بلدیاتی الیکشن

اتوار 29 نومبر 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ایوب خاں،ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار کے بعد یہ پہلا ”جمہوری“ دور ہے جس میں لوکل باڈی الیکشن منعقد ہورہے ہیں۔یہ ایک نیم دلی کا فیصلہ ہے جس کو کرنے سے پہلے سالہاسال متعدد حربوں سے ان الیکشنز کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔عدالتی حکم کے بعد ناچاہتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کے انعقادکو مراحل میں کروایا جارہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختوں خواہ کے بعد پنجاب اور سندھ میں بھی مرحلہ وار بلدیاتی الیکشن ہورہے ہیں۔

ایک تو اعلان کے باوجود یہ الیکشن پوری طرح ”جماعتی الیکشن“نہیں بن پائے اور ”آزاد “ امیدوارو ں کی ایک بڑی تعداد نے ”جماعتی امیدواروں کو غیر موثر بنایا ہوا ہے،اسکی وجہ پارٹیوں کی غیر مقبولیت اور پارٹی ٹکٹ کی بنا پر ہارنے کا ڈر بھی ہے اور سیاسی پارٹیوں کے اندر اپنے کارکنوں کو نظریات،نظم وضبط کا پابند نہ کرپانا بھی ہے۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف پنجاب (تحلیل شدہ تنظیم )کے نائب صدر ارتضی داؤد تحصیل صادق آبادکی یونین کونسل درگڑہ سے بطور چیئرمین” آزاد امیدوار“ کے طور پر الیکشن لڑرہے ہیں کیوں کہ وہ ’پارٹی ٹکٹ‘پر ہمہ قسم کے ووٹروں کے ساتھ ساز باز نہیں کرسکتے ۔لاہور سے جماعت اسلامی کے دو بڑے راہنماؤں کے صاحب زادے پی ٹی آئی اور نون لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور ہار گئے ،ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

مگر دوسری طرف ایک بہت ہی اہم عنصر‘ برسراقتدار پارٹیوں کے امیدواران بننے کی خواہش ہے تاکہ امیدوار کو سرکاری ”کمک“اور اقتدارتک رسائی میسر ہو،مگر ایک حلقے سے کئی امیدواران کی صورت میں ”ٹکٹ ہولڈر“کے سامنے اسکی اپنی پارٹی کے امیدوارں بھی ”آزاد حیثیت“ میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والے افراد کی نفسیات اور مقاصد سے بخوبی آگاہ ہیں ،اس لئے انہوں نے امیدواران کی ’درخواست گزاری‘ پر علیحدہ اور ٹکٹ کے حصول کے لئے علیحدہ سے فیس وصول کی۔

یہ خطیر رقومات چند پارٹیوں کے تو اکاونٹ میں جمع ہورہی ہیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی سمیت چند پارٹیوں میں ضلعی قیادتوں کے ذاتی اکاونٹ میں ہی ضم ہورہی ہیں۔پارٹیاں پچھلے سال موخر ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے لئے وصول کی گئی رقومات کو موجودہ الیکشن کی فیس میں نہ صرف ایڈجسٹ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ ان کا تذکرہ بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔

دوسری طرف امیدواران کی ایک بڑی تعدادموجود اور متوقع ٹھیکے داروں پر مشتمل ہے،جن کا مطمع نظر ایسے اقتدار تک رسائی ہے جہاں سے انکے مالی مفادات کے حصول کے راستہ بن سکے۔ پاکستان میں بلدیاتی الیکشن کی ابتداء ایوب خاں کی بنیادی جمہوری نظام سے ہوئی تھی مگر یہ پہلا الیکشن ہے جس میں الیکشن پراسس کے لئے دوماہ کا طویل وقت اور کئی مراحل رکھے گئے ہیں۔

اتنا طویل پراسس جوڑ توڑ کرنے اور حکومتی امیدواران کے لئے راستہ ہموارکرنے اور مخالفین کو الیکشن سے پہلے ہی بٹھانے کے لئے اور مراحل حکومتی پارٹیوں کو نسبتاََ آسان کی فتح یابی کو اگلے مراحل کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے رکھے گئے ہیں ۔موجودہ بلدیاتی انتخابات کی سب سے فیصلہ کن دھاندلی ،حلقہ بندیوں کو اپنی مرضی سے کراکے کرلی گئی ہے۔

سمجھ دار (خاص کر حکومتی )امیدواروں نے ممکنہ حامی اور مخالفیں ووٹروں کو دوسرے حلقوں میں ڈلوا نے کام بہت سمجھ داری سے کرایا ہے اور بہت ساری جگہوں پر مختصر اور یقینی جیت والے حلقے بنوائے ہیں۔اس طرح نئے حلقوں کو بنوانے والوں کی اکثریت بلامقابلا ہی کامیاب ہوگئی ہے۔ بلدیاتی نظام دنیا بھر میں تو بہت ہی اہمیت کاحامل قراردیاجاتا ہے اور اسکی وجہ ان اداروں کی مقامی آبادیوں کے لئے کارکردگی اور آسانیاں پیدا کرنا ہے مگر پاکستان میں ایوبی دور کو چھوڑ کرپہلے بلدیاتی الیکشن(1979) کے 36سال گزرنے کے بعداب تک پاکستان کے شہروں،دیہی علاقوں،میونسپل کمیٹیوں کی حدود کے اندررہنے والی آبادیوں کے مسائل تقریباََ وہی ہیں جو چھتیس سال پہلے تھے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دوران ”ترقیاتی کام“ نہیں ہوئے،اربوں نہیں کھربوں روپے کے کام ہوئے مگر خطیر رقومات کو زیادہ تر ایسے خرچ کیا گیا کہ ہر ترقیاتی منصوبے کی عمر چند سال تک ہی محدود رہی۔چونکہ پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو مقامی آبادیوں کے مفادات کی بجائے فوجی آمروں نے اپنے لئے ”سیاسی نرسریوں“ کے قیام کے لئے استعمال کیا ،اسکی وجہ سے ان اداروں سے پرورش پانے والے سیاسی عناصر نے فوجی آمروں کی ان خواہشات اور مجبوریوں کا مالی مفادات،کرپشن اور مجرمانہ کردار کی شکل میں معاوضہ بھی وصول کی۔

شہری جائیدادوں پر” قانونی“ اور غیر قانونی قبضے،ٹھیکوں کی الاٹمنٹ اور انکو پھر آگے بیچ دینا یا پھر بہت ہی کم لاگت میں منصوبوں کی تکمیل سے بے پناہ منافع کمانا۔ملازمتوں کی فروختگی وغیرہ ۔ چونکہ 1979ء سے‘ تمام سابق بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے تھے لہذا روپے پیسے،رشوت اور قبضہ گیریت سے بھی بڑی بدعنوانی کی بنیاد روپے پیسے کی بنیاد پرووٹوں کی خریداری اور ذات برادری کی بنیاد پر سیاست اور سماج کو تقسیم کرناٹھہری۔

اس سے نظریاتی سیاست ،سیاست برائے خدمت اور عوام کی نمائندگی کے دعووں والی سیاست کے چھوٹے موٹے اثرات کا بھی خاتمہ کرکے سیاست کو براہ راست ایک کاروبار میں بدل دیا گیا۔سیاست کرنے والا بھاری سرمایہ کاری کرکے ہر حال میں الیکشن جیتتا ہے اور پھر سیاست کے ایوانوں کو اپنے منافعوں کے حصول کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔بلدیاتی سطح پر اس قسم کی نفسیات اور ثقافت کے فروغ سے نظریاتی اورمالی بدعنوانی کو گراس روٹ لیول تک پوری گہرائی سے سرائیت پذیر کردیا گیا ہے۔

اس صورتحال سے بلدیاتی ادارے گراس روٹ لیول تک کے مسائل حل کرنے سے قطعی طور پر قاصر ہوکر ’سیاسی کاروباری حضرات ‘کے ٹھیکوں اورمالی مفادات کے” لانچنگ پیڈ “بن کررہ گئے ہیں۔بلدیاتی اداروں سے تربیت یافتہ سیاسی عناصر پچھلے چھتیس سالوں سے صوبائی اور قومی سیاست کے ایوانوں میں ”بلدیاتی نفسیات“ کے ساتھ حاوی ہوچکے ہیں۔ ذاتی مفادات کے کنویں میں پروان چڑھنے والی سوچ‘ قومی ،ملکی یا مشترکہ عوامی مفادات کو دیکھنے کے لئے منڈھیر تک نہیں پہنچ سکتی اور واپس’ذاتی مفادات‘کے اندھیرے کنویں میں گرجاتی ہے۔

یوں بظاہر ایک ’سیاسی عمل‘ غیر سیاسی سماج ،ذاتی مفادات یا ”کاروباری سیاست “کی تشکیل کا کام کررہا ہے۔موجودہ بلدیاتی الیکشن ،عوامی سرگرمیوں کے حوالے سے بے زاری سے بھرپورہے۔ الیکشن کی گہماگہمی صرف امیدواروں کے دفاتر اور انکے ”فل ٹائمرز“تک محدود ہے۔عام آدمی کی عدم دلچسپی ‘سابق بلدیاتی کونسلرز،ناظمین اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور لوٹ کھسوٹ کے مشاہدوں اور تجربات کا ردعمل ہے۔

جن انتخابات سے عام لوگوں کے معیارزندگی میں کوئی مثبت بدلاؤ نہ آئے ،ان کا وہ حصہ کیوں بنیں؟یہ بات کسی پراپگنڈے سے عام شعور کا حصہ نہیں بنائی جاسکتی بلکہ عوام کی اکثریت اپنے علمی تجربات سے یہ سیکھ کر ”سیاسی عمل “ سے لاتعلق ہوچکا ہے۔عام طور پر الیکشن کے امیدواران جانے پہنچانے لوگ ہیں۔ان کا ماضی ان کے کردار کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے۔

یہ گراوٹ کی انتہا ہے کہ سماج میں نمایا ں ہونے کے لئے تعمیری،مثبت،عوامی اور نظریاتی کردار کی بجائے ناپسندیدہ اوصاف ‘وجہ شہرت بنیں۔موجودہ بلدیاتی الیکشن بظاہر جماعتی بنیادوں پر ہیں مگر ان انتخابات نے سیاسی پارٹیوں کے اندر موجود تضادات کو اجاگر کرنے کا کام کیا ہے۔امیدواران کونسلرز،چیئرمین وغیرہ کی اتنی لڑائی مخالف پارٹیوں ا ور امیدواروں سے نہیں ہے جتنی خود اپنی پارٹیوں کے اندرہے۔

چونکہ تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں نظریات کی بجائے ”نظریہ ضرورت“ اور عملیت پسندی کی سوچ پر استوار ہوچکی ہیں اس لئے ان کے پاس کارکنان اور لیڈروں کی تربیت کے لئے کوئی لائحہ عمل ہے اور نہ ہی جذبہ قربانی ،ایثار اور باہمی محبت اور وحدت کی ترغیب کے لئے کوئی نسخہ کیمیاء موجود ہے۔ایک ایک پارٹی کے اندر کئی کئی پارٹیاں بن چکی ہیں جسکا اظہار صرف فیصل آباد میں رانا ثنا اللہ اور چوھدری شیر علی گروپ کی شکل میں ہی نہیں ہوا ہر شہر اور قصبے میں یہی کیفیت حاوی ہے۔

کاروباری مفادات اورمزیدسرمائے کے حصول کی جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔کالے دھن کے سماج اور سیاست میں رس بس جانے کی وجہ سے وہ اخلاقی قدریں بھی دم توڑچکی ہیں جن کا ذکر کتابوں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ایک اور کشمکش مستقبل قریب میں جنم لے کر سیاسی انارکی اور خلفشار میں اضافے کا باعث بنے گی جب بلدیاتی اداروں پر’ منتخب‘ افراد ایڈمنسٹریٹرز کی جگہ پر کام کرنا شروع کریں گے۔

سیاسی اجارہ داری کی جنگ‘ صوبائی اورقومی اسمبلی کے اراکین،وزراء اور نئی بلدیاتی قیادتوں کے مابین چھڑے گی۔اگر چہ بظاہر اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے دائرہ کارمختلف اور تعین شدہ ہیں مگر فنڈز اور اختیارات کے ساتھ ساتھ نئے سیاسی مراکز کی طرف لوگوں کے رخ کرنے سے پرانے اجارہ داروں کو سیاسی سے زیادہ نفسیاتی اور معاشی ضعف پہنچنے کا اندیشہ‘ انہیں برہم کرنے کا باعث بنے گا۔

اسی وجہ سے اسمبلیوں میں موجودتمام سیاسی وارلارڈز نے اپنے اپنے علیحدہ گروپ تشکیل دیے ہیں تاکہ اسمبلی کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں پر بھی انکا کنڑول مضبوطی سے قائم رہے۔اراکین اسمبلی اور وزراء کی تحصیل اور ضلعی چیئرمین کی تجویز کردہ فہرستیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان عہدوں پر ’ڈمی قسم‘ لوگ فائز ہوں تاکہ انکی بالادستی قائم ودائم رہے۔

مگر ماضی کے تجربات ثابت کرتے ہیں کہ تحصیل اور ضلعی ناظمین کچھ عرصہ کے بعد پرپرزے نکال کر اسمبلیوں کے لئے ”متبادل امیدوار“ بن جاتے ہیں۔یہی تضادات اور حقائق مستقبل کی سیاسی رسہ کشی کی راہ ہموار کریں گے۔ بلدیاتی انتخابات کا اہم نقطہ اسکا غیر سیاسی کردار ہے،کوئی امیدوار اہم معاشی،معاشرتی معاملات پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

قسمیں اٹھا اور اٹھوا کر ووٹ لیاجاتا ہے اور ہر قسم کے کام کرنے کے لئے خود کو پیش کیا جاتا ہے اور کاموں سے مراد تھانہ اور کچہری کے معاملات ہوتے ہیں نہ کہ پینے کے صاف پانی،نکاسی آب،تعلیم اور صحت کے اہم معاملات اور شہری منصوبہ بندی سے متعلق نئے خیالات ۔آبادی کی غربت اورپسماندگی کے خاتمے ،صفائی اور صحت مندزندگی کے لئے طریقہ ہائے کارکے نقاط پر بات کرنے کو پاگل پن قراردیا جاتا ہے،کیوں کہ اس بحث کا آغاز ہوسکتا ہے کہ غربت اور پسماندگی کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں اورکیا اس نظام میں اس کا حل موجود ہے ؟ اگر نہیں ہے تو کیا یہ نظام تو زائد المعیاد نہیں ہوگیا،اور اگر یہ نظام متروک ہوکر آبادی کے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی حل نہیں کرسکتا تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بحث کا آغاز ہوسکتا ہے۔

یہ بحث چل نکلی تو پھرگیند موجودہ حکمران طبقے کے چھوٹے اور بڑے حصوں سے نکل کر عام لوگوں،مزدوروں ،کسانوں ،طلبہ اور آبادی کے اکثریتی حصوں کی طرف آسکتی ہے،پھر لوگ حقائق سے واقف ہوسکتے ہیں،عام لوگ کس قسم کی سازشوں کا شکار ہیں یہ بات عام ہوسکتی ہے،غربت کے خاتمے کی راہ میں راہنما کہلانے والے ’سیاسی بازیگر‘ کتنی بڑی رکاوٹ ہیں اس راز کا بھانڈہ پھوٹ سکتا ہے،شہری آبادیوں کو پینے کا صاف پانی کیوں نہیں فراہم کیا جارہا ؟ یہ قضیہ بھی بے نقاب ہوسکتا ہے؟غریبوں کے بچے بے روزگار کیوں ہیں اور انکی بے روزگاری میں عالمی مالیاتی ایجنسیوں کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے والے وہی لوگ ہیں جن کو ”عوامی نمائندگان“ کہا جاتا ہے ،اس بھیانک راز سے بھی پردہ اٹھ سکتا ہے۔

اسی خطرات کے پیش نظر حکمران طبقے کے سارے حصوں کی کوشش رہتی ہے کہ ”سیاست کو غیر سیاسی“ بنا دیا جائے۔نظریات کی بجائے نظریہ ضرورت کو رائج رکھا جائے۔ایشوز کی بجائے نان ایشوز کے گرد بین بجاکرکھیل تماشے جاری رکھے جائیں۔لوگوں کی دلچسپی اس نظام اور اسکے اداروں سے گھٹتی جارہی ہے۔غیر نظریاتی سیاست سے لوگ جب بددل ہوتے ہیں تو ایک طے شدہ سازش کے تحت اسی نظام کے دوسرے محافظوں کی’ وردی‘ کی تعریف کرکے کچھ عرصہ کے لئے پھر ”میرے ہم وطنو!“ کے نعرہ کے گرد نام نہاد احتساب کا ناکام ونامراد کھیل شروع کردیا جاتا ہے۔

گڈ گورنس کے نام پرسارے برے کام کئے جاتے ہیں۔شفاف انتخابات کے وعدوں اور نعروں کے بعد وہی بوسیدہ ،گھسے پٹے نظام کے رکھوالوں کو ”سیاسی انکو بیٹر“ سے نکال کر میدان میں لایا جاتا ہے ۔پہلے مرحلے میں بلدیاتی اداروں سے یہ ٹیم تیار کی جاتی ہے۔اس دفعہ یہ بلدیاتی الیکشن براہ راست فوجی حکومت کی بجائے متحرک اور پس پردہ فوجی حاکمیت کی فسوں کاری کے دوران کرائے جارہے ہیں۔

اندا ز اور اطوار وہی ہے۔لوگ بھی وہی ہیں اور طریقہ کار بھی وہی ہے۔ مگر ان تمام سیاسی اور غیر سیاسی چالبازیوں،جیت ہار،مقابلوں اور مہمات کا دائرہ عوام اور محنت کش طبقے سے بالاہی ہے۔حکمران طبقے اور عام لوگوں کے مابین فرق ہرروز بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ فرق اب زمین پر دکھنے بھی لگ گیا ہے۔لوگ حکمران طبقے کے سیاسی اور غیر سیاسی تماشوں سے الگ تھلگ کھڑے ہیں۔ابھی چپ،ساکت اور بے حرکت،مگر کب تک؟یہ خاموشی ٹوٹے گی،جتنی تاخیر سے اتنی ہی شدت سے۔پھر سب کچھ بدل کر رہ جائے گا۔دھرتی اسی دن کے انتظار میں یہ کھیل تماشے دیکھ رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :