کون کیا کرسکتا ہے

پیر 9 نومبر 2015

Sajid Khan

ساجد خان

مجھے معلوم کہ ملک بن رہاہے کہ بگڑرہا ہے۔کچ ایسا ہی حال تخت پنجاب کے شہر لاہور کاہو رہاہے۔ تخت پنجاب کے وزیراعلیٰ کی نظر کرم لاہور کی ترقی پرپے۔پرانا لاہور جواندرون شہر کہلاتا ہے، اس کانقشہ بدلا جارہا ہے۔بین الاقوامی ادارے قدیم لاہور کومحفوظ رکھنے کیلئے امداد دیتے رہے ہیں یا قرض وہ بھی ملکی سلامتی کے تناظر میں قومی راز ہے۔

دوسری طرف اندرون شہر قدیم لاہور میں نئی تعمیرات کسی منصوبے ،قاعدے اور قانون کے بغیر جاری ہیں اور وہ اتنی خطرناک ہیں کہ اگرزلزلے جیسی کیفیت ہوتی ہے تو نقصان کااندازہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔لاہور کاترقیاتی منصوبوں والاادارہ ان معاملات سے لاتعلق نظر آتا ہے اور یہ سب کچھ مسلم لیگ سیاسی اشرافیہ کی منشا اورمرضی سے ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)

پہلے تووزیراعلیٰ صاحب بہادر نے نوکرشاہی کے زرخیز دماغ کی مشاورت سے میڑوبس (عوام میں جنگلہ بس) کامنصوبہ کثیر سرمایہ سے مکمل کیا جس نے تخت لاہور کوعملی طور پر تقسیم کردیا ہے۔

ایسے منصوبوں سے نوکرشاہی اور سیاسی اشرافیہ بہت کماتی ہے ان کی وجہ سے عوام کی بہود کے دیگر معاملات جیسے تعلیم،صحت کے منصوبے صرف نذر کردیئے جاتے ہیں۔پاکستان تعلیم کاجومعیار ہے اور اسکولوں کی جو حیثیت ہے وہ علاقائی تناظر میں بہت ہی تشویشناک ہے مگر اس کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں ہے۔آبادی میں مسلسل اضافہ معیشت کیلئے مزیدخطرہ ہے مگر جناب اسحاق ڈار کی الفت اور صحبت صرف اور صرف آئی ایم ایف (IMF) کیساتھ ہے۔

پاکستان خطرناک حدتک قرضوں کی معیشت کابیمار ملک ہے۔ایسے میں آئندہ کی منصوبہ بندی کے بارے میں اعلیٰ سرکاری اور سیاسی حلقے ،عدم توازن اور سیاست کاشکار ہیں۔منصوبہ بندی کے بے بس وزیر احسن اقبال ایک دفعہ تووزیراعظم پاکستان کواپنی حیثیت کابتا چکے ہیں۔شنیدیہ ہے کہ ان سے وزیر دفاع وبجلی جناب خواجہ آصف اور وزیرپٹرولیم خاقان عباسی بہت ہی نالاں اور غیر مطمئن ہیں۔

شکایات تو وزیر داخلہ چوہدری نثار کوبھی ہیں مگر وہ پارٹی کی سیاست سے دورہی رہنا چاہتے ہیں۔حالیہ دورہ امریکہ میں ان کاکردار کافی اہم رہا ہے پھر ان پر اقربا پروری یاکرپشن کا الزام لگانا یاشک کرنا مشکل ہے۔مگر داخلی معاملات میں بدانتظامی کاعلاج مشکل نظر آتاہے۔ان کی وزارت بہت اہم اداروں کی نگرانی بھی کرتی ہے۔اسی طرح ان اداروں کی کارکردگی بھی ملک کے دیگراداروں کی طر ح تسلی بخش نہیں ہے۔

ملکی احتساب کے ادارے عرصہ دارز سے اشرافیہ اور سیاست دانوں کااحتساب کررہے ہیں ۔ثبوت ہونے کے باوجود دفتری ضابطے ایسے ہیں کہ احتساب کرنا اور کسی اہم شخص کوسزادلونا ممکن نظر آتا ہے۔ الزام عدالتوں پر لگادیا جاتا ہے کہ وہ مجرموں کو چھوڑدیتی ہیں جبکہ ثبوت کے سلسلے میں جوڑتوڑ صاف نظر آتا ہے۔مگرایک وزیرداخلہ کیلئے سابقہ دوستوں پرکرم فرمانہ بھی توجمہوریت کیلئے ضروری ہے اور یہی جمہوریت کاحسن ہے۔

کسی کونہ پکڑو اور سب کوساتھ ملانے کیلئے ایسا کرنا جنرل مشرف کے این آراو کے مطابق پالیسی کاحصہ ہے۔اب ملک بھر کی سیاست نئی کروٹ لیتی نظر آرہی ہے۔تحریک انصاف اپنی سیاسی جنگ میں تھکی نظر آرہی ہے۔کپتان نجی زندگی کے بھنور میں ڈوبتا اور بے بس ہوتا نظرآرہا ہے۔اس کے نجی معاملے کوجس طریقے سے میڈیا پردکھایا جارہاہے وہ کافی قابل تشویش ہے۔

ایک طرف ان کی پارٹی تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔کپتان کے ساتھ مخلص لوگوں کی کمی نہیں مگر کوئی بھی کپتان کوحوصلہ اورامنگ دینے کوتیار نہیں۔اس طرح کے معاملات تمام دنیا میں ہوتے ہیں اور ان کی قیمت ادا کرکے کاروبار زندگی جاری رہتا ہے۔مگر ہمارے ہاں کادستوری ہی نرالا ہے۔ہم اپنے کسی دستور کواہمیت اور حیثیت نہیں دیتے ۔ملک کی سیاسی اشرافیہ تحریک انصاف سے خائف نہیں مگر کپتان سے ضرور خائف ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہے کہ اس معاملے کواستعمال کرکے کپتان گوزچ کیا جاسکتا ہے۔

کپتان کوملکی سیاست سے باہر کرنا اسن سب کی بقاکیلئے بہت ہی ضروری ہے۔کپتان کواس مشکل وقت میں حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اگر لوگ اس کاآزمانہ چاہتے ہیں تو اس کومایوس بالکل نہیں ہونا چاہئے مگراس کواندازہو جانا چاہئے کہ یہ سب کچھ خواص کیلئے جمہوریت کاحسن اور کپتان کیلئے جمہوریت کاانتقام ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جولوگوں کوسہولت دینے کی بجائے ان کی عزت نفس کو آزماتی ہے۔

پورے ملک میں سیاسی صورتحال مسلسل انتشار کاشکار ہے۔بنیادی جمہورتوں کے حوالے سے جوانتخابات حالیہ دنوں میں ہوئے ان کے بارے میں فریقین کے علاوہ دیگر ادارے بھی کافی سوال اٹھارہے ہیں۔مگربنیادی سوال یہ ہے کہ ان انتخابات کے بعد ہمارے سیاسی ماحول میں کوئی مثبت پیش رفت ہوگی؟اس کاجواب مشکل نہیں کوئی مثبت تبدیلی کے آثار نہیں نظر آتے۔میاں نواز شریف کی سرکار کوڈھائی سال ہونے کوہیں۔

وہ اپنی آدھی مدت مکمل کرچکے ہیں۔مگر ملک بھر میں سیاسی اور معاشی صورت حال مکمل طور پر مخدوش ہے۔ایک طرف کاروباری طبقہ حکومت کے ٹیکس کی وصولی کے اقدامات سے مطمئن نظر آتا دوسری طرف سیاسی اشرافیہ ہے جوملکی معیشت میں حصہ دارتوہے مگر اس کوکوئی غرض نہیں کہ ملک کی معیشت قرضوں کے علاج سے مزید خراب ہورہی ہے۔آئی ایم ایف سے مذکرات ملک سے باہر جاکر کرناایک علیحدہ پریشانی ہے آئی ایم ایف کے لوگ ہمارے اعدادوشمار پر یقین کرنے کوتیار نہیں۔

ہمارے زرمبادلہ کے کثیرذخائر میں کافی بڑا حصہ تو آئی ایم ایف کے قرضوں کاہے۔پھر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے عدم توازن میں اضافہ کردیاہے۔اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق ڈالر کوکنٹرول اب نجی ادارے کررہے ہیں۔پاکستانی روپے کی قدرکی کمی سے قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہماری مشکلات میں مزید اضافہ کررہا ہے۔
میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ انتخابات جیتنے کے بعد جووعدے اوردعوے کئے تھے ان پر عملدرآمد تو دور کی بات ہے ان کیلئے منصوبہ بندی کا فقدان سیاسی اور سماجی انتشار میں اضافہ کاباعث بن رہاہے۔

ہمارے ملک کے اندر حکومتی سطح پرکوئی ردعمل نظر نہیں آرہا ہے۔بھارت میں جمہوریت کے بعد جو کچھ ہورہا ہے اس پروہاں پر لوگ ردعمل تودے رہے ہیں مگر پاکستانی حکومت کاردعمل مناسب نہیں ہے۔بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ حالت جنگ کی سنی کیفیت رکھنی ہے۔ اس کواپنے روایتی ہتھیاروں پر بہت ناز ہے۔اس کے جواب میں ہمارے پاس جذبہ ے بعد جوہری میزائل ہیں۔

اس بات کا اندازہ ہمارے دوستوں اور مہربانوں کوبھی ہے۔گزشتہ ڈھائی سال میں ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ نے کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جس سے عوام کوکوئی بھی سہولت مل سکے۔عوام بیک وقت مہنگائی،دہشت گردی کرپشن اور اشرفیہ کے کردار سے پریشان ہیں۔اب نیب جیسے اداروں کے قوانین میں تبدیلی کی خبر بھی آرہی ہے۔وہ تبدیلی کس تناظر میں کی جارہی ہے؟وہ ایک اہم معاملہ ہے جس پر حکومت بالکل خاموش ہے۔

نیب کے قوانین کے نتیجہ میں اب تک جو کچھ ہوا اس سے توکرپشن کم ازکم ختم ہوتی نظر نہیںآ تی۔اب یہ ضروری ہے کہ نیب ملزموں کی نشاندہی کے علاوہ ان کیخلاف ثبوتوں کے ساتھ سزادلوانے کاکام شروع کرے۔ہمارے ہاں سزااور جزاکانظام طبقاتی طور پرتقسیم ہوگیا ہے۔سزاصرف عوام کومل رہی ہے جزا کیلئے سیاست اور اشرافیہ نمایاں ہیں۔اب تک توجمہوریت نے اس ملک کو کچھ نہیں دیا اس کومضبوط کرنے والے لوگ عوام کے حقوق نظرانداز کرکے ملک کودیوالیہ کرنے جارہے ہیں ایسے میں کون کیاکرسکتا ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :