مودی نے سرینگر میں کس کی تقدیر بدلی؟

بدھ 25 نومبر 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

اپنی پارٹی پی ڈی پی کی سیاسی شبیہ اور انتخابی نعروں کے برعکس بھاجپا کے ساتھ اتحاد کرکے کشمیریوں کو شدید دھچکہ پہنچاچکے وزیرِ اعلیٰ مفتی سعید کے ماہ بھر سے انتھک کوششیں اور ”جُگاڑ“ کرتے رہنے کیبعد وزیرِ اعظم مودی با الآخر گذشتہ ہفتے سرینگر میں ایک عوامی ریلی کو خطاب کرکے چلے گئے۔مفتی سعید نے انتہائی اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا تھا کہ مودی آئیں گے تو کشمیراور کشمیریوں کی تقدیر بدل دیں گے لیکن سرینگر میں گھنٹہ بھر کے اُنکے قیام کے دوران اگر کسی کی تقدیر بدلتے محسوس ہوئی تو وہ خود مفتی اور اُنکی پارٹی پی ڈی پی ہی ہے کہ جو کشمیریوں کی نظروں سے گر کر مزید پستیوں کی جانب کھسکتے دکھائی دے رہی ہے۔

مودی نے جموں کشمیر کے لئے 80/ہزار کروڑ روپے کے اقتصادی پیکیج کا اعلان کرکے ،بقولِ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبدللہ،پھر وہی کشمیریوں کو پیسے سے تولنے کی کوشش کی کہ جو ابھی تک کئی بار اور بار بار ناکام ثابت ہوتی رہی ہے۔

(جاری ہے)

سرینگر آکر اُنہوں نے جس طرح کی ”سیاسی اکڑ“کا اظہار کیا اُس سے پی ڈی پی کا محل چکنا چور تو ہوہی گیا ہے ساتھ ہی عام لوگ بھی معمولی حد تک بھی Impressنہ ہوسکے اور پھر مودی کے جاتے ہی سرکاری فورسز نے انجینئرنگ کے ایک طالبِ علم کی جان لی تو یوں لگا کہ جیسے ہزاروں کروڑ روپے بھری بوری خون میں غلطاں ہوکر نا قابلِ استعمال ہوگئی۔


اس موضوع پر سرینگر سے دلی تک اور دلی سے دور دُنیا تک خوب لکھا اور کہا جاچکا کہ مفتی سعید نے بھاجپا کے قدم روکنے کی صداوٴں کے ساتھ کس طرح کشمیر میں لوگوں کا منڈیٹ حاصل کیا اور پھر اسی بھاجپا کے ساتھ نہ صرف اتحاد کرکے حکومت بنائی بلکہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے لیکر علیٰحدگی پسندوں تک کے بقول سب کچھ سرنڈر بھی کردیا۔چناچہ ایسا کرکے پی ڈی پی نے نہ صرف کشمیریوں کو شدید ٹھیس پہنچائی بلکہ اُنہیں ایک طرح سے اسقدر مجبور کردیا کہ وہ دم بخود ہوکے رہ گئے ہیں۔

یہ شائد مفتی کے بھاجپا کے ساتھ اتحاد کی ہی دین ہے کہ جس ریاست میں جنگجوئیت کے عروج پر رہنے کے دوران بھی فرقہ پرستی کا عفریت سر نہ اُبھار سکا تھا وہاں آج حالت یہ ہے کہ سرینگر کے لوگ جموں جاتے ہیں اور واپسی میں اُن کی جلی اور مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔اِسکے علاوہ کسی بھی معاملے میں اپنی رِٹ قائم نہ کرپانے ،بہتر اور شفاف انتظامیہ کی فراہمی،جیسا کہ اُنکا دعویٰ بھی اور وعدہ بھی تھا،میں ناکامی اور سب سے بڑھکر گذشتہ سال کے سیلاب میں تباہ ہوئے لوگوں کی باز آبادکاری میں ناکامی کے جیسی وجوہات کے لئے وہ کشمیریوں کا منھ چِڑھانے لگے ہیں۔

البتہ دلی کے کئی دوروں کے بعد مودی کو سرینگر کا دورہ کرنے پر آمادہ کرنے کے بعد وہ ایسا تاثر دینے لگے تھے کہ جیسے اس دورہ کے دوران واقعی کشمیر کا مسئلہ اور یہاں کے لوگوں کی مشکلات بھی حل ہونے والی ہوں۔چناچہ اُنہوں نے کہا تھا کہ مودی کا دورہ تاریخی ہونے والا ہے اور یہ ایک دورہ کشمیر کی تقدیر بدل دیگا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس دورے سے قبل مفتی سعید نے نئی دلی کے ایک اخبار کو انٹرویو دیا اور یہ کہتے ہوئے حیران کردیا کہ وزیرِ اعظم مودی فرقہ پرست نہیں ہیں بلکہ وہ سب کو ساتھ لیکر چلنے والے شخص ہیں۔

یہی نہیں بلکہ مودی کی تعریفوں میں مفتی سعید اس حد تک بے قابو ہوگئے کہ اُنہوں نے گجرات کا داغ لئے گھوم رہے وزیرِ اعظم کو سکیولر اور ”طوفان کا آدمی“بتایا۔حالانکہ جب مفتی سعید وزیرِ اعظم کو سکیولر اور سب کو ساتھ لے چلنے والے طوفان کا آدمی بتارہے تھے وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ مودی خفیہ ایجنسی کے برعکس آر ایس ایس سے مشاورت کرتے ہیں اور Feedbackلیتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق مفتی سعید در اصل یہ سب مودی کو مسکا لگانے کے لئے کر رہے تھے تاکہ وہ نہ صرف ایک بڑے اقتصادی پیکیج کا اعلان کریں بلکہ جموں کشمیر مسئلہ،جس پر مودی نے ایک طرح کی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے،پر بولیں اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیں تاکہ مفتی صاحب اسے اپنی کارستانی بتاکر اپنی ڈھوبتی نیآکو تیرتے رکھنے کا سامان حاصل کر پاتے۔

بعض مبصرین کے مطابق اس خوشامد کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ چونکہ بھاجپا کا ستارہ ابھی چمکتا ہوا دکھائی دے رہا ہے،حالانکہ بہار کے انتخابی نتائج کے بعد یہ تاثر بدل گیا ہے،اور مفتی سعید اپنی صاحبزادی محبوبہ مفتی کو جلد ہی اپنا جانشین بنانے والے ہیں وہ آر ایس ایس کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ سبھی وفاداریاں اسکے ساتھ وابستہ کرچکے ہیں لہٰذا وہ اُنکے بعد محبوبہ مفتی کے سرپر اپناہاتھ رکھیں۔


ایسا کہتے ہوئے ایک طرف مفتی سعید نے وزیرِ اعظم مودی کی طبیعت خوش کرنا چاہا دوسری جانب جموں کشمیر میں یہ اُمید پیدا کردی کہ وزیرِ اعظم سرینگر میں علیٰحدگی پسندوں کے ساتھ مصروف ہونے کا اعلان کریں گے اور ساتھ ہی پاکستان کی جانب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔چناچہ کئی اخباروں نے اس طرح کی قیاس آرائیاں بھی کیں جبکہ کئی نے تو اس بات کو طے بتایا۔

چناچہ جموں کشمیر کے حالات اور یہاں کی سیاست سے معمولی واقفیت رکھنے والا کوئی ادنیٰ سا شخص بھی جانتا ہے کہ جب اس ریاست کی تقدیر سازی کی باتیں کی جا رہی ہوں تو وہ اقتصادی ہو سکتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ اس ریاست کو اقتصادی پریشانیوں کا سامنا نہیں ہے اور یہاں کے لوگ اقتصادی ترقی کی تمائیں نہیں پالتے ہیں لیکن جہاں تک تقدیر سازی کی بات ہے اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو ایک ہی بار حتمی طور حل نہیں کیا جاتا اس ریاست کی ترقی کے خواب دیکھنا اور یہاں کے لوگوں کی تقدیر کا بدل جانا ناممکن ہے۔

تاہم وزیرِ اعظم مودی نے مفتی سعید کو مایوس کردیا اگرچہ وہ اس بات کا سرِ عام اظہار نہ کرنے کے لئے مجبور ہیں۔
یہ شائد مفتی سعید کی بڑھائی ہوئی توقعات ہی تھیں کہ بزرگ مزاحمتی رہنما سید علی شاہ گیلانی نے اب کے ”روایتی ہڑتال“کی بجائے عین مودی کی ریلی کے روز ”ملین مارچ“کا پروگرام دیا۔یاد رہے کہ وزیرِ اعظم یا اس طرح کی کسی بھی شخصیت کے دورہ جموں کشمیر کے دوران مزاحمتی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی ہڑتال کی کال دی جاتی رہی ہے جس کا خاصا اثر رہتا ہے تاہم اب کی بار سید گیلانی نے ملین مارچ کی کال دی۔

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بدلی ہوئی حکمتِ عملی کہیں نہ کہیں اُنہی توقعات کا نتیجہ تھا کہ جو مفتی سعید نے مودی کے دورہ کے حوالے سے پیدا کرنا چاہی تھیں۔سید گیلانی نے مارچ کو پُر امن رکھنے کی اپیل کے ساتھ کہا تھا کہ اس سے معلوم ہوجائے گا کہ کشمیری عوام مودی کو سُننے جائیں گے یا پھر اس مارچ میں شرکت کرینگے جس سے صاف ہوجائے گا کہ لوگ اصل میں کیا چاہتے ہیں۔

چناچہ سرکار نے اس مارچ کی اجازت نہیں دی بلکہ کئی دن قبل ایک طرح کا کریک ڈاون شروع کرکے سینکڑوں گرفتاریاں عمل میں لائیں جبکہ سیدہ گیلانی،جو اب مہینوں سے اپنے گھر میں نظربند ہیں،کے گھر کا پہرہ مزید سخت کردیا گیا۔حالانکہ اس مارچ کی اجازت دیکر سرکارکشمیریوں کو جمہوریت کے اصل معنیٰ سمجھا سکتی تھی کہ جو تمام تر دعویداری کے باوجود بھی ابھی تک حقیقی جمہوریت سے آشنا ہونے کا موقعہ نہیں پاسکے ہیں۔


07/نومبر کو وہ تاریخی دن تھا کہ جب وزیرِ اعظم مودی کشمیر کی تقدیر سازی کے لئے سرینگر پہنچے،سرینگر کے بیشتر علاقہ میں بلا اعلان کرفیو،جو اب یہاں کا معمول ہوچکا ہے،نافذ تھا اور سونہ وار کے ہائی سکیورٹی زون میں واقع ایس کے کرکٹ اسٹیڈیم میں وزیرِ اعظم مودی کی ریلی منعقد ہو رہی تھی۔مفتی سعید اور اُنکی صاحبزادی کی ماہ بھر سے جاری کوششیں اس حد تک کامیاب ہوگئی تھیں کہ اسٹیڈیم میں چند ہزار لوگ جمع تھے۔

یہ الگ بات کہ ریلی میں پانچ ہزار پولس اہلکار،کئی سرکاری محکموں کے عارضی ملازم یہاں تک کہ غیر ریاستی مزدور،جنہوں نے میڈیا کو بتایا کہ وہ کام پر جارہے تھے کہ جب اُنہیں زبردستی ریلی میں شامل ہونے کے لئے ہانکا گیا،وغیرہ شامل پائے گئے تاہم مودی جی کی بات بات پر تالیاں بجانے کے لئے ایک بڑا مجمعہ جمع تھا۔
محبوبہ مفتی نے افتتاحی کلمات میں وزیرِ اعظم کی خوب تعریفیں کیں جبکہ مفتی سعید نے ایک بار پھر اس دورے کو تاریخی بتاتے ہوئے اسے جموں کشمیر کی تاریخ کا Turning Pointبتایا۔

اُنہوں نے سابق وزیرِ اعظم واجپائی کی ایسی ہی ایک ریلی کی یاد دہانی کی اور وزیرِ اعظم مودی تک ایک بار پھر یہ بات پہنچانا چاہی کہ وہ واجپائی کی ہی طرح اُنہیں اسی سٹیج سے پاکستان کے لئے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے دیکھنا چاہتے ہیں۔مفتی سعید نے کہا کہ”اگر بھارت کو آگے بڑھنا ہے، ایک بڑی طاقت بننا ہے، ترقی کی شرح بڑھانی ہے تو بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی کے ساتھ ہاتھ ملانا ہوگا“۔

لیکن جب وزیرِ اعظم مودی تقریر کرنے کے لئے سامنے آئے تو اس میں جیسے مفتی سعید کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔
وزیرِ اعظم اپنے مخصوص انداز میں 40/منٹ تک خوب باتیں بناتے رہے اورکشمیریوں پر اپنا پیار لُٹاتے رہے۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے کہا کہ اُنکی ماں نے زندگی میں اُنہیں پہلی بار گیارہ روپے کی بجائے گذشتہ سال کے جنم دن پر پانچ ہزار روپے کی رقم تھماتے ہوئے کہا تھا کہ اسے کشمیر کے سیلاب زدگان کو دے آوٴلیکن اُنہوں نے تقدیر سازی کی وہ باتیں نہیں کیں کہ جن کا مفتی سعید نے عندیہ دیا تھا۔

بلکہ خود مفتی سعید سٹیج پر انتہائی تذبذب میں ”تقدیر ساز“کی ہر بات کے بعد اپنے مطلب کی بات کے منتظر رہے لیکن اُنہوں نے ایسا کچھ نہ کہا۔ پھر جب اُلٹا وزیرِ اعظم نے یہ کہا کہ وہ اس سے قبل بھی کشمیر آچکے ہیں اور یہاں کے گاوٴں گاوٴں گھوم چکے ہیں اور کشمیر کوجانتے ہیں لہٰذا اُنہیں کشمیر پر کسی کے مشورے یا تجزیہ کی حاجت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ مفتی صاحب کے لئے وزیرِ اعظم کا دورہ بے معنیٰ ہوگیا۔

وزیرِ اعظم نے کہا” میں کشمیر کے گاوٴں گاوٴں گھوما ہوں، تب گھوما ہوں جب یہاں حالات بھی خراب تھے۔ میں کشمیر کو جانتا ہوں، مجھے دنیا میں کسی کے مشورے یا تجزِیے کی ضرورت نہیں ہے“۔وزیرِ اعظم اگرپاکستان یا جموں کشمیر میں مزاحمتی جماعتوں کے ساتھ مصروفیت کے حوالے سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے تو نہ کرتے لیکن وہ چاہتے تو یہ بھی نہیں کہتے کہ اُنہیں کسی کے مشورے یا تجزیہ کی ضرورت نہیں ہے۔

ظاہر ہے کہ اُنہوں نے یہ سب جان بوجھ کر بلکہ انتہائی سوچ سمجھ کر کہا ہے اور ایسا کہتے ہوئے اُنہوں نے میزبان وزیرِ اعلیٰ کو بتادیا کہ وہ اپنی اوقات میں رہتے ہوئے حکومتِ ہند کوسمجھانے کی جسارت نہ کریں۔
گوکہ وزیرِ اعظم مودی نے جموں کشمیر کے لئے ابھی تک کا سب سے بڑا،80/ہزارکروڑ روپے کا، اقتصادی پیکیج منظور ہونے کا اعلان کیا لیکن متوقع سیاسی پہل کی غیر موجودگی میں یہ پیکیج پھیکا پھیکا معلوم ہورہا ہے۔

وزیرِ اعظم کے چلے جانے کے بعد جو مرکزی وزارتِ اطلاعات نے اس پیکیج کے حوالے سے تفصیلات جاری کردیں اُنکے مطابق پیکیج میں ایسے کئی کام ہیں کہ جو پہلے سے منظور شدہ بھی ہیں اور شروع بھی ہوچکے ہیں۔تفصیلات میں ہے کہ یہ رقومات پانچ سال کے دوران مختلف ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونی ہیں اور وزیرِ اعظم نے یہ کہتے ہوئے ریاستی سرکار کو بہت نیچا دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایک پائی کا حساب لیں گے۔

حالانکہ اُنہوں نے سیلاب زدگان کی مصائب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اُنکی باز آبادکاری اُنکی ترجیحات میں ہے لیکن اس بات کے لئے اُنہوں نے کوئی وجہ بیان نہیں کی کہ سیلاب کے دوران ریاست کا دورہ کرنے کے باوجود بھی سال بھر تک اُنہوں نے ان مصیبت زدگان کی امداد کیوں نہیں کی جیسا کہ دیگر جگہوں پر آفات و مصائب کے ردِ عمل میں ہوتا ہے۔مفتی سعید نے بھاجپا کے ساتھ اتحاد کی ایک وجہ یہ بھی بتائی تھی کہ وہ سیلاب زدگان کی بھرپور امداد کرانا چاہتے ہیں اور یہ ،بقولِ اُنکے،تب ہی ممکن ہوگا کہ جب وہ مرکز میں برسرِ اقتدار پارٹی کے ساتھ اتحاد کریں لیکن مودی جی کے پیکیج میں سیلاب زدگان،تدارکِ سیلاب اور ایک اور مد کے لئے کُل پونے آٹھ ہزار کروڑ روپے کی رقم مختص ہے جبکہ سابق عمر عبداللہ سرکار نے اکیلے سیلاب کی باز آبادکاری کے لئے 44یٴہزار روپے کی رقم طلب کی ہوئی تھی۔


مفتی سعید ہوسکتا ہے کہ ابھی بھی اور آئیندہ بھی سانس پھُلا کر اسی ہزار کروڑ روپے کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی خفت مٹانے اور سادہ لوح ووٹروں کو رجھانے کی کوشش کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پیکیج سے خاص تو خاص عام لوگ بھی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔چناچہ تاجروں کی ایک تنظیم کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ اندسٹرئز نے مذکورہ پیکیج کو لفظوں کا ہیر پھیر قرار دیتے ہوئے خود کو مایوس بتایا ہے اور کہا ہے کہ اُنکے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

تنظیم کے چیرمین مشتاق احمد وانی نے گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا” ورلڈبنک کی جس خصوصی ٹیم نے بھی سیلاب زدہ وادی کا دورہ کیا انہوں نے بھی سیلاب کی وجہ سے نقصانات کا تخمینہ 1لاکھ 4ہزار کروڑ روپے لگایا تھالیکن حکومتِ ہند نے صرف 7ہزار8سو کروڑ روپے ہی اس مد میں باز آباد کاری کیلئے مختص رکھاہے جوکہ تاجروں اور متاثرین کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے“۔

اُنہوں نے کہاکہ وزیر اعظم ہند کی طرف سے جس خصوصی پیکیج کاطمطراق کے ساتھ اعلان کیا گیا اس میں ایک مرتبہ پھر ایمز اسپتال ، پیشہ وارانہ کالجوں ، زوجیلہ ٹنل اور دیگر پروجیکٹوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ ان منصوبوں کے لئے پہلے ہی رقومات واگزار کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ اندسٹرئزکے صدرنے کہا کہ پشمینہ کیلئے 50کروڑ روپے کی رقم مختص کرنے کی بات بھی کی گئی جبکہ اسکا ذکر بھی پہلے ہی بجٹ میں آیا تھا۔

اُنہوں نے کہاکہ سیلاب زدگا ن کیلئے 7/ہزار8/سو کروڑ روپے میں دریاوٴں کی کھدائی کے علاوہ جھیلوں اور ندی نالوں کو وسعت دینے کے علاوہ جنوب تا شمال متبادل فلڈ چینل تعمیر کرنا بھی ہے جس کے بعد سیلاب زدگان کی باز آباد کاری کیلئے جو رقم بچتی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیلاب زدگان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بھونڈا مذاق کیا گیا اور انہیں مخمصے میں ڈال دیا گیا جبکہ نیپال ، بنگلہ دیش اور برما میں حکومت ہند نے دل کھول کر متاثرین کو امداد فراہم کیتھی۔

انہوں نے کہاکہ اس دوران وزیرا عظم ہند نے بجلی پروجیکٹوں کی واپسی پر بھی خاموشی اختیار کی جبکہ یہ بجلی پروجیکٹ ریاست کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ مشتاق احمد وانی کا کہنا تھا کہ حکمران جماعتوں پی ڈی پی اور بی جے پی کے کم سے کم مشترکہ میں بھی بجلی پروجیکٹوں کی واپسی پر اتفاق کیا گیا ہے تاہم اسکے بعد بھی وزیر اعظم ہند کی طرف سے اس معاملے پر لب کشائی نہ کرنا معنیٰ خیز ہے۔


حزبِاختلاف نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے مودی کے دورہ کو مایوس کن قرار دیا اور مفتی سعید پر پھبتیاں کستے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا”وزیرِ اعظم کے ایک جملے(کہ اُنہیں کشمیر پر کسی کا مشورہ یا تجزیہ نہیں چاہیئے) نے مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ کو اپنے صحیح مقام پر پہنچادیا“۔اُنہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر کشمیریوں کو روپے پیسے سے تولنے کی غلطی دہرائی ہے جبکہ اس سے قبل کئی اقتصادی پیکیج کوئی نتیجہ برآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

پھر اس ریلی کے چند روز بعد ہی عمر نے مفتی کا گڈھ مانے جاتے رہے جنوبی کشمیر میں ایک تقریب پر مفتی کی پھر شدید تنقید کی اور کہا کہ موجودہ سرکار نے وزیرِ اعظم کی ریلی سے قبل تین ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جبکہ پولس کو سیول کپڑوں میں ملبوس کرکے ریلی میں بٹھاکر یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ لوگ پی ڈی پی-بھاجپااتحاد پر خوش ہیں۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اُنکے کئی لیڈروں کی سکیورٹی عارضی طور کم کردی گئی تھی اور پتہ کرنے پر اُنہیں معلوم ہوا کہ پولس اہلکار ریلی میں حاضرین بنکر شامل ہیں۔

اُنہوں نے کہاکشمیر کے جوانوں نے پیسے کے لئے اور اقتصادی پیکیج کے لئے بندوق نہیں اُٹھائی ہے اور نہ ہی ان چیزوں کے لئے کشمیر کی گلیوں میں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں بلکہ لوگ اپنی سیاسی خواہشات کے اظہار کے لئے سڑکوں پر آتے ہیں جس کا مگر وزیرِ اعظم نے ذکر تک نہیں کیا“۔
جہاں تک مزاحمتی حلقوں کا تعلق ہے وہ خوش ہیں ایک طرف اس لئے کہ ملین مارچ نکالے بغیر اُنکی خوب شہرت ہوئی اور کرفیو و گرفتاریوں کی وجہ سے دور دُنیا تک سرکار کی بدنامی ہوئی،دوسرا یہ کہ وزیرِ اعظم نے سیاسی اکڑ دکھا کر لوگوں کا منھ چِڑھایا اور Aliniationکو مزید ہوادی۔

مختصراََ اس دورے میں مفتی سعید کے لئے کچھ نہیں بچا اور وہ 80/ہزار کروڑ کے اعلان سے دل بہلائی کر بھی لیتے لیکن مودی کے جاتے ہی سرینگر کے مضافات میں انجینئرنگ کے طالب علم مدثر ڈار کے دوران احتجاج سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے سے رہی سہی کسر پورا کردی۔مجموعی طور مودی جی کا دورہ واقعی تقدیر ساز معلوم ہوتا ہے تاہم تقدیرفقط پی ڈی پی کی بدلتے محسوس ہورہی ہے کہ کبھی خود کی مسیحائی کی دعویدار اس پارٹی کو آئیندہ لوگوں کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ وہ انکی دشمن نہیں ہے۔(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :