بازی لے گیا کوئی ہور۔۔۔

جمعرات 10 دسمبر 2015

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

بھارت کی وزیر خارجہ کے پاکستانی دورے اور بات چیت کے حوالے سے دونوں ملکوں کے میڈیا میں بھی ’ریس ‘لگی ہوئی ہے جو بظاہر پاکستانی میڈیا نہیں جیت سکا ، پہلی’ بازی ‘ بھارت لے گیا ہے جس نے وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ کی ملاقات کی ویڈیو نشر کی اور پاکستانی میڈیا نے شکریے کے بغیر یہ فوٹیج استعمال کی ۔ اس سے پہلے جو فوٹیج پاکستانی میڈیا نے چلائی اس میں اندر کے وہ مناظر نہیں تھے جو بھارتی میڈیا نے دکھائے ۔

پاکستانی میڈیا کو فوٹیج وازارتِ اطلاعات نے پی ٹی وی کے ذریعے فراہم کی تھی اس فوٹیج میں ملاقات کے شارٹ تو تھے لیکن بھارتی فوٹیج کی طرح دونوں رہنماؤں کی مسکراہٹوں والے شارٹ نہیں تھے ۔ ہارٹ ایشیا کانفرنس پر پوری دنیا کی نظریں ہیں لیکن پاکستان کے عوام کی نظریں افغانستان سے زیادہ کرکٹ کی بحالی اور مسئلہ کشمیر پر مرکوز تھیں غیر سرکاری اور پاکستانی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ا ن ملاقاتوں میں کرکٹ کی بحالی پر بات ہوئی اور نہ ہی مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی گئی البتہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر بات چیت کی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

ان اطلاعات کی تائید یا تصدیق مشترکہ اعلامیے سے سامنے آسکے گی لیکن اگر نجی میڈیا کی اطلاعات درست ہیں تو اس سے کشمیریوں اور کرکٹ کے شائقین کی دل آزاری ہوئی ہے البتہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر بات کرن اس حوالے سے خوش آئند ہوسکتا ہے کہ وہاں چین کی سرمایہ کاری ہورہی ہے جسے تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے ۔ اگر بھارت سے بلوچستان میں مداخلت کے بارے میں بات چیت کے نتیجے میں امن بحال کرنے میں مدد ملتی ہے تو یہ خوش آئند ہے اور بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات میں معاون بھی ثابت ہوسکتا ہے تاہم یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان کے بلوچی تشخص کے حوالے سے لڑنے والے بلوچ رہنماؤں کا ردِ عمل کیا ہوگا ، وہ اپنی جدوجہد کو بھارتی مداخلت کا حصہ تسلیم کریں گے یا اپنے خلاف کوئی نئی سازش قراردہیں گے اور اس سے مذاکرات کا عممل متاثر ہوگا ؟ یا پھر یہ واضح کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے کہ ان کی جدو جہد بھارتی مداخلت کی وجہ سے بدنام ہورہی تھی ۔


بھارتی میڈیا ابھی ان ملاقاتوں کے بارے میں کوئی رائے زنی نہیں کر رہا ، پونے آٹھ بجے کے قریب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز پریس کانفرنس کیلئے آئے ، سشما سوراج نے مختصر بات کی جس میں دونوں ملکوں میں جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا اور یہ کہہ کر مائیک سے ہٹ گئیں کہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائیگا جو فراہم کردیا جائے گا ۔

اس پر پاکستانی میڈیا نے لٹھ اٹھا لی اور اسے میزبان ملک کی توقیر کے منافی قراردیا ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے کہا کہ یہ مختصر گفتگو کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے معاملات اور حالات کچھ احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں اور شائد سشما سوراج نے اسی لئے سوال و جواب سے گریز کیا ۔
پاکستانی کشمیر پر بات نہ کرنے پر واویلہ ہی کرتا رہ گیا ، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ نوازشریف کی پارٹی نے ہمیشہ کشمیر کو پارٹی منشور کا حصہ بنایا اور بے نظیر بھٹو کیخلاف کشمیر کارڈ استعمال کرنے کی بھی کوشش کی تو پھر اس حکومت کی کشمیر کیلئے کوششوں پر شک کیسے پیدا ہوسکتا ہے ْ اگر میڈیا کے پاس ایسے شواہد ہیں کہ نواشریف حکومت کشمیر پالیسی سے ہٹ گئی ہے تو کسی وقت خا ہونے کی صورت میں خود ہی شواہد سامنے لے آئے گا۔

مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے ۔ جب سشما سوراج اپنے ملک واپس جائیں گی تو پارلیمنٹ کو بتائیں گی کہ کن کن ایشوز پر بات کرکے لوٹیں ؟ ابھی تو بھارت کی طرف سے ممبئی ٹرائل کی بات ہی سامنے آئی ہے ۔۔۔ باقی آنے والی ہیں ۔۔ پھر پاکستان کی طرف سے وزیراطلاعات بھی وضاحتیں کریں گے ۔
میڈیا کی کیا خواہشات تھیں ؟ کتنی پوری ہوئیں ؟ کتنی رہ گئیں ؟ اس کا جواب وقت دے گا البتہ وزیراطلاعات پرویز رشید کا صحافیوں کی اس ناراضگی کا سامنا رہے گا کہ پاکستان کے اندر آکر میڈیا وار میں بھارت نے پاکستان کو مات کیسے دیدی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :