صحافت ،بھارت بمقابلہ پاکستان

منگل 1 دسمبر 2015

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

پاکستان ملٹری اکیڈمی کا کول سے نکالے گئے ایک کیڈٹ جو آج کل صحافت اور دانشوری کے لبادے میں کسی نہ کسی صورت فوج پر تنقید کرنے اور شائد اپنے آپ یا پھر نون لیگ کو خوش کرنے کا جتن کر تے رہتے ہیں ۔ آپ کو فوج سے کیوں نکالا گیا؟ جبکہ آپ کے کالم کے مطابق آپ کے والد محترم بھی فوج میں کرنل تھے۔ جنہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں شاباشی کے طور پر شیونگ کٹ ملی بھی تھی۔

آپ نے فوج سے نکالے جانے کی وجہ آرام طلبی اور صبح دیر تک سونے کی عادت لکھا ہے۔ الفا، بریوو، چارلی ، ڈرامہ جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ ملٹری اکیڈمی کی زندگی کی چند جھلکیوں سے واقف ہیں۔ ڈرامہ یا ڈاکو منٹری محض تعارفی اہتمام ہوتا ہے جو حقیقت کا ترجمان نہیں ہوسکتا ۔ملٹری اکیڈمی کی اصل زندگی کیا ہے وہ ایک افسر ہی بیان کرسکتا ہے انتہائی تکلیف دہ ، پر مشققت اور ڈسپلنڈزندگی میں نیند، بھوک ، پیاس اور آرام نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی یہ زندگی ملٹر ی اکیڈمی کے بڑے آئینی دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی شروع ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)

کیڈٹ کی تکلیفوں ، مشقتوں اور ڈسپلن کا خیال سینئر کیڈٹ ، کیڈٹ عہدیداران ، ڈرل سٹاف، پی ٹی سٹاف اور دیگر فوجی تعلیمات سے روشناس کروانے والا سٹاف رکھتا ہے۔ ملٹر ی اکیڈمی واحد ادارہ ہے جہاں سپاہی سے لیکر جرنیل تک کے بیٹے کو ایک ہی سانچے میں ڈھالا جاتاہے۔ ملٹر ی اکیڈمی سے مسترد ہونے کی صرف چار وجوہات ہیں۔ اول ڈرم آؤٹ جو کہ ایک بد نما داغ ہے اور سخت ترین سزا ہے۔

ایسے کیڈٹ ہمیشہ منہ چھپا کر رکھتے ہیں چونکہ اُ ن کے کیڈٹ ساتھی بھی انہیں پسند نہیں کرتے ۔ دوئم بورڈ آؤٹ جو کہ بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے جس پر کسی کا زور نہیں ہوتا ۔ فوج بھر پور کوشش کرتی ہے کہ کیڈٹ کا بہتر سے بہتر علاج ہو اور بعض اوقات ایسے مریضوں کو چھ ماہ یا سال کا وقفہ بھی دیتی ہے ۔ کہ وہ تندرست ہو کر سال بعد پاس آؤٹ ہو سکے مگر کبھی آسانی سے اپنے محب الوطن سپاہی کو اپنے سے جدا نہیں کرتی ۔

اسطرح کے کیڈٹوں میں جسمانی لحاظ سے یا پڑھائی میں کمزور کیڈٹ بھی شامل ہوتے ہیں۔ تیسری قسم کک آؤٹ ہے جس میں کردار کی کمزوری ، جھوٹ، نقل اور دوسری موروثی اور نفسیاتی بیماریاں ہیں جو آجکل ہمارے ملک کے بہت سے سیاستدانوں ، صحافیوں او ر دیگر عہدیداروں اور حکمرانوں کو لاحق ہیں۔ فوج میں بھی کچھ فنکار کسی نہ کسی طرح پاس آؤٹ ہو کر آجاتے ہیں مگر کبھی بچ نہیں سکتے یہ اور بات ہے کہ اُن جیسے حکمران اور سیاستدان اپنے ہم جنسوں کو پہچان کر اُس سے دوستیاں کر لیتے ہیں اور پھر یہ طبقہ ملکر کر کرپشن اور دیگر برائیوں کو فروغ دیتا ہے۔


پچھلے دنوں کچھ اینکرز نے ملٹری اکیڈمی کاکول اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نبردآزما فوجی یونٹوں پر پروگرام کئے ہیں جوکہ محض تعارفی پروگرام تھے۔ ملک کے یہ نامور صحافی اور اینکراس بگوڑے صحافی کے بیان پر بہترتبصرہ کر سکتے ہیں ۔ کہ سوائے اس کے پاکستان ملٹر ی اکیڈمی کے کسی بھی کیڈٹ کو نیند اور سستی کی بیماری لاحق نہیں ہوتی اور تو اور یہ بیماری خواتیں (کیڈٹوں ) کو بھی نہیں لگتی اور وہ بھی چاق و چوبند اور ہر لمحہ تیار اور الرٹ رہتی ہیں۔

ان جناب کے ساتھ جو بھی معاملہ ہوا وہ اچھا نہ ہوا، ورنہ بقول ذوالقدر خان کے اُن کے قلم سے اخبار کے کاغذ پر بکھری سیاہی میں فوج کے خلاف بدبودار اور بغض سے بھرپور میٹریل نہ ہوتا ۔
5اکتوبر کے ” ایک چائے والا اور کشمیر سیب “ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں آپ نے بھارتی درندہ صفت وزیراعظم نرندر مودی کو چائے والا اور وزیراعظم پاکستان محترم نواز شریف کو کشمیری سیب سے تشبیہ دی ہے مگر طنز پاک فوج پر کیا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے انگریزی اخبار نیوز میں ایک کالم بعنوان ”اے ونڈر فل ٹی بوائے “ کے عنوان سے آیا تھا جو کہ ہر لحاظ سے ایک عمدہ کالم تھا۔ اس کالم کی مفصل تشریح حضرت میاں محمد بخش  کے اس شعر میں پہنا ں ہے ۔ آپ لکھتے ہیں
” کج پرواہ نی در اسدے تے دائم بے پرواہی ۔ بادشاہاں تھیں بھیک منگائے تخت بٹھائے کاہی “
چائے والا ہو یا کشمیری سیب کی طرح سرخ و سفید چہرے والا ، دونوں ہی تقدیر کے دھنی ہیں اور اپنی اپنی قوم اورملک کے لیے گونا ں گوں مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔

مگرجنا ب کے اس کالم میں چائے والے مودی اور کشمیری سیب میاں نواز شریف کا ذکر در اصل کالم نگار کی منتشر الخیالی اور بوکھلاہٹ ہے جبکہ اصل ہدف پاک فوج اور آئی ایس پی آر ہیں۔
لکھتے ہیں بھارتی میڈیا جیسے ہاتھی کو قابو کرنے کے لیے توان کی پوری فوج یا انکا سربراہ بھی کافی نہیں ، کم از کم ایک اور کور کمانڈر کی سطح کا بھارتی جرنیل ہی اپنے قومی میڈیا کو قابو کرنے کے لیے ہونا چا ہیے۔

۔ کیا اس فقرے میں عقل و دانش کی کوئی بات ہے ؟ اگر بھارتی آرمی چیف اپنے میڈیا کو کنٹرول نہیں کرسکتا تو ایک کور کمانڈر کیسے کر یگا ؟ کیا کور کمانڈر یا آرمی چیف میڈیا کنٹرولر ہیں؟میڈیا ایک الگ چیز ہے اور فوج الگ ! میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر ملک میں قوانین ہیں اور میڈیا ایک قومی پالیسی کے تحت کام کرتا ہے۔ میڈیا خود بخود جھاڑیوں کی طرح زمین سے نہیں اُگتا بلکہ حکومتی اجازت سے اور ایک پالیسی کے تحت کام کرتا ہے۔

جہاں تک بے لگام میڈیا کا تعلق ہے تو یہ بھی حکومتی آشیر باد اور حکمران طبقے کی بد نیتی کا عکاس ہوتاہے۔ پاکستان کے بہت سے صحافی ، اینکر ، دانشور اور سیاستدان بھارت نواز ہیں اور پاکستان میں بیٹھ کر بھاریتوں سے بڑھ کر بھارتی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں تو کیا انہیں روکنے کے کیے کسی کور کمانڈر کی ضرورت ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان کا منہ بند کرنے کے لیے قانون کو حرکت میں آنا چائیے مگر ایسا نہیں ہورہا ۔

جناب اگر بھارتی ، امریکی ، برطانوی یا پھر کسی دوسرے ملک کے میڈیا کو دیکھیں تو وہاں کسی صحافی یا اینکر کو جرات نہیں ہوتی کہ وہ آپ جناب جیسی تحریر لکھیں ۔ یا پھر چاڑہ صاحب کی طرح بھارتی موقف کی تائید و حمائیت کریں دنیا میں کسی بھی ملک کا وزیر اطلاعات ونشریات یہ اعلان نہیں کرتا کہ وہ قلم والے کے ساتھ ہے بندوق والے کے ساتھ نہیں ۔ وزیراطلاعات کو قلم اور بندوق کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے کہ قلم کی حفاظت بندوق سے ہوتی ہے پھبتیاں کسنے یا فقرے باز ی سے نہیں ۔

قلم اظہار کا ترجمان اور قومی مفادات کا دشمن بن جائے تو اسے توڑنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ قلم کسی سازشی کے اور بندوق دہشت گرد کے ہاتھ میں ہو تو نہ صرف ایسے قلم اور بندوق بلکہ ہاتھ کوتوڑ نا بھی جائز ہو جاتاہے ۔
کیا ہمارے ملک کے خود ساختہ تجزیہ نگار یہ بتا سکتے ہیں کہ دنیا کا کوئی میڈیا ہاؤس اور اُس سے متعلق صحافی اور اینکر سولہ گھنٹے تصویر کے مختلف رخ دکھا کر اپنے ہی ملک کے اہم جرنیل کی توہین کرنے کی جرات کرسکتے ہیں؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں وہاں کے مذہبی پیشوا یا پیغمبر جسکے وہ ماننے والے ہیں کی توہین پر مبنی پروگرام نشر ہوتے ہیں ۔

کیا دنیا میں کوئی میڈیا ہاؤس دہشت گردوں کے پیغامات نشر کرتا ہے؟ اور وہاں کے بڑے صحافی اور اینکر بیت اللہ اور حکیم اللہ کے خطوط پر فخر یہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں ؟ کیا دنیا میں کوئی دہشت گرد جس کے ہاتھ اپنی ہی فوج کے جوانوں کے خون سے رنگے ہوں ملک کے وزیراعظم کا خا ص الخاص آدمی ، ایک بڑے صوبے کا وقتی وزیراعلیٰ اور پھر اہم عہدیدار ہوسکتا ہے؟ ایسے لوگ تو پھانسی گھاٹ پر ،فائیر نگ سکاڈ کے سامنے یا پھر جیلوں میں ہوتے ہیں مگر پاکستا ن ایک ایسا ملک ہے جہاں پھانسیاں ، گولیاں اور جیلیں صر ف عام لوگوں کے لیے ہیں اور شتربے مہار میڈیا بیان کردہ لوگوں کا ترجمان اوراغیار کی زبان ہے۔


جہاں تک بھارتی میڈیا کا تعلق ہے تو وہ اپنی حکومتی پالیسی کے تحت پاکستان ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کامیاب پراپیگنڈہ چلا رہا ہے جسے وہاں کے عوام ، افواج ، حکومت اور اہل دانش کے علاوہ دنیا بھر کے پاکستان ، اسلام ، مسلمان اور افواج پاکستان کے مخالفین کی مالی ، اخلاقی اور سیاسی امداد حاصل ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ امن کی آشا ، بیک ڈور ڈپلومیسی ، کلچر اورکرکٹ کی دیوانگی کی آڑ میں پاکستانی میڈیا کا بڑا حصہ اور اس سے منسلک صحافی ، دانشور ، کھلاڑی ، بیوپاری اور قوم پرست جماعتوں کے لیڈ ر بھی بھارتی میڈیا کی پذیرائی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

جناب سے کوئی پوچھے کہ کیا کبھی کسی بھارتی ٹی وی چینل نے بھارتی فوج کے خلاف وہاں کی حکومت کی آشیر باد سے پراپیگنڈہ مہم چلائی ہے ؟ اگر حکومت ایسا کرتی تو بھارتی عوام ایسی حکومت کو چلتا کرتی اور صحافیوں اور اینکروں کو شمشان گھاٹ چھوڑ آتی۔
آگے چل کر دانشور صحافی اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کے دعویدار میڈیا ہاؤس سے منسلک اینکر لکھتے ہیں کہ ایسے پاکستانی فوج کے ترجمان کی کور کمانڈر یعنی لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے بعد بھارتی فوجی ترجمان یقینا عدم تحفظ کا شکار ہو کر اپنے ہیڈ کوارٹر سے مزید کمک کے طلبگار ہونگے آخر ایک بریگیڈ ایک کور کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان دفتر کو میڈیا کو ر کادرجہ دینے کی خبریں بھارتی دفاعی منصوبہ سازوں کو پریشان تو ضرور کرتی ہونگی ۔ اس سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل فقرے میں آپ نے ناں ؟ نہیں لکھا حالانکہ آپ کی اداؤں اور گرجدار طاقتور بلکہ لرزہ خیز آواز کے ساتھ ناں؟ کا اضافہ بہت ہی موزوں لگتا ہے۔
جیسا کہ آپ نے خود اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ آپ کا تعلق فوجی گھرانے سے ہے اور آپ خودبھی ملٹری اکیڈمی سے مسترد شدہ یعنی ڈرم آؤٹ ، تھراؤن آؤٹ یا پھر کک آؤٹ قسم کے کیڈٹ ہیں جس کی وجہ آپ نے سستی ،کاہلی او رشہزادوں والی نیند وغیرہ بتائی تھی ناں؟ تو آپ کو اتنا توپتہ ہو گا کہ لیفٹینٹ جنرل ، کور اور کو ر کمانڈر کیا ہوتا ہے۔

ضروری نہیں کہ ہر لیفٹینٹ جنرل کور کمانڈر ہی ہو ، ہر کور ایک میدان جنگ میں لڑنے والی یعنی جنگی ڈویژنوں پرمشتمل کور ہو یاپھر ایک ہی پٹیرن اور ایک ہی کام کے لیے مطلوب کور ہو آپ کا بوکھلا ہٹ اور کچھ بزدلی پر مبنی یہ کالم پڑھ کر فوج کی سلیکشن سسٹم اور پرکھ کرنے کے طریقے کار کو دادد یتا ہوں کہ وہ اکیڈمی سے ہی ناکارہ جڑی بوٹیوں کو تلف کر کے بہتر فصل پروان چڑھاتی ہے ۔

شائد پھر بھی کچھ اکا دکا آپ جیسے عقلمند اور دانشور بارقی رہ جاتے ہیں جو آگے چل کر اس قابل فخرادارے کے لیے بد نامی کا باعث بنتے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ اکیڈمی میں وارد ہوتے ہی آپ کو تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب مختلف حربی موضوعات پر مشتمل چھوٹی بڑی کتابیں ملی ہونگی اور جب آپ کو اکیڈمی سے نکالا گیا ہوگا تو آپ نے یہ ساری کتابیں واپس جمع کروائی ہونگی ۔

ان کتابوں میں ایک کتا ب کا نام گلوسری آف ٹرمز بھی ہوگا جس میں مختلف ملٹری اصطلاحات کی تشریح ہوتی ہے ۔ آپ کو بھی سستی ، کاہلی اور نیند کے غلبے سے فراغت ملی ہو تو آپ نے شائد اس کتاب پر ایک نظر ڈالی ہوگی اور یقیناًکور اور کور کمانڈر جیسے الفاظ آپ کی نظر سے گزرے ہونگے ۔ چونکہ آپ انتہائی مصروف صحافی ہیں اس لیے آ پ کی مدد کر دیتے ہیں کہ کور ایک وسیع تر معنوں میں استعمال ہونے والا لفظ ہے جس کے مطابق اس کے کئی معنی ہیں۔

جیسے کور کمیٹی ، ہارڈ کور ، کور ایشو ، وغیرہ فوجی نقطہ سے دیکھیں تو تین یا تین سے زیادہ فوجی ڈویژنوں اور مختلف امدادی یونٹوں پر مشتمل فوج کے بڑے حصے کو کور کہا جاتا ہے جسکا کمانڈر لیفٹینٹ جنرل کے عہدے کا فوجی افسر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے کور بھی ہوتے ہیں جیسے آر مڈ کور ، سگنل کور جسکا آپ سے تعلق بیان ہوا ہے ۔ جو آپ نے خود کیا ہے آرٹلری کور ، انجینئر کور ، سپلائی کور اینڈ ٹرانسپورٹ کور وغیرہ جو پیشے ، مہارت اور دیگر ٹیکنیکل ضرروتوں کے مطابق لڑنے والی کور کا حصہ اور مدد گار یونٹیں ہوتی ہیں ۔

میدان جنگ میں ان کی کوئی الگ حیثیت نہیں ہوتی اور نہ ہی الگ سے ان کا کور کمانڈر ہوتا ہے ۔یاد آیا ناں؟
اس کے علاوہ فوج میں کلریکل کور، ایجوکیشن کور ، میڈیکل کور بھی ہے۔ اگر آپ بچپن میں بیمار پڑے ہوں یاشائد اب بھی آپ کی طبیعت پر سوچ و چار کا بوجھ آتا ہو تو یقینا آپ مفت سہولت کے لیے ایم ایچ ضرور جاتے ہونگے ناں؟وہاں بہتر سے بہترڈاکٹر بھی لیفٹینٹ جنرل سے لیکر جنرل تک سب کو ملتے ، پیار سے بات کرتے اور علاج کرتے ہیں ۔

آپ لکھتے ہیں کہ پاک فوج کے ترجما ن کی لیفٹینٹ جنرل کے عہد ے پر ترقی یعنی کور کمانڈر۔۔۔کیا یہ آپ کا ذہنی دیوالیہ پن نہیں ؟ فقرے کا یہ حصہ سوائے بغض اور ناقص اُلعقلی کے علاوہ کچھ نہیں کہ آپ کو ہر لیفٹینٹ جنرل کو رکمانڈر ہی لگتا ہے ۔ آپ جتنا جلدی ہوسکے کسی ڈاکٹرلیفٹینٹ جنرل جو ماہر نفسیات بھی ہو اس سے ملنا چاہیے تا کہ آپ کو لیفٹینٹ جنر ل اور کورکمانڈر کا فرق معلوم ہو سکے۔

آپ نے بھتوری مارتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارتی چیف وہاں کے فوجی جوانوں کے جنازوں میں شریک نہیں ہوتا ، ٹی وی چینل اُسے لفٹ نہیں کرواتے ، وزیراعظم سے نہیں ملتا کیا سوچ ہے آپ کی اور کیا وژن ہے کہ آپ کو پاکستان کے حالات کا بھی پتہ نہیں ۔ بھارت دہشت گردی پھیلا رہا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا ۔ ہندوؤں کے جنازے بھی نہیں ہوتے انہیں جلایا جاتا ہے ۔

آپ لکھتے ہیں کہ آرمی چیف نہ قبرستانوں ، شمشان گھاٹوں ، چرچوں اور گنگا پر جاتا ہے۔ اگر آپ میں جرات ہوتی تو آپ کھل کر بات کرتے چونکہ آپ کا یہ طنز پاکستان کے آرمی چیف پر ہے۔ بھارت چھوت چھات اور انسانی درجات کا ملک اورمعاشرہ ہے جہاں اچھوتوں اور دلتوں کو جن کی کل آبادی بائیس کروڑ ہے کو آخری درجے کا انسان اور بعض حیوانات سے کم درجے کا حیوان سمجھا جاتا ہے۔

بھارتی ہند ومعاشرے اور فلسفے کا مطالعہ کر یں اور محض فوج ، پاکستان اور اسلام دشمنی کی آڑ میں بونگیاں مار کر صحافت جیسے مقد س پیشے کو داغدار نہ کریں۔ میں اس تحریر کی وساطت سے آپ کے میڈیا گروپ کے بزرگ صحافیوں جناب اثر چوہان ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، اسد اللہ غالب ، سعید آسی اور دیگر کالم نگاروں سے درخواست کرونگا کہ وہ آپ کا کالم پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار کریں کہ کیا آرمی چیف کو شہدا ء کے جنازوں میں شرکت نہیں کرنی چاہیے؟ کیا آرمی چیف کو شہیدوں کے اہل وعیال کی دیکھ بھال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

آپ کے میڈیا گروپ کے کالم نگاروں سے یہ بھی درخواست کرونگا کہ وہ یہ بھی بتائیں کہ آرمی چیف کو میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا جائے اور فوج سے متعلق خبر میڈیا پر نہ آئے۔ اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ آخر آپ جیسے صحافی کی پشت پر کون ہے جس کی شیہ پر آپ فوج پر گٹھیا قسم کی تنقید کر کے اپنی خاص ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جناب اسد اللہ غالب اور محترمہ طیبہ ضیا ء وڑائچ سے گزارش ہے کہ وہ آپ کے اختتامی فقرے پر بھی تبصرہ کریں کہ بھارت اور پاکستان کے مابین حل طلب مسائل دونوں ملکوں کے فوجی سربراہوں کے حوالے کر دیے جائیں تاکہ وہ باہم ملاقات میں انہیں حل کر لیں۔

دونوں ممالک میں جیسی بھی حکومتیں ہیں۔ بہر حال اُن پر جمہوریت کا لیبل ہے اور دونوں اطراف وزرائے اعظم ، وزرات خارجہ اور ڈپلومیٹک کور بھی موجود ہے۔ آپ کا کیا پتہ کل کلاں آپ ڈپلومیٹک کور کا بھی کوئی کور کمانڈر ڈھو نڈ کر اُسے آئی ایس پی آر کے دفتر سے منسلک کر لیں۔ غور کریں تو آپ جن کو خوش کرنے کے لیے بھونڈی تحریریں لکھ رہے ہیں در اصل اُن ہی کی تذلیل کر رہے ہیں۔


آپ کی تحریر اور پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ پاکستان آرمی پر بے جا تنقیدآپ کے ادارے پر بھی ایک سوالیہ نشان لگاتی ہے؟ کہ کیا یہ ادارہ واقعی نظریہ پاکستان کا محافظ ہے؟ اگر ہے تووہ آپ جیسے لوگوں کو کنٹرول کیوں نہیں کرتا اور یہ پتہ لگانے میں کیوں قاصر ہے کہ آپ کس کے مقصد اور کس کے مسلک کو پراون چڑھا رہے ہیں۔
جہاں تک میڈیاکور کا تعلق ہے تو یہ وقت کی ضرورت ہے جس ملک میں ایسے صحافیوں کی پوری فوج ملک ، قوم ، فوج اور اسلام پر طنز کے تیر چلانے پر گامزن ہو جائے اور سولہ سولہ گھنٹے بغیر کسی وجہ اور ثبوت کے فوج کو گالیاں دینے کا گھناؤ نا کھیل جاری رکھے وہاں ضروری ہے کہ ملک ، قوم ، فوج اور اسلامی اقدار ، روایات اور تاریخ کی سچائیاں اور حققتیں بتانے والا بھی کوئی ہو۔

پاکستان آرمی ملک کی سلامتی اور بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں اور سیاسی حکمران اسمبلیوں میں کھڑے ہو کر فوج کو گالیاں دیتے ہیں۔ میڈیا ہاؤ سز ان سیاستدانوں کے ماؤ تھ پیس ہیں اور ان کے گالی گلوچ کو جمہوریت کی بقا اور جمہوری قوتوں کی فتح و کامرانی گردانتے ہیں۔
وہ مذہبی سیاسی جماعتیں جن کے قائدین نے پاکستان بنانے کے گناہ میں شرکت نہ کرنے پر خد اکا شکر ادا کیا تھا اور تحریک آزادکشمیر کو بھارت کے معاملات میں مداخلت اور فساد قرار دیا تھا اب اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہیں اور کتوں کو شہید قرار دے رہی ہیں ۔

بھارت کے ایسے وزیر جس نے دلتوں اور اچھوتوں کو کتوں سے تشبیہ دی ہے اس میں اور ہمارے علماء میں کیا فرق ہے ؟ بھارت میں دلت، اچھوت ، بدھ اور دیگر اقلیتوں کے لیے اونچی ذات کے ہندو جس ذہنیت کا اظہار کرتے ہیں پاکستان میں کچھ صحافی اور مذہبی جماعتوں کے اکابرین اُسی طرح کی سوچ ملک کی سرحدو ں کی محافظ پاکستانی فوج کے لیے رکھتے ہیں ۔ بھارت میں کوئی صحافی ، اینکر میڈیا ہاؤس اکھنڈ بھارت ، گاندھی ، نہرو ، گیتا ، مہابھارت رمائن پر تنقید کی جرات نہیں کر سکتا مگر پاکستان میں ڈاکٹر ھود بھائی اور آنجہانی کاؤس جی کو قا ئداعظم ، نظریہ پاکستان ، ملکی دفاعی نظام ، ایٹمی پروگرام اور فوج پر تنقید کے لیے مدعو کیا جاتا رہا ہے۔


جہاں تک بھارتی میڈیا کا تعلق ہے تو وہ اکھنڈ بھارت ، شدھی ، سنگھٹن اور چانکیہ نیتی کے اصولوں کا پر چار کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا اپنی روایات پر قائم ہے جبکہ پاکستان میڈیا بھارتی میڈیاکا ہی حصہ بنتا جارہا ہے۔ کچھ میڈیا ہاؤ سز نہ صرف بھارتی میڈیا کے ہم آواز ہیں بلکہ اُن سے بڑھ کر بھارت کی خدمت کر رہے ہیں ۔ پاکستان ایڈورٹائینزنگ ایجنسیاں ، کاروباری طبقہ ، سیاسی جماعتیں اور دانشور طبقہ نہ صرف بھارت نواز ہے بلکہ ہند و کلچر ، تہذیب اور روایات کو پاکستان میں پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی فلمیں ، فیشن شوز ، ڈرامے ، دستاویزی پروگرام ، کتابیں ثقافتی پروگرام ، بھارتی دانشوروں کے کالم اشتہار ات اور ہندی زبان کے الفاظ کو کچھ ایسے انداز میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ پاکستانی عوام کو بھارتی ثقافتی رنگ میں رنگ دیا جائے اور عوامی کلچر وروایات سے دور ہو جائیں ۔ہر ذی شعور پاکستانی کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :