ان کاہی کام ہے جن کے حوصلے ہیں بلند!

اتوار 1 نومبر 2015

Sajid Khan

ساجد خان

بھارتی وزیراعظم نے پاکستان میں زلزلے کے بعد امداد کی پیشکش کی اور سرکار پاکستان نے فوری ردعمل کے طور پر شکریہ ادا کیا اور بادرکرایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔انہی ایام میں ایدھی فاؤنڈیشن کے لوگ بھارت میں موجود تھے جوایک بھارتی لڑکی کوواپس اس کے خاندان کے حوالے کرنے گئے ہوئے تھے۔وہ بچی بہت عرصے سے پاکستان میں تھی۔وہ بولنے اور سننے سے معذور ہے۔

ایدھی کا ادارہ لاوارث بچوں کوپناہ دینے والا ملک کاایک بہت بڑا ادارہ ہے۔اس کی خدمات کادائرہ تمام دنیا میں ہے۔ایدھی کے لوگوں نے ابتداء میں کافی کوشش کی مگر بھارت کی حکومت نے اس بچی کے سلسلے میں کوئی خاص مددنہ کی۔پھر جب میڈیا پر تذکرہ شروع ہوا توبھارتی اداروں نے توجہ کی اوربھارتی سفارتی ذرائع نے رابطہ شروع کیا اور جب ان کویقین ہوگیا کہ وہ بچی بھارتی ہے تو بھارتی ہائی کمیشن نے ایدھی صاحب سے رابطہ کیا اور بچی کوواپس بھارت لے جانے پر رضا مندی ظاہر کی۔

(جاری ہے)

اس معاملہ پر حکومت پاکستان کوکوئی اعتراض نہ تھا۔بھارت میں ایدھی والوں کابچی کی وجہ سے خوب سواگت ہوا۔پھر بھارتی وزیراعظم نے ایدھی ٹرسٹ کوایک کروڑبھارتی روپے دینے کاعندیہ دیا۔بھارتی اشرافیہ اور سیاسی لوگوں کاخیال تھا کہ ان کی پیشکش سے پاکستان پر احسان اور ایدھی ٹرسٹ کی امداد سے دنیا بھرمیں بھارتی چہرہ باوقار ہوگا۔حکومت پاکستان اس معاملہ سے لاتعلق سی رہی۔

وزیراعظم امریکی دورہ پر تھے ہم اس دورے کوکامیاب تو نہیں کہہ سکتے مگر ایک اچھا دورہ ضرور تھا۔ویسے بھی مسلم لیگ نواز حکومت ہویازرداری صاحب یاماضی کی سرکاروہ فلاح وبہبود کے معاملات سے دورہی رہتے ہیں۔وہ انفرادی خدمت اور خدمات کے قائل ہیں۔وہ سب عوام کودینا نہیں صرف لینا جانتے ہیں۔
ایک کروڑ بھارتی روپے کی امداد کوایدھی ٹرسٹ نے جس وقار سے ٹھکرایاوہ قابل تعریف نہیں حکومت پاکستان کے وقار کاباعث بھی ہے۔

ایدھی ٹرسٹ نے بھارتی حکومت اور وزیراعظم کاشکریہ اداکیا اور ان سے درخواست کی کہ یہ امدادی رقم وہ بھارت میں معذور لوگوں کی امداد کرنے والے اداروں کودیں تاکہ بھارت کی لاچار اور مجبور جنتا کی مدد ہوسکے۔بھارتی حکومت کاچہرہ وہاں کی قابض سیاسی جماعت کی سرگرمیوں کی وجہ سے بے وقار ہورہاہے۔بھارتی جمہوریت کودنیا کی بڑی جمہوریت کانام دیاجاتا ہے مگرحالیہ ایام میں اور خصوصی طور پروزیراعظم مودی کے آنے کے بعد جس طریقے سے اقلیتوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے بھارتی اشرافیہ کی مذہبی جنونیت انتہا پرہے۔

سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کاادارہ ان باتوں کونوٹس نہیں لے رہا اور جمہوریت کے دعویدارممالک جن کے سرخیل برطانیہ اور امریکہ ہیں وہ بھارتی سرکار کے رویہ پر توجہ دینے کوتیار نہیں۔اب دنیا بھر میں بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں نظریات عالمی معیشت کے تناظر میں بدلتے جارہے ہیں،ایسے میں بھارتی وزیراعظم کے دورے بھی معیشت کی ترقی کے تناظر میں اور چین کے ساتھ مقابلہ کے لئے بہت کامیاب سمجھے جارہے ہیں،مگربھارت کے اندر سوشل میڈیا اب خاصا سرگرم عمل ہورہاہے۔

اس پربھارتی اشرافیہ اورسیاستدانوں کاکنٹرول نہیں ہے۔اس معاملے میں بھارتی ادیب سب سے زیادہ فعال نظرآرہے ہیں اور وہ اپنا کردار بہت خوبی سے ادا کررہے ہیں اور بھارتی وزیراعظم کواحساس دلارہے ہیں کہ ان کے قوم وفعل کے تضادنے بھارتی جمہوریت کاچہرہ اغدار کردیاہے۔
پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی اشرافیہ کی وجہ سے ایدھی جیسے لوگ بھی انتخابات کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔

اس وقت ملک بھر میں زلزلے کی وجہ سے عوام میں بے چینی ہے مگر سرکار اپنی روش بدلنے کوتیار نہیں۔سینٹ کے چیئرمین کوجمہوریت کامستقبل توخطرہ میں نظر آتا ہے مگر وہ انتظامی اور کرپشن کے بارے میں زبان بندہی رکھتے ہیں ان کو فکر ہے کہ تویہ کہ سینیٹر حضرات کیفے ٹیریا کامعیار کیاہے۔ان کوعوام کے معیارزندگی کاخیال نہیں۔ان کوقومی اداروں کے کردار کی بہت فکرسی رہتی ہے مگر ان کے سینیٹر حضرات کی جوسرگرمیاں ہیں اور سینٹ کے زیر انتظام جوکمیٹیاں کام کررہی ہیں ان پر نظر نہیں اور ایسا ہی کچھ معاملہ قومی اسمبلی کاہے۔

حزب اختلاف کے لیڈرخورشید شاہ جمہوریت کے غم میں پریشان رہتے ہیں مگر دوسری طرف وہ اسمبلی سے کوئی ایسا قانون نہیں بنواسکے جس سے کرپٹ لوگوں پر گرفت ہوسکے۔ملکی ادارے حسب روایت اتنی سست روی سے کام کرتے ہیں کہ کچھ کرنے سے کچھ نہ کرنا بہترلگتا ہے۔نیب کے کردار کے بارے میں ان کے سدابہارلیڈر آصف زرداری نے جوبیان دیا ہے اس پر نواز حکومت کاکوئی ردعمل نہیں آیا۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زرداری صاحب کے ساتھ میاں نواز شریف کی مروت اور دوستی جمہوریت کارن ہے اور ایسی جمہوریت جس کودیکھنے سے عوام کاایمان خطرہ میں رہتا ہے۔
ایدھی جیسے لوگ اس جمہوریت سے تنگ آکر گرم موسموں میں لوکی دعا کرتے نظر آتے ہیں۔آج تک کسی سیاستدان نے اشرافیہ یااعلیٰ نوکر شاہی نے شایدہی ایدھی جیسے لوگ بھی خدمت خلق کررہے ہیں مگر ان کاقول وکردار کتنامشکوک ہے اس پر کسی کی نظر نہیں۔

اس بار کے زلزلے کے بعد حکومت کوموقع ملا تو ہے کہ وہ روایتی روش بدل کرعوام کے لئے کچھ کرنے کاسوچیں مگر ان کوسب سے زیادہ مخالفت اپنے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈارسے ملے گی۔وہ عوامی مفاد کو آئی ایم ایف (IMF) کے مفادات سے کم تر خیال کرتے ہیں۔ویسے بھی ان پرقرض لینے کاجنون رہتا ہے۔وہ آج کے دور میں بھر قرض کی معیشت کوبہتر خیال کرتے ہیں،ان کے اپنے اثاثے تو ملک سے باہر ہیں مگر ملک کے اثاثوں میں قرض کااضافہ ان کی نئی روایت ہے جوکہ ملک کے لئے خطرناک ہے۔

ایدھی نے بھارتی مودی سرکارکو ایسامشورہ دیا ہے جوبھارتی عوام کے مفاد میں ہے۔بھارتی عوام کے اندر بھی بھارتی سرکار اور سیاستدانوں کے خلاف نظر آرہا ہے۔ان کے ادیب اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔عوام کی جانب سے محبت اورالفت کااظہار بھارتی جمہوریت کے کردار کے منافی توضرور ہے مگر حقیقت حال یہ ہے کہ جمہوریت لوگوں کومحروم عقل تو کردیتی ہے مگر عوام کے خواب نہیں ختم کرسکتی سوترقی اور آزادی خیال کے خواب نہیں ختم کرسکتی،سوترقی اور آزادی خیال کے خواب دیکھنے بہت ضروری ہیں،اگر آپ کی آنکھوں میں ایسے خیال اور خوب ہوں گے۔

توسب ایدھی کاساتھ دیں سکیں گے اور جیسا کہ ایدھی ٹرسٹ کی جانب سے کہا گیاوہ کبھی بھی امداد کے لئے حکومتوں سے رجوع نہیں کرتے اور نہ ہی حکومتوں کی امداد قبول کرتے ہیں۔پاکستان توامداد کی وجہ سے بدانتظامی کامریض بناہواہے اگر امدادی پروگرام ختم کرکے اپنی چادر اور چاردیواری کے اند اپنے وسائل سے گزارہ کاسوچا جائے تو کیا ممکن نہیں ہے مگر جمہوریت کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے وسایل میں گزارہ نہیں کرسکتے ۔

اپنے وسائل میں گزارے کے لئے جمہوریت ضروری نہیں،صرف قانون پر عمل اوراصول کومدنظر رکھنا ہوگا۔
حالیہ زلزلے نے پورے ملک کوہلا کررکھ دیا ہے مگر ملکی نظام میں جوزلزلہ آیاہوا ہے اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔اس وقت پورے ملک میں تقریباََ بنیادی سطح پرمقامی انتخابات ہورہے ہیں۔ان انتخابات پر جس طریقے سے رقم خرچ کی جارہی ہیں وہ الیکشن کمیشن کے لئے لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ قانون کی خلاف ورزی ہے جس پرتوجہ دینا ضروری ہے،پھر ان انتخابات کافائدہ کیا ہے ۔

ان لوگوں کے اختیارات پر نوکر شاہی اوع اسمبلیوں میں بیٹھی اشرافیہ قابض ہے۔ایسے میں تبدیلی اور انقلاب کی توقع اور امید بالکل فضول ہے،پھر ملک بھر میں احتساب کاجو شور ہے وہ صرف سندھ کے اندرہی نظر آرہاہے اور اس کواب دوسرے صوبوں کارخ کرنا چاہئے تاکہ عوام کویقین آسکے۔کہ احتساب کرنے والے اپنے کام میں سنجیدہ ہیں۔احتساب کادائرہ کارصرف الزام لگانے تک نہیں ہونا چاہئے بلکہ سزادینے کاسلسلہ ہی احتساب کی حقیقت واضح کرسکتا ہے۔احتساب کادوسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ ملک ایدھی کودے دیا جائے تاکہ عوام کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک محفوظ بھی نظر آئے۔ایدھی ٹرسٹ سے کم ازکم پاکستان کی پہچان توہورہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :