ہولناک زلزلہ یاآخری مہلت

جمعہ 30 اکتوبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اللہ کا عذاب واقعی بہت سخت حد سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ملکی تاریخ کے شدید ترین زلزلے سے لاہور سے گلگت اور چترال سے بالاکوٹ تک پورا ملک ایک بار پھر لرز اٹھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زمیں ایک لمحے میں کبھی اس طرح بھی بے قابو ہو جائے گی۔ میں ایبٹ آبادکمپلیکس سے نکل کراپنے ایک دوست سردار ناہید کے ساتھ گھر جارہا تھا ابھی ہم شاہراہ ریشم پر ہی تھے کہ ہمارے پاؤں کے نیچے زمین اچانک تھرتھرانے لگی۔

یوں محسوس ہورہا تھا کہ ہم کہیں دریائی پانی کی تیز لہروں اور موجوں سے ٹکرا رہے ہیں۔ میں نے زندگی میں دوسری بار انسانوں کی بنائی گئی بلندو بالا اور دلفریب عمارتوں، پلازوں اور بلڈنگوں کوجھولے کھاتے اور موت کو اپنے سامنے دیکھا۔ زمین کی مسلسل تھرتھراہٹ اور جھولائی منظر دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ چند لمحوں میں اب سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

میری چاروں طرف حد نگاہ لوگوں کا ہجوم اور ہر سمت چیخ و پکار تھی۔ خوف و ہراس سے کانپتے لوگ باآواز بلند کلمہ طیبہ اور استغفار کا ورد کرتے رہے۔ نفسا نفسی کا عالم اور قیامت کا رونگٹھے کھڑے کرنے والا ایک انتہائی خوفناک منظر تھا۔ وہ انسان جو اللہ سے بغاوت اور سرکشی میں تمام حدیں کراس کرتے ہیں ۔وہ انسان جو اپنے بداعمال، افعال اور کردار کے ذریعے ہر روز اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔

آج وہ زلزلے کے ان شدید جھٹکوں کے سامنے بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ کسی انسان میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے جسم کو جھولنے سے بچائیں یا ایک قدم آگے بڑھائیں۔ میں نے اس وقت بڑے بڑے رےئسوں، خانوں اور نوابوں کو سکتے سے لرزتے دیکھا۔ وہ خان اور نواب جو زمین پر قدم رکھنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنی لاکھوں اور کروڑوں کی قیمتی گاڑیاں شاہراہ ریشم پر کھڑی کرکے کھلے آسمان تلے خوف سے کانپ رہے تھے۔

کیا ہولناک منظر تھا وہ۔ انسان واقعی بہت بڑا سرکش ہے مگر حد سے زیادہ کمزور بھی۔ وہ رحیم و کریم رب جس نے انسان کو پیدا کیا، یہی انسان اس غفور و رحیم رب سے بغاوت اور سرکشی میں بسا نہیں بلکہ اکثر اوقات حد سے بھی گزر جاتا ہے۔ طاقت کے نشے میں مدہوش اور جوانی کی طاقت میں مست انسان تو یہ سمجھتا ہے کہ جو ہے وہ ہے لیکن جب ایک ٹھوکر لگتی ہے یا زلزلے کا ایک جھٹکا آتا ہے تو پھر انسان کی اصلیت کھل کر اس کے سامنے آجاتی ہے۔

انسان کمزور حد سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ اس کے گرنے ،پہاڑیامٹی کے تودے اور گاڑی تلے دبنے یاپھر ڈوبنے اور مرنے میں ایک سیکنڈ کا ٹائم بھی نہیں لگتا۔ انسان چاہے خود کو دنیا کا حکمران، بہت بڑا باڈی بلڈر، ماہر ڈاکٹر، نمبر ون انجینئر، کھلاڑی، ٹیچر، بینکر، سرمایہ کار، وکیل، جج، سیاستدان اور کمال کا حکیم سمجھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کچھ بھی نہیں کیونکہ یہی انسان اپنی زندگی کو بھی نہیں بچا سکتا ۔

جو انسان خود کو نہ بچا سکے اس کی طاقت اور حکمرانی پھر کیسی۔۔؟ زلزلے، طوفان اور سیلاب یہ اللہ کی طرف سے ان سرکش انسانوں کیلئے وارننگ ہے، اللہ تعالیٰ جو اپنے ایک بندے سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ اپنے ان بندوں کو بار بار تنبیہ کررہا ہے کہ اے میرے بندوں راہ راست پر آجاؤ۔۔ مگر افسوس کہ انسان جو سرکشی اور بغاوت میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوا ہے۔

بار بار تنبیہ، آزمائش اور امتحانوں کے بعد بھی راہ راست پر آنے کو تیار نہیں۔ دنیا کی حرص، مال و دولت کی فکر اور طاقت کے نشے نے آج انسان کو اپنے پیارے رب سے بہت دور کرکے کمزور سے کمزور تر کر دیا ہے۔ آزمائشوں اور امتحانوں میں تووہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس آخرت کیلئے کوئی ذخیرہ ہو۔ ہم نے تو دنیا کمانے کے سوا کبھی کسی اور طرف توجہ ہی نہیں دی۔

ہمارے پاس گناہوں کے بنڈلز، جرائم کی الماریاں، حرام کی دولت، ظلم کے کارخانے اور اللہ کی سرکشی کے سوا آج ہے کیا۔۔؟ بقول شاعر۔عمربھرہم یہی گھول کرتے رہے۔۔۔دھول چہرے پرتھی اورہم آئینہ صاف کرتے رہے۔۔ہم نے اپنی زندگیاں اور توانائیاں سودی کاروبار، غریبوں کی حق تلفی، فحاشی و عریانی کے فروغ، جائز و ناجائز طریقے سے مال کمانے اور حرام کے پیسوں پر اپنے بچوں کو بڑے سیاستدان، کامیاب ڈاکٹر، انجینئرز، وکیل، کھلاڑی اور ٹیچر بنانے کیلئے صرف کیں۔

آج ہمارے پاس اللہ کی عدالت میں پیش کرنے کیلئے گناہوں کے انبار کے سوا کچھ نہیں۔ اکتوبر 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد تو ہم سیدھے نہیں ہوئے نہ ہی راہ راست پر آئے۔ لیکن 26 اکتوبر 2015ء کے ہولناک اور خوفناک زلزلے سے اب ہماری آنکھیں کھلنی چاہیں۔ اس بار بھی ہمیں مہلت مل گئی۔ معلوم نہیں اگلی بار ہمارا کیا انجام ہوگا۔۔؟ موت اور تباہی کے وقت کا کوئی پتہ نہیں۔

اس سے پہلے کہ ایک اور 8 اکتوبر یا 26 اکتوبر آئے اور ہمارے یہ عالی شان گھر، دفاتر، فیکٹریاں، کارخانے، پلازے اور دکانیں ملبے کا ڈھیر اور ہم اس میں لاشیں بن جائیں۔ ہمیں ابھی سے سرکشی کی چادر اتار کر راہ راست پر آجانا چاہیے۔ ہمارے پاس وقت کم اور منزل آگے طویل ہے۔ اب بھی اگر ہم سنبھل نہ سکے تو پھر ہمارے پاس ہاتھ ملنے اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

اس لئے آئیے سب مل کر اپنی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالیں اور سچے دل سے توبہ کریں کہ آئندہ ہم کوئی ایسا کام کرنا تو دور کسی ایسے گناہ کے قریب بھی نہیں جائیں گے جس سے ہمارے اللہ اور پیارے رسول نے ہمیں منع کیا ہے۔ پیارے قارئین خدارا صرف ایک منٹ کیلئے سوچیں کہ 26 اکتوبر کے بعد بھی اگر ہم نہ بدلے تو پھر کیا اس وقت ہم بدلیں گے جب دوبارہ زمین بے قابو اور یہ بلندو بالا عمارتیں ہچکولے کھانے لگیں گی۔

ہم بے بس تھے بے بس ہیں اور بے بس رہیں گے۔ اس سے پہلے کہ دوبارہ ہمارے گناہوں سے یہ زمین لرز اٹھے۔ ہمیں 26 اکتوبر کے جھٹکوں سے خود کانپناچاہیے ۔اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمائے اور ہمیں ہر قسم کی آفات و بلیات سے بچائے، آمین ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :