ہنگامہ ہے کیوں برپا

ہفتہ 10 اکتوبر 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

آجکل لاہورمیں انتخابی گہماگہمی اپنے عروج پرہے ۔ایک طرف بلدیاتی امیدوار کشکول تھامے گلی گلی ووٹوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں تودوسری طرف NA-122 کے ضمنی انتخاب میں نواز لیگ اورتحریکِ انصاف کھڑاک پہ کھڑاک کیے جارہی ہیں۔ حقیقت یہی کہ سارا ”کھڑاک“ ہمارے کپتان صاحب کی مہربانی سے ہورہاہے جنہوں نے ضمنی انتخاب کو سردار ایاز صادق اورعبدالعلیم خاں کی بجائے اپنے اورمیاں نواز شریف کے مابین معرکہ قراردے دیا۔

ایک طرف ساری تحریکِ انصاف حلقہ 122 کاگھیراوٴ کیے بیٹھی ہے تودوسری طرف سارے حکومتی وزیرشزیر سمن آبادکی گلیاں ماپتے پھرتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے امیدوار عبد العلیم خاں نے اِس انتخابی معرکے میں اخراجات کی ساری حدیں تہس نہس کردیں،الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق جائے بھاڑمیں۔

(جاری ہے)

میری پسندیدہ جماعتِ اسلامی کے بزرجمہروں نے تحریکِ انصاف کاساتھ دینے کافیصلہ کرلیا۔

پتہ نہیں ”اندرکھاتے“ کیا ”مُک مکا“ ہوا کہ جماعتِ اسلامی نے بھی لنگوٹ کَس لیا۔ اُدھر خیبرپختونخوا میں آفتاب شیرپاوٴ کو ساتھ ملانے کے بعد وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک نے یک لخت آنکھیں پھیر لیں اور دروغ بَر گردنِ راوی آجکل وہ جماعت اسلامی کے وزیروں کے پیچھے لَٹھ لے کردوڑ رہے ہیں جبکہ ادھر حلقہ 122 میں تحریکِ انصاف اورجماعتِ اسلامی کایہ عالم کہ ”میں تے ماہی اِنج مِل گئے جیویں ٹِچ بَٹناں دی جوڑی“۔

شاید جمہوریت کاحسن اسی کوکہتے ہوں گے ۔شنیدہے کہ یہ سب کچھ چودھری سرورکا کیادھراہے جنہوں نے باربار منصورہ جاکر جماعتِ اسلامی کاناک میں دَم کردیا۔جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت نے تو تحریکِ انصاف کے وفدسے ملاقات سے بھی انکار کردیا تھالیکن لاہورکے امیرمیاں مقصوداحمد کوچودھری سرورنے بالآخر گھیرہی لیا۔ ویسے میاں مقصود احمدنے بھی سوچاہوگا کہ جماعت اسلامی توگزشتہ دو عشروں سے اُس حلقے میں اپنا امیدوار ہی کھڑانہیں کررہی اور یہاں جماعت کاووٹ بھی ”ٹانواں ٹانواں“ہی ہے اِس لیے تحریکِ انصاف کو”کَکھ“ فائدہ نہیں ہونے والا، اگرمفت میں احسان ہاتھ آتاہے تو اِس میں بُرا کیاہے۔


4 اکتوبرکو کپتان صاحب نے سمن آبادکی کی ”ڈونگی گراوٴنڈ“ میں ”ڈونگا“ جلسہ کرکے سونامیوں کا جی خوش کردیا۔ ویسے توجلسے سے پہلے خاں صاحب نے اِس جلسے میں نواز لیگ کے متعلق بڑے بڑے انکشافات کااعلان کیاتھا لیکن اب توسونامیے بھی جان چکے کہ خاں صاحب انکشافات کاکہتے ضرورہیں لیکن کرتے کبھی نہیں۔کپتان صاحب کے انکشافات کاعالم توبھٹومرحوم کی معاہدہ تاشقندوالی پٹاری کی مانند ہے جسے بھٹومرحوم کھولے بغیر ہی اپنی قبرمیں لے گئے ۔

ویسے ہوسکتاہے کہ کپتان صاحب کے نزدیک یہ بھی بہت بڑاانکشاف ہوکہ اُنہوں نے ایک دفعہ پھریوٹرن لیتے ہوئے ریحام خاں کو دوبارہ سیاست میں”اِن“ کردیا۔ ہری پورکے ضمنی انتخاب میں خوفناک شکست کے بعد دونوں نے ٹویٹ کیاتھاکہ ریحام خاں اب سیاست پہ تین حرف بھیج چکیں لیکن معاملہ چونکہ عبدالعلیم خاں کا تھاجو تحریکِ انصاف کے ”اَن داتاوٴں“میں سے ایک ہیں اِس لیے ریحام خاں کا حلقہ 122 میں آنا تو بنتا تھا دوستو ۔

ریحام خاں کے دوبارہ سیاست میںآ نے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارے شَرپسند الیکٹرانک میڈیانے ”ایویں خوامخواہ“ شورمچا دیاکہ عمران خاں اور ریحام خاں کی ازدواجی زندگی کا”اباوٴٹرن“ ہوچکااور کوئی دن جاتاہے جب عمران خاں ایک دفعہ پھرکسی کنٹینرپر کھڑے ہوکر سونامیوں کو کہیں گے کہ ”جلدی جلدی نیاپاکستان بناوٴ تاکہ میں شادی کرلوں“ اسی لیے خاں صاحب ریحام خاں کو میدان میں لے آئے تاکہ افواہیں دَم توڑسکیں۔


ڈونگی گراوٴنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خاں صاحب نے فرمایا ”نوازلیگ ہمیشہ سٹے آرڈرکے پیچھے چھُپ جاتی ہے اِس لے اِس کانام نوازلیگ نہیں ”سٹے آرڈرلیگ“ رکھ دیناچاہیے“۔ اِس پرتبصرہ کرتے ہوئے ایک لیگئے نے کہا ”شرم تم کومگر نہیںآ تی۔ خودچھ ،چھ بندے سٹے آرڈرکی ”بُکل“ مارے بیٹھے ہیں اور نوازلیگ کے صرف دو بندوں کے سٹے آرڈرپر چیں بچیں“۔

پرویزرشید صاحب نے دَرجوابِ آں غزل فرمایا ”تحریکِ انصاف کانام ”تحریکِ الزام“ ہوناچاہیے“ لیکن اِیک شَرپسند لیگئے کے خیال میں تحریکِ انصاف کانام ”پھڈاتحریک“ سب سے زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ” پھڈے بازی“ میں اِ س کاکوئی ثانی نہ شکست کو ”ٹھنڈے پیٹوں“ قبول کرنااِس کی عادت ۔ خودخاں صاحب کا فرمان ہے کہ ”تحریکِ انصاف وہ واحدجماعت ہے جس کی ڈکشنری میں شکست قبول کرنانہیں لکھا“۔

ظاہرہے کہ ”انوکھالاڈلا“ جب کھیلن کوچاند مانگنے کی ضدکرے گاتو پھر”پھڈا“ بھی ہوگا اور ”کھڑاک“ بھی۔ اِس لیے اِس جماعت کا ”پھڈاتحریک“ سے بہتر کوئی نام ہوہی نہیں سکتا۔ خاں صاحب کو اِس بات کی بھی بہت پریشانی ہے کہ میاں نواز شریف صاحب بوئنگ 777 پر امریکی دَورے پرکیوں جارہے ہیں۔ اِس کاحل خواجہ سعدرفیق نے یہ نکالاکہ وزیرِاعظم صاحب کو”رکشے“ پرامریکہ بھیج دیاجائے، وہ کبھی نہ کبھی تو امریکہ پہنچ ہی جائیں گے۔

جَل بھُن کرکباب ہونے والے ایک لیگئے نے کہاکہ اگرکپتان صاحب کابَس چلے تو وہ باتھ روم میں بھی جہانگیرترین کے جہازمیں جائیں لیکن اگر وزیرِاعظم امریکی دَورے پربوئنگ میں جائیں توسونامیوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں۔
کپتان صاحب نے فرمایا”نواز شریف جب بھی جِم خانہ میں کرکٹ کھیلتے تو امپائرکو ساتھ ملالیتے ۔وہ جب آوٴٹ ہوجاتے تو امپائر نوبال قراردے دیتا“۔

لیگئے کہتے ہیں کہ امپائرتو عمران خاں نے بھی ساتھ ملایاتھا لیکن اگرامپائر کی انگلی کوہی” فالج“ ہوگیا تواِس میں ہمارا کیاقصور۔ ویسے اگرامپائرسے مرادخاں صاحب کی ضدپر بنایاگیا تحقیقاتی کمیشن لیاجائے تواُس نے ”نوبال“ بالکل درست قراردیاکہ قوم کواپنی اعلیٰ عدلیہ پراعتماد ہے۔اسی جلسے میں ہمارے لال حویلی والے بھی آئے ہوئے تھے جنہوں نے فرمایا ”ایازصادق نے دوسال تک مجھے اسمبلی میں بولنے نہیں دیاجس کی وجہ سے عوام نے اُن کی بولتی بندکر دی“۔

ایازصادق کی بولتی تو 11 اکتوبرکو پھرکھُل جائے گی اوروہ پارلیمنٹ میں اپنی نشست بھی سنبھال لیں گے لیکن شیخ صاحب کی ”بولتی“ صرف الیکٹرانک میڈیاتک ہی محدودرہے گی جسے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ذوالفقار مرزا ،الطاف حسین اورشیخ رشیدجیسے لوگوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔آخرمیں قوم کے سوچنے کے لیے یہ سوال کہ ”ہنگامہ ہے کیوں برپا “۔ کیایہ جنگ ملک وقوم کے مفادمیں لڑی جارہی ہے یامحض حصولِ اقتدارکی خاطر؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :