”لات“نہیں ”بات“

جمعرات 8 اکتوبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

کسی بھی فرد یا ادارے کی دشمنی یا دوستی آپ کو حق بات کہنے سے روک دے تو آپ اپنے خیالات یا افکار کا جائزہ لینا چاہیے ۔ بات کی ساکھ تبھی برقرار رہ سکتی ہے جب آپ اپنی ذاتی پسند نا پسند ایک طرف رکھ کر معاملات کا غیر جانبداری سے جائزہ لینے کے بعد تجزیہ کریں ۔مسلم لیگ نون سے اختلافات اپنی جگہ ،حکومتی پالیسوں پر تنقید برائے اصلاح ایک اچھا عمل ہے لیکن تنقید برائے تنقید اور میں نہ مانوں کارویہ کبھی درست قرارنہیں دیاجاسکتا ۔

وزیراعظم محمدنوازشریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریرسے پہلے قیاس آرائیوں کے گھوڑے خوب دوڑائے گئے لیکن میں نے اس موضوع پر لکھنے سے گریز ہی کیا ۔صحافی کو پیشین گو نہیں خبرنویس رہنا ہی زیب دیتاہے ۔جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب میں محترمہ شیریں مزاری کو نئے پاکستان کی طرز پرکوئی” نئی “چیز نظر نہیں آئی ۔

(جاری ہے)

حالانکہ شاہ محمود قریشی جو وزارت خارجہ کے امور کی نزاکت سے واقفیت رکھتے ہیں انہوں نے بھی اس کی تحسین کی ہے ۔

اب بھلا وزیراعظم اقوام متحدہ میں کیا کوئی توپ چلادیتے ؟برصغیر کو انگریز بہادر سے جو سب سے بڑا ورثہ ملا وہ مسئلہ کشمیر ہے جیتے جاتے انسانوں اور انسانی رشتوں کے تقدس کو پامال کرتا یہ مسئلہ ستر برس سے جنوبی ایشیا کے امن کے گلے کی پھانس بن کر رہ گیاہے ۔بجا طورپر وزیراعظم نے بھارت کو امن کی طرف سے قدم بڑھانے کیلئے ایک اچھا اورقابل عمل منصوبہ پیش کیا ۔

وزیراعظم کے اس چار نکاتے فارمولے کے مطابق اگر بھارت کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا مکمل احترام کرے،طاقت کے استعمال کی دھمکیوں سے گریز کرے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بناکر دونوں ملک سیاچن سے اپنی فوجیں واپس بلالیں تو پاکستان اوربھارت کے درمیان اسی فیصدباہمی تنازعات حل ہوجائیں گے جس کے بعد دونوں ملک اپنے وسائل غربت کی چکی میں پستے اپنے عوام پر خرچ کرسکیں گے ۔

لیکن سشما سوراج کے روایتی سوکنوں والے طعنوں سے لگتاہے کہ بھارت برتری کے زعم سے باہر نکلنے کوتیارنہیں ۔پاکستان پر بھارت میں دہشت گردی کا الزام الٹا چور کوتوال کوڈانٹے کے مترادف ہے ۔عقل کی بات یہ ہے کہ کراچی ،قبائلی علاقوں اور افغان سرحدکے علاوہ کنٹرول لائن پر چومکھی لڑنے والے پاکستان کے پاس اس قدر وقت اور وسائل کیسے ہوسکتے ہیں کہ وہ بھارت میں دہشتگردی کروائے ۔

بھارت خود آج تک سمجھوتہ ایکسپریس کے ریاستی دہشتگردوں کا جواب نہیں دے سکا۔کرنل پروہت کوئی ڈھکا چھپا کردار نہیں اوربھارت میں آج ایک نہیں لاکھوں پروہت موجودہیں ا ور ان میں سے ایک گجرات فساد کے ذمہ دار مودی بھی ہیں ۔معلوم نہیں کب تک بھارت میں ہیمنت کرکرے جیسے سرکاری افسر اکھنڈ بھارت کے خواب کی نظر ہوتے رہیں گے ۔
مودی بے شک بھارت کے وزیراعظم بن گئے ہیں لیکن سوچ سے تعصب نہیں گیا ۔

خود ان کی جماعت بی جے پی کی ماں آر ایس ایس سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ باہمی مسائل مذاکرات کے ساتھ حل کئے جائیں لیکن مودی سرکار کے کان پرجوں تک نہیں رینگی ۔وزیراعظم محمدنوازشریف نے شدید خواہش کے باوجود جب بھارت نے دوستی کے ہاتھ کو کمزور کی پیشکش سمجھا تو مجبورا َ پاکستان کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑی اوراب بجا طور پرپاکستان کے تمام حلقے نہ صرف وزیراعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب کی تحسین کررہے ہیں بلکہ حکومت اورفوج کے درمیان اختلافات کی بات کرنے والوں کو بھی مایوسی ہوئی ہے ۔

پاکستان کے تمام حلقے ایک طویل عرصے کے بعد کشمیرکے مسئلے پر متفق نظرآتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ یہ اتفاق رائے کافی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے ایک انتھک اورطویل سیاسی وسفارتی جدوجہدکی ضرورت ہے ۔بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں وزیراعظم محمدنوازشریف کی کشمیرپالیسی کو سراہا جارہاہے بالکل اسی طرح بھارت میں سشما سوراج اور مودی کا موقف مقبول ہے ۔

دراصل نئی دلی نے بے جا پراپیگنڈے سے اپنے عوام کے جذبات پاکستان کے خلاف اس قدر مشتعل کردیئے ہیں کہ اب انہیں معمول پرلانے میں بھی کافی وقت درکار ہوگا ۔مودی کے بیانات اوربدن بولی کو دیکھاجائے توجس طرح ان کا بچپن اورجوانی گزر ی ہے تو شائد وہ نادانستہ طورپر غربت کی زیادتیوں کا بدلہ جنوبی ایشیاکے عوام سے لینے کے درپے ہیں ۔لیکن کسی کو انہیں یہ سمجھانا چاہیے کہ درست طریقہ غربت کا خاتمہ ہے اوراسی سے خطے کا امن وابستہ ہے ۔

امن تب ہی ممکن ہے کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیاجائے اور یہ حل "بات"سے ہی ممکن ہے "لات"سے نہیں ۔بھارت اگر یہ سمجھتاہے کہ اس کی لات بڑی ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔
جنوبی ایشیاکے عوام کے لئے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ مستقبل میں اسلام آباد، بیجنگ اور ماسکو کی جوتکون بنتی نظرآرہی ہے یہ بھارت کی جارح طبیعت کیلئے کافی ناگوار ہے ۔تہران اگر اس تکون کو ایک چوکور میں بدل دے تو اس خطے کی خوشحالی کاخواب اس چار دیواری میں دیکھنا غیر فطری نہ ہوگا ۔لیکن کشمیرکامسئلہ مستقبل کے دس پندرہ برس میں حل ہوتا نظرنہیں آرہاہے کیوں کہ اس کیلئے مسلسل اور طویل ، بھرپور لیکن انتھک سفارتی اور سیاسی جنگ لڑنا ہوگی ۔یہ ایک تقریر سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :