نجیب بالاگام والا اور حبیب جالب

اتوار 29 نومبر 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

کیا خوب فر مایا تھا واصف علی واصف نے: ”دوست وہ ہو تا ہے جو خوشی کو زیادہ کر دے اور غم کو کم“۔ بلا شبہ انسان کو زندگی میں ایک دوست ایسا میسر نہ ہو تو زندگی کسی عذاب سے کم نہ ہو ۔ زندگی کی نہ ختم ہونے والی مصروفیات جس کے نتیجے میں انسان اپنے آپ سے بھی دورہو کر کود کو بھلا چکا ہوتا ہے ، دوستوں کی موجودگی اور ان کے ساتھ گذرے لمحات انسان کو پھر اپنے ماضی کی یاد دلاتے ہیں ، خوبصورت اور شاندار لمحات ، جب نہ تو زندگی کی پریشا نیوں کا کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ ستاتا ہے۔


ایسے ہی دوست، مربی اور محسن خالد یعقوب صاحب میری زندگی کا وہ قیمتی اثاثہ ہیں کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔وہ خوبصورت اور خو ب سیرت انسان ہو نے کے ساتھ پکے اور سچے مسلمان بھی ہیں ۔

(جاری ہے)

ہر کوئی ان کی محفل میں بیٹھ کر سکون قلب پا تا ہے اور ان کے پاس گذرہ ہر لمحہ انسان کو مایوسیوں کی گہری دلدل سے نکال کر امید اور یقین کے سمندر میں غوطہ زن کر تا چلا جا تا ہے۔

اسی لئے تو رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فر مایا:”صالح آدمی کے پاس بیٹھنے والوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو مشک والے کے پاس بیٹھا ہے ، اگر مشک نہ بھی ملے تب بھی مشک کی خوشبو سے جسم و جاں معطر اور دماغ کو فرحت و سرور حاصل ہو گا“۔ ان کا ایک اور کمال یہ ہے کہ ان کا کوئی بھی دوست صرف ان کا دوست نہیں رہتا بلکہ ان کے حلقہ احباب میں شامل ہر شخص اُس کا دوست ہو جا تا ہے اور یوں مخلص اور نیک دوستوں کا سلسلہ بڑھتا چلا جا تا ہے ۔


نجیب بالاگام والا ، کا شمار بھی ان ہی دوستوں میں کیا جا تا ہے جنہیں خالد صاحب نے متعارف کرایا۔میمن برادری سے تعلق رکھنے والایہ شخص انتہائی کاروباری انسان ہو نے کے ساتھ نیک دل اور جذبہ ایماندای کی تما م تر صلاحتیں اپنے اندر سموئے ہوئے مخلوق خدا میںآ سانیاں تقسیم کر نے کے عظیم مشن پر گامزن ہے۔ صرف میں ہی نہیں ،بلکہ پاکستان کا بچہ بچہ اِن کے اور ان کے خاندان کا مقروض ہے جب آج سے 68سال پہلے1946 کی انتخابی مہم کے لئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  کو پیسہ در کار تھا اور جس کے لئے وہ گجرات کے قصبے بانٹوا پہنچے ،نجیب صاحب کے دادا،جو اُس وقت معروف کاروباری شخصیت تھے نے ایک کثیر رقم کا بندوبست کر کے بانی پاکستان کے سپرد کی۔

پاکستان بنا تویہ بھی تما م خاندان والوں کے ساتھ کراچی چلے آئے اور پھر بھارت کے ساتھ ساتھ کراچی میں بھی کاروبار شروع کیا ۔ کچھ دنو ں بعد جب بھارت میں موجود ان کے دفتر کے عملے کو بھارتی حکو مت کا بھیجا ہوا نوٹس موصول ہوا جس میں انہیں 3لاکھ روپے ٹیکس ، جو سونے کی قیمت کے حساب سے جو آج کے80کروڑ بنتے ہیں کا نادہندہ قرار دیا گیا تھا ۔فوری رقم کا بندو بست کیا اور دہلی پہنچے ۔

کہا:رقم وصول کر کے رسید دیجئے، تاکہ اپنا کاروبار سمیٹ کر پاکستان پہنچوں۔ دہلی کا گور نر بھا گتا ہو اآیااور بولا: ہمارا مقصد ٹیکس وصولی نہیں بلکہ پاکستان منتقلی سے روکنا تھا۔معذرت ، معافی ،تلافی اور بڑے بڑے وعدوں کے بعد بھی داداجی نہ ما نے اور انکار کر تے ہوئے بولے:”کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ پاکستان صرف میرا وطن ہے بلکہ یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے ۔

صرف کاروبار کے لئے میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟
قارئین ! لاہو کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں منعقدہ انٹر نیشنل کول کانفرنس میں جب پوری دنیا سے ماہرین مختلف قسم کی بولیاں بول رہے تھے اس موقع پر بھی نجیب صاحب کی گفتگو اللہ اُس کے رسول ﷺ اور پاکستان کے قریب گھومتی رہی۔ تقریب سے فارغ ہونے کے بعد جب ذاتی گفتگوکا سلسلہ شروع ہوا تو اپنے مخصو ص انداز میں حبیب جالب کی شاعری گنگنا تے رہے اور کافی دیر تک اس پر بات ہوتی رہی پھر جس کا نشہ اتنا چڑھا کہ گھر جا کر رات دیر تک حبیب جالب کی مختلف نظمیں دیکھتا رہا اور بالآخرایک نظم کے ان شعروں پر آکر رک گیاجو انہوں نے نام نہاد خلیقہ المسلمین جنرل ضیا ء الحق کے لئے کہے ۔


ایک نظر اپنی زندگی پر ڈال
ایک نظر اپنے اردلی پر ڈال
فاصلہ خود ہی ذرا کر محسوس
یوں نہ اسلام کا نکال جلوس
قارئین کرام ! میں جب سے اب تک ان شعروں کی سحر میں جکڑا ہو اہوں اور ساتھ ان سوچوں میں بھی گم ہوں کہ چار عشروں پہلے حبیب جالب کی زبان سے نکلے یہ الفاظ اب بھی اسُی طرح زندہ ہیں ۔ آج بھی اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلوانے والے، اسلامی نظام اور خلافت کے نفاذ کے بلند و با لا دعوے کر نے والے لوگ، خود اپنے ملازمین کے ساتھ کیا رویہ اختیار رکھتے ہیں ؟مجھے اس کا بخوبی اندازہ ہے ۔

کیا ہی اچھا ہو کہ بقول جالب: یہ لوگ اپنے اور اپنے اردلی کے درمیان فرق کو خود ہی محسوس کریں اور پھر اسلام کا جلوس نکالنے کی بجائے منافقت کے لبادے کو ایک طرف پھینکتے ہوئے انسان کو انسان سمجھتے ہوئے ان کے حقوق پورے کریں ۔کچھ بعید نہیں کہ پھر جس کے نتیجے میں بغیر کوئی نعرہ لگائے ایک اسلامی اور فلاحی ریاست ہمارا مقدر نہ ٹہرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :