تعلیم منافع بخش کاروبار

جمعرات 8 اکتوبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

کہتے ہیں کہ تعلیم کے ذریعے قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔ کہنے والے اس بارے میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو تعلیم کے ذریعے نہ کبھی قوم کی تقدیر بدلی ہے اور نہ ہی اس ملک کی صحت پر کبھی تعلیم کا کوئی اثر پڑا ہے۔ کہنے والے بے شک جو مرضی کہتے رہیں امریکہ برطانیہ نہیں جاپان اور چین کی مثالیں بھی دیتے رہیں تاریخ شاہد ہے کہ تعلیم کے ذریعے اس ملک میں نہ پہلے کچھ بدلا اور اگر حالات یہی رہے تو آئندہ بھی کچھ بدلنے والا نہیں کیونکہ اس بدقسمت ملک میں تعلیم مقصد نہیں کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے اور جب مقصد پر مفاد غالب آجائے تو پھرکسی بھی طرح مقصد حاصل نہیں ہوتا۔

جن ممالک اور قوموں نے تعلیم کے بل بوتے پر ترقی اور کامیابی حاصل کی وہاں آج بھی کسی خاص مقصد کیلئے تعلیم دی اور حاصل کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں۔

(جاری ہے)

یہاں تعلیم دینے والوں کا مقصد مال بٹورنے کے سوا کچھ نہیں توتعلیم حاصل کرنے والوں کے خواہشات بھی کچھ اچھے نہیں۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں جب کوئی شخص بالکل نکما ہو جائے یعنی کسی کام کے قابل نہ رہے تو پھر وہ سیاست کے میدان میں قسمت آزمائی کرتا ہے اگر وہاں اس کی انٹری نہ ہو تو وہ پھر کوئی سکول یا کالج کھول کے نوٹوں کی گنتی کیلئے گھربیٹھ جاتا ہے یہ شخص یا اشخاص تعلیم کے نام پر قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر پھر اتنے بااثر بن جاتے ہیں کہ وقت کے حکمران بھی پھر ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتے ہیں۔

اب تو یہ مافیاء کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاتھ روکنے والا اب کوئی نہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے تعلیم کو کاروبار کا درجہ دے کر ملک میں لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے اس کو دیکھتے ہوئے افسوس سے دل پھٹنے لگتا ہے۔ ان اداروں کے اندر نہ صرف غریب عوام کو بری طرح ڈسا جارہا ہے بلکہ غریب ٹیچروں اور دیگر ملازمین کا بھی انتہائی برے طریقے سے استحصال کیا جا رہا ہے۔

ان اداروں کی فیسوں میں تو سبزی منڈی کی طرح ہر روز اضافہ ہورہاہے لیکن ان اداروں سے وابستہ ٹیچروں اور دیگر ملازمین کو ماہانہ جو تنخواہیں دی جارہی ہیں ایک عام مزدور بھی مہینے میں اس سے زیادہ کماتاہے۔ خیبر پختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور جہاں سونامیوں نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی ہے کے نجی اداروں میں ٹیچروں کو ایک ہزار سے دو ہزار تک تنخواہیں دی جاتی ہیں جبکہ ان اداروں میں فیسیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کے حساب سے لی جاتی ہیں۔

وزیر اعظم نے بھاری فیسیں لینے والے اداروں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ اس ملک کے اندر تعلیمی میدان میں لوٹ مار کے جتنے بھی بڑے بڑے گڑھ ہیں وہ کوئی عام اور غریب لوگوں کے نہیں بلکہ انہی حکمرانوں کا ان سے براہ راست رشتہ و تعلق ہے۔ ہزارہ سمیت صرف خیبر پختونخوا میں ایسے کتنے نجی تعلیمی ادارے ہیں جو ممبران اسمبلی، وزراء، مشیروں اور ناظمین و نائب ناظمین کی ملکیت ہیں اور جو ان کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔

اب سوچنے کی بات ہے ان اداروں کے خلاف کارروائی کیسے ہو گی۔؟ یا کون ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔۔ ؟ کیا کوئی چور۔۔۔ لٹیرا یا کوئی مجرم اپنے خلاف خود کبھی کارروائی کرتا ہے۔۔۔؟ نہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ لوٹ مار کے ان گڑھوں سے ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔۔؟ قوموں کی تقدیر تعلیم سے بدلتی ہے لوٹ مار سے نہیں۔ جب تک نجی اداروں سے لوٹ مار کا خاتمہ کرکے حقیقی اور معیاری تعلیم کو فروغ نہیں دیا جاتا اس وقت تک اس تعلیم کا کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ لوٹ مار کے سائے تلے تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے آگے جاکر لوٹ مار کو تو فروغ دے سکتے ہیں مگر تعلیم کو کبھی نہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو تعلیم کے ذریعے اس ملک و قوم کی تقدیر کا بدل جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے کیونکہ محض زبانی احکامات، نعروں، دعوؤں اور تعلیمی ایمرجنسیوں کے نفاذ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ تعلیم کے ذریعے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے تعلیمی مافیاء کو فولادی رسی سے نکیل ڈال کر تعلیمی انقلاب برپا کرنا ہوگا۔

جب تک وزیروں، مشیروں، ممبران اسمبلی اور ناظمین و نائب ناظمین کی ملکیتی تعلیمی اداروں جنہوں نے لوٹ مار کے میدان میں وباء کی شکل اختیار کی ہوئی ہے کو تالے نہیں لگائے جاتے اس وقت تک تعلیمی مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔ ہمیں تعلیم کو کاروبار کے خول سے نکال کر اس کو عبادت کے درجے پر رکھنا ہوگا۔ تب نجی تعلیمی ادارے تعلیم کی حقیقی نرسریاں اور مراکز اور ان سے نکلنے والے ڈاکٹر، انجنےئرز، ٹیچر، وکیل، صحافی، سیاستدان اور سائنسدان حقیقی معنوں میں ملک و قوم کا سرمایہ ثابت ہوں گے۔

نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مار اور بھاری فیسوں کی وجہ سے تعلیم کو فروغ ملنے کی بجائے تعلیم کا باب آہستہ آہستہ بند ہوتا جارہا ہے کیونکہ ملک کی اکثر آبادی جو غربت و افلاس کے سائے تلے زندگی گزار رہی ہے ان کے ہزاروں نہیں لاکھوں بچے بھاری اخراجات اور فیسوں کی وجہ سے زیور تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس لئے نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے وزیر اعظم کو اپنے حکم پر فوری عملدرآمد کرانا ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان جن کی خیبر پختونخوا میں حکومت ہے اور جو صحت وتعلیم کاہروقت وردکرتے ہوئے نہیں تھکتے کوبھی صوبے میں اپنے وزیروں،مشیروں ،ممبران اسمبلی، ناظمین و نائب ناظمین کے نجی تعلیمی اداروں کے خلاف سخت کارروائی کر کے لوٹ مار کے باب کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند اور غریبوں پر تعلیم کے بند دروازے کھولنے کیلئے سخت اقدامات اٹھانے ہونگے تاکہ ملک میں حقیقی تعلیمی انقلاب کا خواب پورا ہو سکے ورنہ صرف ایمرجنسیاں لگانے سے تعلیمی مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :