وزیراعظم کا دورہِ امریکہ ،منظر پیش منظر !!

پیر 26 اکتوبر 2015

Younas Majaz

یونس مجاز

صاحبو !وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ د ورہ ِ امریکہ کے دوران امریکیوں کے رویہ میں جو تبدیلی دکھائی دی وہ بے سبب نہیں تھی اپنے مفادات کے لئے پینترے بدلنا ان کی پرانی عادت ہے یہ مدِ مقابل ملک کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ ان کے اس گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی صورت حال سے کتنا فائدہ اٹھاتی ہے سو وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم نے بھی اپنی بساط کے مطابق اس دورہ کو اپنے حق میں کامیاب بنانے کی سعی کی ہے جس کی وہ تیاری کر کے گئے تھے ان کے دورہ سے قبل ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان کے دورہ امریکہ نے بھی اس دورہ پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو اپنے دورہ ِ امریکہ میں ایک دن کی تاخیر کرنا پڑی تاکہ جنرل رضوان سے بریفنگ لے لی جائے کیوں کہ اس پار سے آنے والے اخباری بیانات سے یہ تائثر مل رہا تھا کہ امریکی قیادت پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام محدود کرنے کے معائدے پر مجبور کر سکتی ہے اس قسم کے دیگر خدشات کے تناظر میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو بعض حلقوں کی جانب سے دورہِ امریکہ ملتوی کرنے کا مشورہ بھی دیا جانے لگا تھا اور مشیر وزیر اعظم برائے خار جہ امور سر تاج عزیز نے میڈیا کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بھی واضح کیا کہ امریکہ خطے میں عدم توازن نہ بڑھائے جو اس کی سالمیت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے امریکہ سے مذاکرات میں قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا بھارت کی پا کستان میں مداخلت کے ثبوت امریکہ کو دیں گے دفاعی شعبہ میں برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں پاکستان کا جوہری نظام محفوظ ہاتھوں میں ہے نیو کلیئر سپلائیر گروپ کی رکنیت کے اہل ہیں خطے میں توازن نہیں بگڑے گا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار بننے کو تیار ہیں سو ان ہی حساس معاملات پر وضاحت کے لئے مشیر برائے خارجہ امور سر تاج عزیز اور سیکر ٹری خارجہ اعزاز احمد چوہد ری ہفتے کی شام واشنگٹن پہنچے اور امریکی حکام سے حساس معاملات پر مذاکرات کئے جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر پہلے ہی امریکی دارالحکومت میں موجود تھے اور اہم امور پر امریکی حکام سے بات جاری رکھے ہوئے تھے معاملات طے ہونے کے بعد جنرل رضوان وطن واپس آئے اور وزیر اعظم کو مثبت اشارے دئیے جس کے بعد میاں نواز شریف امریکہ کے لئے روانہ ہوگئے جس کی جھلک امریکہ میں وزیر اعظم پاکستان کے ریڈ کارپٹ استقبال میں بھی نظر آئی نو عیت اور ایجنڈے کی اس تبدیلی کا سبب پاکستان کے چین اور روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے دفاعی اور اسٹریٹیجک تعلقات کو بھی گردانا جا سکتا ہے لیکن فوری وجہ افغا نستان ہی ہے جہاں طالبان کے قندوز پر عارضی قبضے اور دیگر علاقوں میں ان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں نے جو صورت حال پیدا کی اس نے بھارت سے پینگے بڑھاتے امریکہ کو مجبور کر دیا ہے کہ ایک بار پھر پاکستان سے رجو ع کرے جسے نظر انداز کر کے لاتعلقی کی سطح پر لا کھڑا کیا گیا تھا چو نکہ صدر او باما اپنے آٹھ سالہ دور حکومت کے آخری سال میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں اور داعش کی سر گرمیوں کی وجہ سے سخت دباوٴ میں ہیں انھوں نے 2014میں افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے 2016تک تمام امریکی فوجیوں کی واپسی کا جو اعلان کیا تھا وہ 2015 کے آخر میں ناکام ہو تا دکھائی دیتا ہے افغانستان میں موجود 8900فوجیوں کی واپسی ملتوی کر دی ہے بدلتے ہوئے اس تناظر میں امریکہ نے ایک اور احسان عظیم بھی کیا کہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہِ امریکہ کے موقع پر خیر مقدم کے لئے امریکی ایوان نمائندگان میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں اوباما حکومت سے کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں (وہ د ہشت گردی جس کی آگ جلا کر مالا پاکستان کے گلے میں ڈال کر امریکہ افغانستان سے خود بھاگ گیا )پاکستان سے تعاون جاری رکھے سینئیر قانون ساز رکن شیلا جیکسن لی کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد ایون کی خارجہ کمیٹی کو بھجوا دی گئی تھی میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان جاری تعاون کی بھر پور حمایت کی گئی اور وزیر اعظم پاکستان کو ٹلے پر چڑھانے اور ان کے غبارے میں مزید ہوا بھرنے کے لئے یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف پاکستان کے جمہوری منتخب رہنما ہیں جو پاکستانی تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت کی مدت کی تکمیل میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں (جب کہ یہ بات امریکہ کو میاں صاحب کے 2013میں دورہِ امریکہ کے دوران یاد نہیں رہی تھی)قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اور اس کے عوام القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے حملوں کا شکار ہیں اور اب تک 50ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں پاکستان افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب فوجی کاروایوں میں مصروف ہے اور اس نے جانی و مالی نقصانات برداشت کئے ہیں ۔

(جاری ہے)

نواز شریف ملک میں دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے قومی لائحہ عمل پر کام کر رہے ہیں تا کہ تمام پاکستانیوں کے ملک کو محفوظ بنا یا جا سکے جن میں مذہبی اور لسانی اقلیتیں بھی شامل ہیں امریکہ نے پاکستان کو پچھلے عشرے میں سیکورٹی اور اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے بڑی امداد دی ہے اور ہم پاکستان کے عوام سے دہشتگردی کے خلاف جدوجہد پر اظہار یکجہتی کرتے ہیں ،پاکستان میں جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کی حمایت کرتے ہیں ۔


صاحبو ! قبل از ملاقات اٹھائے جانے والے مندرجہ بالا اقدامات سے واضح ہو چلا تھا کہ اوباما نواز شریف ملاقات کا ماحول کیسا ہو گا اور پھر مشترکہ اعلامیہ میں بھی یہ بات واضح ہو گئی کہ دونوں طرف سے اپنے مفادات کی پوٹلی کھولی گئی لیکن بنیادی نکتہ افغانستان میں سیکورٹی کے بڑھتے ہوئے امریکی خدشات تھے جس کے لئے ایک بار پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی ہے جس پر پاکستان نے اپنا موقف بہتر انداز سے پیش کرتے ہوئے بجا کہا ہے ہم طالبان کے خلاف کا روائی اور مذاکرات ایک وقت میں نہیں کر سکتے افغان حکومت چاہے تو پاکستان مذاکرات کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کر سکتا ہے بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان نے امریکی تھینک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے ملا عمر کی موت کی خبر کو ایسے موقع پر افغان انٹی لیجنس کی طرف سے بریک کیوں کیا گیا جب مذاکرات میں صرف چند دن باقی تھے حالانکہ کہ ملا عمر کو فوت ہوئے دوسال گزر چکے تھے سو مذاکرات ثبوتاژ ہوگئے امریکہ پاکستان کی طرف سے ملک میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے دئیے گئے ثبوت پی گیا امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کر بی نے ان ثبوتوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے دونوں ملکوں پر زور دیا کہ وہ بات چیت کے ذریعے اپنے تنازعات طے کریں امریکہ نے مسئلہ کشمیر پر مصالحت سے تو انکار کیا ہے لیکن اسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے سے اتفاق کر کے پاکستان کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین یہ معاملہ تصفیہ طلب ہے لیکن بھارت پر کسی قسم کا دباوٴ نہ بڑھانے کی پالیسی پر امریکہ قائم رہا جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ امریکہ افغانستان کے تناظر میں پاکستان کو ساتھ رکھنا چاہتا ہے جبکہ انڈیا کو وہ بطور پارٹنر ساتھ لے کر چل رہا ہے امریکہ نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے نظام پر مکمل اطمینان کا اظہار تو کیا لیکن یروشلم پوسٹ کے مطابق صدر اوباما نے تاکید کی کہ پاکستان نیو کلیئر ہتھیاروں کے پروگرام میں ایسی پیشرفت سے گریز کرے جس سے خطرات اور عدم استحکام بڑھنے کا اندیشہ ہو نیویارک ٹا ئمز کے مطابق واشنگٹن کو اس بات پر تشویش ہے کہ پاک بھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی کے موقع پر پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کا نیا نظام تیار کر رہا ہے جن میں چھوٹے ٹیکنیکل ہتھیار بھی شامل ہیں جب کہ اس بات کا برملا اظہار پاکستان پہلے ہی کر چکاہے کیونکہ بھارتی جنگی عزائم اب ڈھکی چھپی بات نہیں روائتی جنگ پاکستان کے حق میں نہیں سو اپنے دفاع کے لئے ہر ممکن اقدامات پاکستان کاحق ہے حسبِ روائت امریکہ نے پاکستان کی توانائی ضروریات پوری کرنے میں مدد دینے کی یقین دھانی کروائی ہے کولیشن فنڈز کی رکی رقم دینے اور آٹھ ایف 16 پاکستان کو دینے کی حامی بھر لی ہے جو پہلے سے اعلان شدہ تھے جب کہ بھارت کو سو سے زائد جنگی طیارے دیئے جارہے ہیں جبکہ صدر اوباما نے آپریشن ضربِ عضب اور دیگر آپریشنز میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ان آپریشنز سے دہشت گردوں کے حملے کرنے کے لئے منظم منصوبہ بندی کی صلاحیت میں کمی آئی ہے اور امید ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تحت مزید اقدامات کئے جائیں گے جبکہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کی طرف سے امریکی ٹروپس کو ٹارگٹ کرنے سے روکنے کی حامی بھرنے کے ساتھ ساتھ لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کے خلاف کاروائی کا عندیہ بھی دیا ہے جو کہ بھارت کی بھی ڈیمانڈ تھی مجموعی طور پر یہ دورہ پاکستان کے لئے کچھ زیادہ کامیابی کا باعث نہیں مگر ناکام بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بات طے ہے امریکہ کو جب بھی حالات سازگار ملے وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ثبو تاژ کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے اس معاملہ میں امریکہ اور اس کے حواریوں سے ہوشیار رہنے کے ساتھ ساتھ روس اور چین کے ساتھ روابط کو مزید مضبوط کیا جائے اور اندرونی اختلافات کو کم سے کم سطح پر رکھ کر ملکی مفادات کے تحفظ کے لئے قومی یکجہتی کو فروغ دیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :