شہید پاکستان کی یاد میں

جمعرات 22 اکتوبر 2015

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

حکیم سعید 9 جنوری 1920ء برصغیر کے عظیم تہذیبی، علمی اور ثقافتی شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد صاحب حکیم عبدالمجید کا شمار متحدہ ہندوستان کے نامور حکیموں میں ہوتا تھا۔ اُن کے مطب پر برصغیر کے کونے کونے سے آنے والے مریضوں کاہجوم رہتا۔ حکیم محمد سعید انتہائی کمسنی کے عالم میں یتیم ہو گئے۔ اُن کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اُن کی والدہ محترمہ اور بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے اپنے ذمہ لی۔

حکیم عبدالحمید نے اُنہیں آمادہ کیا کہ وہ اپنے خاندان کی عظیم روایات کو آگے بڑھائیں اور طب کے شعبے میں خدمات انجام دینے کے لیے طب کی تعلیم حاصل کریں۔ اُن کا نقطہٴ نظر تھا کہ طب ہی اُن کی زندگی ہے لیکن حکیم سعید صاحب بچپن ہی سے لکھاری اور صحافی بننا چاہتے تھے۔

(جاری ہے)

ایک سعادت مند چھوٹے بھائی کی حیثیت سے انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے مشورے اور حکم کی تعمیل کی اور طب کی تعلیم انتہائی توجہ اور یکسوئی سے حاصل کی۔

والد محترم حکیم عبدالمجید کی وفات کے بعد دونوں بھائیوں نے ہمدرد دوا خانہ قائم کیا اور دیکھتی آنکھوں برصغیر کے طول و عرض میں ہمدرد دوا خانہ کی ادویات کی شہرت خوشبو کی طرح پھیل گئی۔ حکیم سعید دن کے اوقات میں ہمدرد دوا خانہ کے دوا سازی کے شعبوں میں کام کرتے اور سورج غروب ہوتے ہی شام کو وہ مطب میں مریضوں کو مشفقانہ اور ہمدردانہ توجہ سے علاج معالجے اور ادویات کی سہولیات فراہم کرتے۔

1940ء سے تادم آخر یعنی 17 اکتوبر 1998ء تک انہوں نے روزے کی حالت میں مطب میں بیٹھ کر مریضوں کے علاج معالجے کو اپنا شیوہ و شعار بنایا اور اپنی اس خاندانی روایت کو آگے بڑھایا۔غریب مریضوں سے ایک پیسہ لینا بھی وہ اپنے منصب کے منافی سمجھتے تھے۔
حکیم سعید نے 1940ء ہی میں مکتب کا آغاز کیا اور یہ حسن اتفاق ہے کہ اسی سال قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی۔

انہوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لینا اپنا ملی فریضہ جانا۔ انہوں نے 1940ء ہی میں فیصلہ کر لیا تھا کہ قیام پاکستان کی تحریک کے نتیجہ میں اگر انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا تو وہ مسلمانوں کے خوابوں کی سر زمین پاکستان کی جانب ہجرت کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں کریں گے۔ انہوں نے تب ہی سے یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی اس نئی مملکت میں جا کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے۔

9 جنوری 1948ء کو حکیم سعید والدہ اور بڑے بھائی کے روکنے کے باوجود پاکستان آ گئے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ انہوں نے زندگی بھر کبھی اپنی والدہ کے حکم سے رو گردانی نہیں کی تھی لیکن ملت کے ایک بڑے مقصد کے لیے انہوں نے والدہ کی منت سماجت کی اور اُنہیں آمادہ کر لیا کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ ان کا شمار دہلی کے کھاتے پیتے اور خوشحال گھرانے میں ہوتا تھا۔

ایک ایسا گھرانہ جہاں مال و دولت کی فراوانی تھی اور جائیداد کی بھی کمی نہ تھی لیکن جب وہ پاکستان آئے تو خالی ہاتھ آئے۔ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ اُن کی عقیدت اور محبت کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے اپنی جائیداد اور دولت کا تمام حصہ اپنے بھائی کی نذر کر دیا۔
کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز زیرو سے کیا۔ بظاہر ان کے پاس اتنے وسائل اور اسباب نہیں تھے کہ وہ مطب کے لیے کوئی جگہ خرید سکتے۔

اُن کے پاس تو دو وقت کی روٹی کھانے کے بھی پیسے نہ تھے۔ سخت آزمائش کے دن تھے۔ راوی بتاتے ہیں کہ وہ صبح اپنے گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں سوچاکرتے کہ کیا کروں۔ آخرکار دنشاصاحب کے ذریعے اُنہیں 10*10کا ایک کمرہ مل گیا۔ اس چھوٹے سے کمرے ہی کو انہوں نے اپنا دفتر بنا لیا۔محنت شروع کر دی۔ شبانہ روز محبت کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1953ء میں ان کی مالی آسودگی کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے ہمدرد کو ایک وقف ادارہ بنا دیا۔

وہ اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرتے۔ وہ ایک انتھک شخصیت تھے۔ وہ خود کو بھی ایک کارکن تصور کرتے اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو بھی کارکن کی حیثیت سے ہی جانتے تھے۔ وہ اپنے کارکن ساتھیوں سے مثالی محبت کرتے۔ وہ ان کے ذاتی مسائل پربھی نگاہ رکھتے، خاموشی سے مشکل اوقات میں اُن کی اس خاموشی سے وہ اُن کی مدد کرتے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوتی۔

انہوں نے اپنے ادارے کے بہت سے کارکنوں کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ اُن کی خواہش ہوتی کہ اُن کے کارکن اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور اُن کی قابلیت میں اضافہ کریں۔
اپنے پیشے کے ساتھ اُن کے اخلاص کا عالم یہ تھا کہ جب وہ مطب میں تشریف فرما ہوتے تو وہ کسی سے ملتے اور نہ ہی کسی تقریب میں جانا قبول کرتے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جب وہ گورنر بنے تو اس دوران بھی وہ باقاعدگی سے مطب کرتے رہے۔

وہ شاید پہلے معالج تھے کہ جو مریض اُن کے پاس علاج کے لیے آتا وہ اس کا مکمل پتہ لکھ لیتے۔ زیادہ بیمار مریضوں میں سے اگر کوئی دو ماہ تک مطب نہ آتا تو مردِ درویش اس کے گھر جا کر اُس کی خیریت طلب کرتا۔اللہ نے اُنہیں مالی اور معاشی طور پر بہت عروج دیا لیکن ایک وضع دار خاندانی خوشحال شخصیت کی حیثیت سے اُن میں کبھی عہدے، منصب، شہرت اور دولت کی وجہ سے غرور پیدا نہیں ہوا۔

وہ رعونت نامی شے سے آگاہ ہی نہ تھے۔ وہ ہمیشہ غریبوں کا خیال رکھتے۔ ایک تواتر سے وہ اورنگی اور کورنگی تک اپنے مریضوں کی تیمار داری اور علاج معالجہ کے لیے پہنچ جاتے۔ ان کے ساتھی کارکن اگر کسی تقریب کا انعقاد کرتے تو وہ خوش دلی سے اس میں شریک ہوتے اور اُن کے ساتھ فرش پر بچھی چٹائی پر خوش دلی کے ساتھ بیٹھ جاتے اور ان کا حال چال پوچھتے۔

وہ سوال کرنے سے قبل ہی چہرہ پڑھ کر بھانپ لیتے کہ کس شخص کو مدد کی ضرورت ہے۔ سوال ہونٹوں پر آنے سے قبل ہی وہ اس کی اعانت کر دیتے۔
پاکستان آنے کے بعد پہلے دن ہی سے ان کا نصب العین یہی تھا کہ وہ پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی مسلم طاقت بنا دینا چاہتے تھے۔ تمام تر سماجی، ادارہ جاتی مصروفیات کے باوجود کتاب سے ان کا تعلق اٹوٹ تھا۔ان کا نقطہٴ نظر تھا ’جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، جس درس گاہ میں کتابیں نہ ہوں وہ ایسی درسگاہ کی مانند ہے جس میں طلباء نہ، جس شہر میں کتب خانے نہ ہوں وہ ایک شہر ویراں ہیں اور جس کتب خانے میں لوگوں کو کتابوں سے عشق و محبت نہ ہو وہ قطب خانہ علم کی بس ایک نمائش گاہ ہے، یہ نمائش گاہ لگی بھی رہ سکتی ہے اور زمانے کے ہاتھوں سے تباہ بھی ہو سکتی ہے‘۔

شہید حکیم محمد سعید کی تحریر کردہ تصنیفات اور تالیفات کی تعداد 273ہے۔ ان میں 209اردو زبان میں اور 64 انگریزی زبان میں ہیں۔
17 اکتوبر 1998ء کو جب حکیم میں سعید کراچی میں آرام باغ کے اپنے مطب میں گئے اور مریضوں کو دیکھنا شروع کیا تو اچانک نقاب پوش قاتلوں نے اُنہیں گولیوں کا نشانہ بنا کر پاکستان کو اس کے ایک عظیم مسیحا اور ہمدردِ عوام شخصیت سے محروم کرد یا۔

حکیم سعید پاکستان کی شناخت، وقار اور افتخار تھے۔ وہ ایک شخصیت نہیں اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ اُن کی شخصیت میں بیک وقت کئی ایسی خوبیاں تھیں کہ وہ شہید نہ بھی ہوتے تو اپنی ان خوبیوں کی بدولت امر ہوتے۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے مسیحاوٴں ہی کو قتل کر دیتے ہیں۔ حکیم سعید کو شہید ہوئے 17 سال بیت چکے ہیں لیکن وہ آج بھی ہر پاکستانی کے ذہن اور دل میں خیال کی اڑان اور خون کی گردش بن کر زندہ ہیں۔ بلا شبہ وہ شہید پاکستان ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :