بلدیاتی انتخابات کا پہلامرحلہ

جمعرات 5 نومبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پنجاب کے بارہ اورسندھ میں بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ بخیر انجام پاگیا،آمدہ اطلاعات کے مطابق مجموعی طورپر پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلزپارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرلی ہے لیکن غور کیاجائے تو پنجاب میں مسلم لیگ سے زیادہ آزاد امیدواران کی اکثریت سامنے آچکی ہے۔ اگر اس سے بھی زیادہ گہرائی جانے کا اتفاق ہو تو یوں کہاجاسکتاہے کہ مسلم لیگ کی چھتری تلے پناہ لینے والے وڈیروں، جاگیرداروں ،روایتی سیاسی رہنماؤں کی پشت پناہی کی بدولت قسما قسم کے نئے امیدواران کامیابی کا تمغہ سینے پر سجائے ”بارگاہ شریفاں“ میں پیش ہونے کوتیار نظرآتے ہیں۔

یوں بھی ایک واضح نقطہ نظر موجود ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہوتے ہی وہی شفاف ہیں جن میں دھاندلی نہیں دھاندلہ ہو، اس اعتبار سے موجودہ انتخابات کو سب سے شفاف انتخابات گردانا جاسکتا ہے رہی سہی کسر بلدیاتی انتظامی معاملات نے پوری کرکے رکھ دی، اپوزیشن شاکی رہتی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان مسلم لیگ کا تابع ہے ،رہی کسر یوں پوری ہوگئی کہ پہلی بارعدلیہ کی بجائے انتظامیہ کی زیرنگرانی انتخابی عمل مکمل ہوا ، ظاہر ہے کہ صوبائی حکومت کی ملازم انتظامیہ کیسے نتائج دینے کی پابند تھی؟ اس کا ادراک یقینا سبھی کوہوگا۔

(جاری ہے)

پھر بھی دوسری جماعتوں کومطعون کیاجارہاہے کہ تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی اوردوسری جماعتوں کاوجود تک نظر نہیں آتا۔ ہم جس ضلع سے تعلق رکھتے ہیں وہاں سے ہارنے والے تین اہم ترین امیدواروں کا تعلق مسلم لیگی ایم پی اے کے خاندان سے تھا لیکن کئی بار گنتی کے بعد ان تینوں امیدواروں کوسرکا ر کے کاغذوں میں کامیاب قرار دیدیاگیا۔ پتہ چلا کہ یہ سب ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کی مہربانی ہے۔

عدلیہ کی زیرنگرانی ہونیوالے انتخابات میں ایسے شواہدکم کم ہی سامنے آیاکرتے تھے۔دوسری بات یہ کہ مسلم لیگ ن کے پسندیدہ ریٹرننگ افسران، پولنگ عملہ کی تعیناتی بھی زیربحث رہی، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پولنگ کے بعد گنتی کا مرحلہ جب شروع ہوتا ہے تو اس وقت سورج ڈھل چکا ہوتا ہے اور اندھیروں کاراج شروع ہوجاتا ہے، ایسے میں پھر اندھیروں نے جس طرح سے جنم لینا ہے وہ بھی سب پر عیاں ہے۔


صاحبو!بعض حوالوں سے کہاجارہاہے کہ حکومت کی طرف سے صوبہ بھر کی انتظامیہ پر کوئی پریشر موجود نہیں تھا کہ وہ مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت کریں، تاہم عینی شاہدین کا خیال ہے کہ ایسے عوامل احکامات پر نہیں اشاروں کنایوں میں ہی انجام پاتے ہیں۔خیر انتخابات ہونا تھے ہوگئے ابھی دومراحل باقی ہیں تاہم دیگ کے پہلے چاول نے ہی ثابت کردیا ہے کہ اگلے دومراحل کس طرح سے انجام پائیں گے۔

جیسا کہ پہلے ہی عرض کیاجاچکاہے کہ پنجاب میں بہت زیادہ تعداد آزاد حیثیت سے منتخب ہونیوالوں کی ہے ۔اب سرکاری ،سیاسی سطح پر کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح سے آزاد امیدواروں کو مسلم لیگ کا حصہ بناکر مرضی کے ضلعی،میونسپل چیئرمین بنائے جائیں اس ضمن میں ماضی کی داستانیں بھی دہرائے جانے کی نوید سنائی جارہی ہے۔
پنجاب کے ایک دورافتادہ پسماند ہ ضلع کی کئی ایک مثالیں سامنے ہیں۔

1992 میں مسلم لیگی حکومت کے زیرنگرانی ہونیوالے انتخابات میں محض ستر ووٹ حاصل کرنیوالا ممبر ضلع کونسل بن گیا مگر سینکڑوں ووٹ لینے والے بعد میں دربد ر دھکے کھاتے رہے کہ ہم کہاں جائیں ؟ مگرکہیں سے بھی شنوائی نہ ہوسکی۔ 1998 میں ایک بارپھر بلدیاتی انتخابات ہوئے تو حکومت کا نامزد کردہ امیدوار ضلع کونسل کی محض اٹھارہ سیٹوں کاحامل تھا اوریہ واضح دکھائی دے رہاتھا کہ یہاں سے اپوزیشن ضلع کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کرلے گی تاہم بعد میں چشم فلک نے عجب منظر دیکھا کہ حکومتی ہدایات کے مطابق حکومتی امیدوار کی طر ف سے ضلع کونسل کے آس پاس ڈنڈا بردار فورس تعینات کردی گئی جونہی اپوزیشن ممبران ضلع کونسل حدود میں آئے یہ ڈنڈا بردار ان پر پل پڑے اورپھر کئی ممبران کو اغواکرلیاگیا۔

ضلع کونسل کی چیئرمین شپ کا انتخابی مرحلہ رک گیا۔ پھر ضلعی انتظامیہ نے کرفیو کی سی کیفیت پیداکرکے حکومتی امیدوار کے کاندھے پر ”چیئرمین ضلع کونسل“ کی قلعی سجاد ی ۔
شنیدیہی ہے کہ اب کی بار بھی اس چھوٹے ،پسماندہ ضلع میں ویسا ہی کھیل کھیلنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ کیونکہ ضلع کونسل کی 64نشستوں میں سے مسلم لیگ محض چوبیس پچیس نشستیں حاصل کرپائی ہے ۔

جبکہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنیوالا نوانی گروپ 36 سے 39نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے اورواضح نظرآرہا ہے کہ نوانی گروپ ہی ضلع کونسل کی چیئرمین شپ لے اڑے گا تاہم حکومتی مشینری اور مسلم لیگ ممبران اسمبلی متحرک ہوچکے ہیں کہ کسی طرح سے مری ،چھانگا مانگا کی سیاسی منڈیاں سجاکر مسلم لیگی امیدوار کو ہی یہ سہرا سجادیا جائے۔اس معاملے میں شنیدیہی ہے کہ حکومتی مشینری کے دباؤ کے بعد تجوریوں کے منہ بھی کھولے جارہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ محض پچیس نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ ضلع فتح کرپاتی ہے یا پھر زورا زوری کرکے ایک بارپھر 1998 کی تاریخ دہرائی جائے گی۔

پنجاب کے دور پرے اور پسماندہ ضلع کی مثال یوں دی ہے کہ جب حکومت ایک چھوٹے سے ضلع میں حاکمیت کیلئے ہرحربہ استعمال کرسکتی ہے توپھر دیگر اضلاع میں کیا کیا ذرائع استعمال ہونگے؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے؟
حاکمیت اورحکومت یقینا ہرجماعت کی خواہش رہتی ہے اور اس خواہش کی تکمیل ہرسیدھا اور الٹا راستہ ضرور اختیار کیاجاتا ہے، طاقت ، قوت، بے ایمانی، فراڈ، دولت کا بے دریغ استعمال ،منفی ہتھکنڈے ،یہ سبھی عوامل مل کر حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور پھر کامیابی کے بعد حمایت کرنیوالوں کو جس طرح سے ” کھلی چھوٹ “ مل جاتی ہے وہ بھی یقینا سب پر عیاں ہے
دیکھنا یہ ہے کہ وفاق اور ایک صوبے کی حکمران جماعت ماضی کی تاریخ کو دہراتے ہوئے ایک بارپھر پنجاب پر اپنا تسلط برقرار رکھ پاتی یا نہیں؟ یہ بلدیاتی انتخابات کے تینوں مراحل بعد پتہ چلے گا ۔

لیکن نتیجہ یہ بھی سامنے رکھناہوگا کہ 1999 میں حکومت بدری کے بعد جب بیرون ملک روانگی جاری تھی تو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے والاکوئی نہیں تھا۔ ہروقت حکومتی درخت پرچہچہانے والے پرندہ دوسری ڈالیوں پر ٹھکانہ کرچکے تھے۔ ایک بارپھر حکومتی درخت سر سبز ہے ،پرندوں کی چہچہاہٹ بھی جاری ہے مگر انجام گلستاں کیاہوتاہے؟؟ یہ آنیوالاوقت ہی بتائیگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :