بسمہ کا ناحق خون۔۔۔۔۔ ذمہ دار کون۔۔؟

اتوار 27 دسمبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

وہ پھول جیسی معصوم کلی جب بیماری کی شدت سے کراہنے لگی تو اس کو درد سے تڑپتے دیکھ کر ان کا دل بھی پھٹنے لگا۔ وہ معصوم کلی جوں جوں آہ و فریاد کرتی ان کی دل کی دھڑکنیں بھی تیز اور بلڈ پریشر ہائی ہوتا جارہا تھا۔ آخر اس سے مزید برداشت نہ ہو سکا اور برداشت ہوتا بھی کیسے۔۔؟ بچے ہی تو انسان کی کل کائنات اور دنیا کی ہر شے سے یہاں تک کہ انسان کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔

انہوں نے اس معصوم کلی کو ہاتھوں میں اٹھایا اور ہسپتال کی طرف دوڑ لگائی۔ پھول سی کلی کو دل سے لگائے وہ ہسپتال کی سمت پاگلوں کی طرح دوڑتے اور بھاگتے جارہا تھا۔ ابھی وہ ہسپتال سے کچھ ہی دور تھا کہ پولیس وردی میں ملبوس وہ بھیڑئیے نما انسان جسے عوام کے محافظوں کا نام دیا جاتا ہے اس کی معصوم اور پھول جیسی بچی کے قاتل بن کر راستے میں دیوار بن گئے۔

(جاری ہے)

آپ آگے نہیں جا سکتے۔۔ اس بدقسمت شخص نے لرزتے جسم اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ بچی کو دل کے اور قریب کرکے غم و درد سے خون آلود زبان سے پوچھا مگر کیوں۔۔؟ آگے سے جواب ملا۔ وڈے سائیں آرہے ہیں۔۔ آگے روٹ لگا ہوا ہے۔ سیکیورٹی خطرات ہیں۔ اس لئے آپ آگے نہیں جا سکتے۔ بدقسمت باپ نے اپنی گود میں اپنی پھول جیسی نازک، پیاری اور معصوم کلی کو درد سے تڑپتے دیکھ کر سیکیورٹی اہلکاروں کی منت سماجت شروع کر دی۔

اس نے ان بھیڑئیے نما انسانوں کو اللہ اور رسولﷺ کے واسطے دئیے۔۔ ان کے پاؤں پکڑے۔ ۔خون کے آنسو روئے مگر ان ظالموں پر زمین پر ٹپکنے والے ان کے آنسوؤں اور گود میں معصوم بچی کی مچھلی کی طرح تڑپنے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ قوم کے ان محافظوں نے اس غریب باپ کے ارمان خاک میں ملاتے ہوئے اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جو برسوں سے اس ملک میں غریبوں کے ساتھ ہوتا چلاآرہا ہے۔

بعد میں جب وہ بد قسمت شخص بچی کو ہاتھوں میں اٹھائے ہسپتال پہنچے تو بچی کو دیکھتے ہی ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ لیٹ ہو گئے۔۔۔ جس کی وجہ سے آپ کی بچی آپ سے روٹھ گئی ہے۔ آپ اگر 10 منٹ پہلے بچی کو لے آتے تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی۔۔ یہ سنتے ہوئے بسمہ کے والد پر کیا گزری ہو گی۔۔؟ بچے تو انسان کی کل کائنات اور سب کے سانجھے ہوتے ہیں پھر کیا غریبوں کے بچے بچے نہیں ہوتے ۔

بلاول بھٹو،آصف زرداری ، نواز شریف، پرویز مشرف ، شہباز شریف و دیگر کیلئے یقینی طور پر اپنی سیکیورٹی اہم ہوگی لیکن غریبوں کیلئے ان کے پھول جیسے بچوں سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ۔ خدارا بسمہ کے بدقسمت والد کی جگہ ایک منٹ کیلئے اپنے آپ کو رکھ کر تو دیکھیں کہ اس طرح اللہ نہ کرے اگر آپ کی کوئی پھول جیسی کلی درد و تکلیف سے تڑپ اٹھے۔ انسان اپنا دکھ درد تو برداشت کر لیتا ہے مگر بچوں کی ذرہ سی آہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔

ایسے میں آپ اپنی اس بچی یا بچے کو ہاتھوں میں اٹھائے ہسپتال کی طرف چل پڑیں اورہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں کوئی انسانی بھیڑیا دیوار بن کر آپ کو ہمیشہ کیلئے غم و الم کی وادی میں دھکیل دیں۔آپ سے آپ کالخت جگرچھین لیں۔ سوچیں تو سہی جب بغیرکسی قصوراورگناہ کے آپ کا ہنستا بستا گھر اور گود جب اجڑے گاتو آپ کے دل پر کیا گزرے گی۔۔؟ بسمہ کے والد نے ہسپتال میں بسمہ کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر جب اس کو روٹھتے دیکھا ہوگا۔

۔ اس وقت تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین اور جسم سے جان نکل گئی ہوگی۔۔ اس کا دل تو غبارے کی طرح پھٹ گیا ہوگا۔ ۔ان کی آنکھیں تو خون کے آنسو رو رو کر سرخ ہوئی ہوں گی۔ شاعر نے تو کہا تھا کہ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی۔۔۔۔۔۔۔ اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ جس نظام میں غریب اور غریب کے بچے کی حفاظت نہ ہو اس نظام کو بھی تو آگ لگا کر اس کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

کیا یہ ملک صرف جاگیرداروں۔ سرمایہ داروں اور امیروں کیلئے بنا ہے۔۔؟ کیا اس ملک پر غریب کاکوئی حق نہیں۔۔؟ بلاول بھٹو زرداری کے پروٹوکول کے باعث معصوم بسمہ کی موت نے اس ملک سے انسانیت کا جنازہ نکال دیا ہے۔۔بسمہ کی تڑپتی موت اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ اس ملک میں انسانوں کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ پچھلے 50 سالوں سے اس ملک میں غریب انسانوں کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے۔

بلاول بھٹو، آصف زرداری، قائم علی شاہ، نواز شریف اور دیگر چھوٹے بڑے سائیوں اور شہزادوں کی سیکیورٹی کے نام پر نہ جانے اس ملک میں روزانہ کتنی بسمہ اپنے بدقسمت والدین سے روٹھتی ہوں گی۔ وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے روز کتنے پھول جیسے بچے تڑپتے ہوں گے۔ اور روز کتنے بدقسمت والدین غم و الم میں ڈوبتے ہوں گے۔۔؟ معصوم بسمہ کی موت وی آئی پی پروٹوکول لینے والوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔

صدر، وزیر اعظم اور وی آئی پیز کیا باہر کی دنیا میں نہیں ہوتے۔۔؟ باہر کے ممالک میں تو بلاول بھٹو جیسے کل کے بچے کیلئے کیا صدر اور وزیر اعظم کیلئے بھی نہ تو شہر جام کئے جاتے ہیں۔۔نہ ہسپتالیں سیل کی جاتی ہیں اور نہ ہی عوامی شاہراہوں پر روٹ لگائے جاتے ہیں مگر یہاں تو وی آئی پیز کیلئے غریبوں کی سانس تک لینے پر بھی پابندی لگائی جاتی ہے ۔

وی آئی پیز کے شوقین سیاستدانوں اور نام نہاد لیڈروں کو ایک بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ جس طرح ان کیلئے اپنی سیکیورٹی اہم ہے اس سے کہیں زیادہ بلکہ حد سے بھی زیادہ اس ملک کے غریبوں کے لئے اپنے بچے اہم ہیں۔ بلاول بھٹو سمیت اگر کسی کو سیکیورٹی خطرات ہیں تو وہ اپنے عالیشان محلوں سے باہر ہی نہ نکلیں کیونکہ اپنی سیکیورٹی کیلئے دوسروں کے گھر اجاڑناکوئی انسانیت نہیں۔

جن لوگوں کا وی آئی پی پروٹوکول کے بغیر کوئی چارہ نہیں سپریم کورٹ کو ایسے لوگوں کے عوامی مقامات خاص کر طبی مراکز کے اردگرد جانے پر سخت پابندی لگانی چاہیے۔ وی آئی پی پروٹوکول کے ہاتھوں بسمہ کی المناک موت سے بھی اگر ہماری آنکھیں نہ کھلیں اور ایک کی حفاظت کیلئے درجنوں کو قربان کرنے کایہ سلسلہ آگے بھی اسی طرح جاری رہا تو پھرآج نہیں تو کل ہم ضرور اللہ کی پکڑ میں آئیں گے۔ پھر بسمہ جیسی غریب کلیوں کے ہاتھ ہوں گے اور ہمارے گریبان۔۔وی آئی پی پروٹوکول کااگرہم خاتمہ نہیں کرسکتے توپھراس دن کے لئے ہمیں تیار رہنا ہی ہوگا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :