق جب یہ تقریر کررہے تھے تو انکے سامنے سینکڑوں کسان(جن میں بغیر ملکیت والے دہقان بھی شامل تھے)کھڑے تھے جبکہ انکے دائیں اور بائیں آڑھتی، ملک کے بڑے جاگیر دار ،زمین داراور سرمایہ دار کھڑے تھے۔

کسان راج جس قسم کے مطالبات کئے گئے ان مطالبات کے پوراہونے کی صورت میں بھی زراعت سے متعلق بالادست طبقہ ہی فیض یاب ہوگاجن کا تعلق بھی خاکوانی،لغاری،قریشی اور دیگر ناموں کے جاگیردار اور زمیندار خانوادوں سے ہے۔جمال دین والی شوگر ملز یونٹ نمبر 2،فاطمہ فرٹیلائیزر اور فوجی فرٹیلائزرکمپنی کے پہلو میں کھڑے ہوکر مزدوروں کا نام لیکر بات ضرور کی گئی مگر مزدوروں کو بطور طبقہ کس قسم کے استحصال ،جبر اور لوٹ مار کا شکار بنایاجاتا ہے اس پر ایک لفظ نہیں کہا گیا۔

سراج الحق کے اسٹیج پر موجود جماعت اسلامی کی مقامی راہنما کی ادویات ساز فیکٹری میں مزدوروں کے بہیمانہ استحصال ،جعلی ٹھیکے داری نظام کے ذریعے بیس تیس سالوں سے کام کرنے والے مزدوروں کو قانونی اجرت،مراعات اور سہولیات سے محروم رکھنے پر کوئی بات نہیں کی گئی۔جماعت اسلامی نے گنے اور کپاس کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کرکے”ملکیت کے حامل جاگیر داروں، بڑے چھوٹے زمینداروں“کو خوش کرکے فرض کرلیا کہ یوں ”کسان راج“قائم ہوجائے گا!پاکستان کا زرعی مسئلہ ساٹھ، ستر اور اسی کی دھائی سے بہت مختلف شکل اختیار کرچکا ہے۔

ماضی بعید کی پاکستان پیپلز پارٹی کے کسان مسئلے پر موقف کے برعکس اب کسان مسئلہ مختلف جہتوں سے اپنی ہیئت ہی تبدیل کرچکا ہے،لہذا چھیالیس سال بعددیکھنا ضروری ہے کہ چھوٹے کسانوں کی کتنی بڑی تعداد اپنی زمینیں آڑھتیوں اور بڑے زمین داروں کے ہاتھ بیچ کریا تو جدید دور کے زرعی غلام بن چکے ہیں یا فیکٹریوں میں اپنی محنت کا استحصال کرارہے ہیں، شہروں کے قرب وجوار میں کسی وباء کی طرح پھیلتی کچی بستیاں اورٹبے‘ ان سابق کسانوں کا مسکن بن چکی ہے جو منڈی کی معیشت میں بطور کسان اپنا وجود برقرارنہ رکھ سکنے کی وجہ سے دیہی علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔

چار زرعی اصلاحات بدنیتی اور جعل سازی کا شکار ہوچکی ہیں،جاگیر داروں نے زمینوں کی تقسیم کو جعلی انتقالوں ،اراضی کے تبادلوں اور بعد ازاں فاروق لغاری کیس کے ذریعے غیر موثر کردیا تھا۔اگرچہ جاگیر دار اور بڑے زمیند ار بارہا ان زمینوں کے عوض بینکوں سے کئی بار قرضے لیکر ڈکار چکے ہیں،اصولی طور پر وہ ان جاگیروں کے مالک بھی نہیں رہے ہیں مگر ہمیشہ حکمرانی میں رہنے کی وجہ سے وہ اب بھی سینکڑوں بلکہ کئی جگہوں پر ہزاروں ایکڑز کے مالکان ہیں۔

زرعی مسئلے کا آغاز غیر حاضر مالکان(جاگیر داروں اور بڑے زمینداروں) اور زمین پر عملاََ کاشت کاری کرنے والے( بیل داروں ،مزارعوں اور نوکروں)کے ‘دو متضاد مفادات کے حامل طبقوں سے شروع ہوتا ہے۔ اس لئے زرعی مسئلے کو طبقاتی نگاہ سے دیکھے بغیر اس مسلے کو سمجھنے کا آغاز تک نہیں ہوسکتا‘کجاہ اس کا حل نکالا جائے۔جاگیروں(خلیجی حکمرانوں کو اونے پونے لیز پر دی گئی اور اسٹیبلشمنٹ کی بندربانٹ والی زمینوں سمیت) کی نجی ملکیت کے خاتمے اور مشترکہ کاشت کاری کو اختیار کئے بغیر لفظ ’کسان ‘ایک مبہم اصطلاح ہے ۔

زمینوں پر محنت کرکے فصل اگانے والے اور فصلوں کے دام وصول کرکے اپنی جیبوں میں ڈالنے والوں میں تمیز کرنا ضروری ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اجناس کی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کا مطلب کاشت کاری سے باہر کروڑوں صارفین پر بوجھ ڈالنا ہے۔ جب کہ سبسڈی کا مطلب بھی بالواسطہ بوجھ عوام کی طرف منتقل کرنا ہی ہوتاہے۔ اصل مسئلہ لاگت پیداوار کو کم کرنا ہے۔

اس مسئلے میں فوجی فرٹیلائیزر جیسی کمپنیاں مزاحم ہیں جن کو طاقت ور حلقوں کی حمائت حاصل ہے۔ہمہ قسم کی کھادوں،کیڑے مار ادویات،بیج،بجلی کی غیر حقیقی قیمتوں میں کئی سو گنا کمی کئے بغیر زرعی مسئلے میں پیش رفت نہیں ہوسکتی۔ دوسری طرف آبی وسائل میں اضافے،آبپاشی کے نظام میں بڑے پیمانے اصلاح کرنے کی ضرورت ہے جو منڈی کی معیشت اور سرمایہ داری نظام کے زوال کے اس عہد اور بطور خاص ایک سابق نوآبادی ملک کو چلانے کے طریقہ ہائے کار کے مطابق ممکن ہی نہیں ہے۔

پانی کے وسائل کو بے دردی سے ضائع کیا جارہا ہے،63فی صد پانی کھیت میں پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے۔بجلی کی قیمتوں کا تعین عمومی طور پر بھی سامراجی آئی پی پیپز کے مفادات کی بجائے حقائق کی بنا پر کرنا ہوگا۔غیر جانبدارماہرین اور صارفین کو حقیقی لاگت پیداوار کی چھان بین کرنے کی سہولت مہیا کرکے ہی بجلی کے قیمت فروخت کا درست تعین کیا جاسکتا ہے اور زرعی شعبے کو پھر بجلی کی حقیقی قیمت سے بھی کئی گنا زیادہ چھوٹ دینا ہوگی۔

بیج کی صحت کا مسئلہ زرعی شعبے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ہر کس وناکس نے سیڈ کارپوریشن کھولے ہوئے ہیں اور کسانوں کو ناقص بیج مہنگے داموں بیچ فصلوں کا بیڑا غرق کیا جاتا ہے۔ کھاد،بیج اور کیڑے مارادویات کا تعلق چونکہ سرمایہ داروں اور آڑھتی طبقے سے ہے‘ اس لئے(زمیند اروں اور آڑھتیوں کی قیادت میں چلنے والی ) بیشتر کسان تحریکوں میں اس سنجیدہ شعبہ جات کے متعلق چپ سادھ کر صرف اجناس کی قیمتوں کے تعین کے گرد نعرہ بازی کی جاتی ہے۔

۔ایگریکلچر سروے آف پاکستان کے مطابق10فی صد) غیر حاضر(بڑے زمین داروں ،جاگیرداروں کے پاس کل زمین کی 54فی صد ملکیت ہے ،جبکہ نچلے 10فی صد چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کے پاس کل اراضی کا 17فیصد اور باقی 29فی صد اراضی درمیانے زمینداروں کے تصرف ،قبضے اور ملکیت میں ہے۔اس طبقاتی تقسیم کے بعد کسان لفظ کا ترجمہ کئے بغیر کسان راج کا نعرہ مبہم اور بے معنے ہوجاتا ہے۔

اگرطبقاتی طور پر جاگیر دار اور زمینوں پر ہل چلانے والے کاشت کاروں کے فرق کو اجاگر کئے بغیر کسانوں کے حقوق کی بات کی جائے گی تو اس کا مطلب جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے مفادات ہیں اور وہ جتنے مالی طور پر اور زیادہ مستحکم ہوتے جائیں گے ،چھوٹے کسانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ اتنا ہی بڑتا جائے گا۔مگر سب سے اہم مسئلہ زراعت سے منسلک ان دہقانو ں(زرعی مزدوروں) کا ہے جو پیداواری عمل میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا رکرتے ہیں، تعداد میں سب سے زیادہ ہیں،محنت وہی کرتے ہیں اور پسینہ بھی انکا ہی بہتا ہے مگر ان کو بطور ”کسان “ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی کسان پیکج اور ”کسان راج تحریک “ میں انکا ذکر ہے!کسان راج کے نعرے کا مطلب طبقات کے توازن کے مطابق حق حکمرانی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ ہے، مگر کاشت کاری کے عمل میں موجود اکثریتی دہقان کو اگر کسان ہی تسلیم نہیں کیاجاتا تو پھر ابھی بھی بوسیدہ نظریات کے حاملین‘زراعت سے منسلک اقلیتی طبقے کے مفادات کی تحریک کو اکثریتی طبقے کے نام(کسان) سے چلا کر محض ہیراپھیری کررہے ۔

رسی جل گئی مگر بل نہ گیا کے مصداق یہ نیادھوکہ بھی پرانے ہتھکنڈوں کی طرح سیاسی بازی گری کے کھیل میں جان ڈالنے سے عاری ثابت ہوگا۔سرمایہ داری کے موجودہ عہد میں،زراعت منڈی کی معیشت کے ساتھ پوری گہرائی سے منسلک ہے ۔دہقانوں کے مفادات مزدوروں کے مفادات سے جڑے ہوئے ہوئے ہیں۔اصطلاحات کے ناجائز استعمال ،سرابوں اور سیاسی ڈراموں کے اس عہد میں صنعتی مزدور کی قیادت میں ہی دہقانوں اور نوجوانوں کوطبقاتی اورانقلابی پروگرام کے گرد اپنی جدوجہد کو استوار کرنا ہوگا،ماضی بعید کے فرسودہ خیالات اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کے لئے کسی بھی تحریک کا مطلب موجودہ ظالمانہ نظام کی گرفت کو اور زیادہ مضبوط کرنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :