انقلابیوں کااتواربازار

منگل 29 دسمبر 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

باادب ، باملاحظہ، ہوشیار، قائدِانقلاب شیخ الاسلام پروفیسرڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری کینیڈاسے پاکستان کے دورے پرتشریف لاچکے ہیں۔ مُرشد کے دَورے کے اغراض ومقاصدتو معلوم ہوسکے نہ یہ پتہ چل سکاکہ دَورہ کتنے دنوں پر محیط البتہ یہ طے کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی کی طرح ”آنیاں،جانیاں“ ہرگزنہیں ہوں گی اور اِس باروہ حکمرانوں کا ”مَکّوٹھَپ“ کرہی جائیں گے۔

کچھ بدبخت کہتے ہیں کہ مُرشد ”دیت“ کی اگلی قسط کی وصولی کے لیے آئے ہیں۔ویسے تو ہم ایسی شَرانگیز باتوں پر کبھی دھیان نہیں دیتے لیکن اب ”اندرواندری“ ہمیں بھی کچھ شَک ساہونے لگاہے کیونکہ مُرشد نے لاہورایئرپورٹ پراترتے ہی ”کھڑاک“ کردیا کہ ”افواجِ پاکستان اوررینجرز کوکہنا چاہتاہوں کہ آپ ابھی تک صرف سندھ کے اختیارات پراڑے ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)

14 لاشیں اور 100 زخمی لاہورمیں بھی آپ کاانتظار کررہے ہیں ۔پنجاب کے قاتل حکمرانوں کے خلاف ایکشن کب ہوگا؟“ ۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایاکہ ”میرے جسم میں جب تک خون کاایک قطرہ بھی موجودہے ،سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے قاتلوں سے بدلہ لوں گا“۔ ہمیں یہ توپتہ نہیں کہ 36 مختلف قسم کی ادویات استعمال کرنے والے مُرشد کے جسم میں خون کے کتنے قطرے باقی بچے ہیں البتہ ہم اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ جب تک اُن کے جسم میں خون کاآخری قطرہ رہے گا ،ہم اُن کا ساتھ دیں گے۔

مُرشد نے اپنے آستانہٴ عالیہ پر شیخ رشیدکو شرفِ ملاقات بخشنے کے بعدفرمایا کہ موجودہ نظام میں دہشت گردی کاخاتمہ نہیں ہو سکتا۔ وہ اِس نظام کے خلاف انقلاب لانے آئے ہیں۔ ہمیں مُرشد کے ارشاداتِ عالیہ سے مکمل اتفاق ہے اورہم تومُرشد کے استقبال کے لیے لاہور ایئرپورٹ پربھی جاناچاہتے تھے لیکن ہماری یہ خواہش ناتمام ہی رہی کیونکہ ایک تو ” ٹُٹ پَینی“ سردی ہی بہت تھی اوروسرے راناثناء اللہ کاخوف جوآجکل ایک دفعہ پھرقانون اورداخلہ کی وزارت سنبھالے ہوئے ہیں، اُنہیں جب بھی وزارت ملتی ہے تووہ کوئی نہ کوئی ”کھڑاک“ ضرورکر دیتے ہیں۔

اِس لیے حفظِ ماتقدم کے طورپر ہم نے ایئرپورٹ نہ جانے میں ہی عافیت جانی البتہ نیوزچینلز پراُن کا”رُخِ روشن دیکھ کر باربارسُشماسراج کی طرح ”پَرنام“ ضرورکرتے رہے۔ مُرشدتو واقعی پاکستان میں اسلامی انقلاب لاناچاہتے ہیں لیکن ہمارے ارسطوانہ ذہن میں پتہ نہیں کیوں باربار شکوک وشبہات کے سنپولیے جنم لیتے رہتے ہیں ۔وجہ شایدیہ ہوکہ پاکستان میں روٹی ،کپڑا اورمکان ملے نہ ملے انقلابی ضرور مِل جاتے ہیں ۔

ہمارے ہاں توہرقسم کے چھوٹے بڑے انقلابیوں کا ”اتواربازار“ لگاہے۔
جب بھٹومرحوم سوشلسٹ انقلاب کانعرہ لگاکر اقتدارمیں آئے۔ تب ہم یونیورسٹی میں زیرِتعلیم تھے اور گلے پھاڑپھاڑ کر”ایشیاء سبزہے“ کے نعرے لگاتے رہتے تھے جبکہ بھٹوکے جیالے (سُرخے) ایشیاء کوسُرخ کرنے پرتُلے رہتے۔ پھرہوا یوں کہ ایشیاء تونہیں البتہ پاکستان ضروربھٹو کے خونِ ناحق سے سُرخ ہوگیااورجنرل ضیاء الحق اسلامی انقلاب کانعرہ لگاکر میدانِ سیاست میں کودپڑے ۔

اُن کے دَورِحکومت کاعالم یہ کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بَن نہ سکا
ضیاء الحق اسلامی انقلاب لائے بغیرہی فضاوٴں میں اللہ کوپیارے ہوئے توقوم کچھ عرصہ تک ”بی بی جمہوریت“ کے مزے لوٹتی رہی لیکن شائد قوم کے ”بلغمی مزاج“ کوجمہوریت راس نہ آئی اِس لیے پرویز مشرف مسندِ اقتدارپر قابض ہوگئے ۔

اُنہوں نے اقتدارپر قبضہ کرتے ہی کُتّوں کے ساتھ تصویریں کھنچواکر قوم کویہ پیغام دیاکہ وہ ”لبرل انقلاب“ کے داعی ہیں۔اُن کے دَورِ حکومت میں ایوانِ صدرمیں رقص وسرور کی محفلیں بھی سجتی رہیں اور وہ خودبھی طبلے سارنگی پرلہک لہک کرگاتے رہے ۔اسی دوران ایم ایم اے کی صورت میں دینی جماعتوں کا اتحادوجود میںآ یا جس نے ”کتاب“ کے انتخابی نشان پر2002ء کے عام انتخابات میں حصّہ لیا۔

ایم ایم اے کامنشور پاکستان میں مکمل اسلامی انقلاب لاناتھا۔ قوم نے اِس مذہبی اتحادکو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارفقید المثال کامیابی سے ہمکنارکیا ۔خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کودوتہائی اکثریت ملی اورمرکز میں مولانافضل الرحمٰن وزیرِاعظم تونہ بن سکے لیکن قائدِحزبِ اختلاف ضروربن گئے ۔اسلامی انقلاب کے یہ داعی اگرخیبرپختونخوا میں مکمل اسلامی انقلاب لے آتے توآج شائد دیگرصوبوں میں بھی حالات مختلف ہوتے اورلوگ دین کی طرف راغب ہوجاتے لیکن ہوایوں کہ مولاناحضرات ”حجروں“ سے نکل کرلینڈ کروزروں پر سوارہو گئے اورقوم کااسلامی انقلاب کاخواب ادھوراہی رہا ۔

2008ء کے انتخابات سے پہلے ہی ایم ایم اے ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگئی۔ جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیااور مولانافضل الرحمٰن کی ایم ایم اے عبرت ناک شکست سے دوچارہوئی۔
یوں تو ہمارے عمران خاں صاحب کافی عرصے سے سیاست کو”ٹھونگے“ ماررہے تھے لیکن اصل انقلابی کے روپ میں وہ اکتوبر 2011ء میں سامنے آئے اورآتے ہی چھا گئے۔ وہ اپنی ”سونامی“ کی زلفِ گرہ گیرکے ایسے اسیرہوئے کہ سُدھ بُدھ گنوابیٹھے ۔

اُنہوں نے غیرپارلیمانی زبان اور”میوزیکل کنسرٹ“ کوایسا رواج دیاکہ اب کسی ایسے جلسے میں”کَکھ“ مزہ نہیں آتا جس میں”میوزیکل کنسرٹ“ نہ ہو، جماعت اسلامی کے جلسے توہوتے ہی ”پھُسپھسے“ ہیں۔ خاں صاحب کی” سونامی“ توپتہ نہیں روٹھ کے کہاں چلی گئی البتہ آجکل وہ ”میڈم دھاندلی“ کے عشق میں مبتلاء ہیں ۔یہ دھاندلی بھی ایسی ”بے وفا“کہ ہاتھ ہی نہیںآ تی۔

اپنے یہ کپتان صاحب بھی عجیب کہ نجی زندگی ہویا سیاسی ،کسی ایک جگہ ٹِک کربیٹھتے ہی نہیں، اسی لیے نوازلیگئیے اُنہیں”مسٹریُو ٹرن“ کہتے ہیں حالانکہ وہ تو تبدیلی کے علمبردار ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ سیاسی زندگی میں تواُن کی ناکامی کاسبب لال حویلی والے شیخ رشیداورلندن پلٹ چودھری سرورجیسے”انقلابی صلاح کار“ہیں، نجی زندگی میں اُن کی ناکامی کاسبب شایداُن کی تلون مزاجی ہو۔

بہرحال یہ اُن کاذاتی اورنجی معاملہ ہے ہمیں اِس سے کیالینا دینا۔
سب سے بڑے انقلابی توہمارے ٹھنڈے ٹھارمیاں نواز شریف نکلے جنہوں نے ”اندرواندری“ نریندرمودی کو پتہ نہیں کیا گیدڑسنگھی سنگھائی کہ مودی جی اُنہیں سالگرہ کی مبارکباد دینے ”ٹھَک“ سے پاکستان آن پہنچے ۔ہماراتیزوطرار پریس اورالیکٹرانک شرمندہ شرمندہ کہ وہ اِس دَورے کی بھنک تک نہ پاسکے ،یہی حال بھارتی میڈیاکابھی ۔

مودی جی دراصل حکومتی نہیں ،میاں صاحب کے ذاتی مہمان بن کرآئے ۔اسی لیے وہ سیدھے میاں صاحب کے گھر(جاتی عمرا) پہنچے اوروہیں سے بھارت پروازکر گئے ۔تاحال تومودی جی ،میاں صاحب کی مہمان نوازی کی تعریف میں ٹویٹ پہ ٹویٹ کیے جارہے ہیں لیکن ذرابچ کے کہ کہیں یہ بغل میں چھُری ،مُنہ میں رام رام نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :