مودی کا ”چانک “دورہ پاکستان امن کی نوید ؟

جمعرات 31 دسمبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

مودی کا اچانک دورہ پاکستان اپنی نوعیت میں اس حوالے سے مختلف ہے کہ آج تک کسی بھارتی زویراعظم نے اس طرح ”اچانک“ اپنی آمد کی نہ کبھی اطلاع دی اور نہ ہی کبھی دورہ کیا لیکن اس اچانک دورئے کو بین الاقومی سطع پر اس لئے بھی سراہا جا رہا ہے کہ شائد اسی طرح اچانک ایٹمی قوت کے حامل دونوں ملکوں میں کوئی امن کی صورت نکل سکتی ہے۔ کیونکہ دنیا اس حوالے سے کافی متوحش سے کہ اڑھائی ارب کے انسانوں کی آبادی کے حامل اس خطے کا امن سکون ،خوشحالی ،غربت اور جہالت کا خاتمہ ان دونون ممالک کے بہترین تعلقات میں مضمر ہے جس کے لئے اسطرح کے اچانک دوروں کو فروغ ملنا چاہیے۔


تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے پاکستان کے اچانک دورے کو جہاں حیرت کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے وہیں بھارت اور پاکستان کی عوام کی اکثریت نے اس دورے کو امن کے لیے ایک خوش کن علامت قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔

(جاری ہے)

بھارتی میڈیا اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کا یہ دورہ مروجہ سفارتی پروٹوکول کے حوالے سے ’قواعد شکنی‘ کے زمرے میں آتا ہے مگر انہوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ کسی ملک کے ساتھ مشکلات کے شکار تعلقات کو بہتر کر سکیں۔


دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان گزشتہ کئی برسوں سے جاری تناوٴ کو کم کرنے اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے باقاعدہ مذاکرات پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونا ہیں۔ مگر اس سے قبل ہی بھارتی وزیراعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے لاہور کے قریب آبائی گھر جا کر اور ان کی سالگرہ اور ان کی نواسی کی شادی میں شرکت کر کے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ جوہری طاقت کے حامل دونوں ہمسایہ ممالک تعلقات کو معمول پر لانے کا عزم رکھتے ہیں۔


پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات کے دوران جس طرح دونوں رہمناوٴں نے ’پرانے دوستوں کی طرح‘ بات چیت کی اور مل کر کھانا کھایا جو مودی کے لیے خصوصی طور پر تیار کرایا گیا تھا۔نریندر مودی کی طرف سے پاکستان کے دورے کے اس حیران کن فیصلے کو بھارت میں مودی کی طرف سے بہت زیادہ نپا تلا ذاتی جوا قرار دیتے ہوئے اسے سراہا گیا ہے۔

خیال رہے کہ مودی کے پیش رو من موہن سنگھ اپنے 10 سالہ دور اقتدار میں ایسی کسی پیشرفت میں ناکام رہے تھے۔
پاکستان میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق عوام کی زیادہ تر تعداد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان امن کی کوششوں کے حامی ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت نے امن عمل کو آگے بڑھانے اور ایک دوسرے کے تحفظات کو سمجھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات جنوری کے وسط میں اسلام آباد میں کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس بات کا فیصلہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی 25 دسمبرکو لاہور میں ہونے والی ملاقات کے دوران کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک مختصر غیر سرکاری دورے کے لیے اپنے 120 رکنی وفد کے ہمرا افغانستان کے دورے کے بعد کابل سے دہلی جاتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے لاہور رکے تھے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی کی بھارت روانگی کے بعد لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بتایا کہ مودی کا یہ ایک خیر سگالی دورہ تھا اور اس دورے کے دوران ہونے والی وزرائے اعظم کی ملاقات بہت مثبت اور خوشگوار رہی۔

ملاقات میں جامع مذاکرات کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ اس ملاقات میں اعتماد سازی کو فروغ دینے اور دونوں ملکوں کے عوام میں روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سول اور فوجی قیادت مسائل کے حل کے حوالے سے متحد ہے۔
جبکہ حسب معمول جماعت اسلامی نے بھارتی وزیر اعظم کی پاکستان آمد پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا اسی طرح دوسی جانب شیو سینا نے بھی مودی کے خلاف بھارت میں احتجاج کیا۔

جبکہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات پاکستان اور بھارت میں پائی جانے والی بد اعتمادی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم مودی کا یہ دورہ علامتی نوعیت کا ہے، اس دورے کے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات میں کسی بڑے بریک تھرو کی توقع کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ تاہم ان کے بقول یہ ملاقات پاکستان اور بھارت کی قیادتوں میں پائی جانے والی بد اعتمادی کو کم کرنے اور مسائل کے حل کے لیے ماحول سازگار بنانے میں مددگار ضرورثابت ہو گی۔


پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ فارن پالیسی میں ملکوں کے سربراہان کے اچھے اور ذاتی تعلقات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر مودی اور نواز شریف کے تعلقات کی کیمسٹری بہتر ہو رہی ہے تو پھر اس کے اثرات پاک بھارت تعلقات پر بھی ضرور پڑیں گے۔ میاں خورشید قصوری کا کہنا تھا، ”پاکستان اور بھارت دو ایسے ایٹمی ملک ہیں جو بلاسٹک میزائل اور سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

ان کے بقول ان دونوں ملکوں کے پاس بات چیت کرنے اور امن کی طرف آنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں ہے۔ دونوں ملک کئی مرتبہ جنگ کر کے یا جنگ جیسی صورتحال پیدا کر کے بھی اپنے مسائل حل نہیں کر سکے ہیں۔“
ان کا یہ بھی کہناتھا کہ روس، چین اور امریکا کے حالیہ دوروں میں بھی مودی کو امن کے رستے پر آنے کے مشورے ملے ہیں: ”مودی انتخابات میں بھارتی عوام سے کیا گیا بھارت کو ترقی سے ہمکنار کرنے کا اپنا وعدہ اس وقت تک پورا نہیں کر سکیں گے جب تک وہ پاک بھارت امن کے راستے پر نہ آ جائیں۔

“میاں خورشید قصوری پر امید ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے، ”لیڈر اختلافات کو سیاسی مقاصد کے لیے کافی عرصے سے بہت ہوا دیتے رہے ہیں۔ اب رائے عامہ کو امن کی طرف لانے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاک بھارت تعلقات کی راہ میں حائل تمام مسائل کے حل کے لیے بہتر پیش رفت ضرور ہو گی۔


دوسری جانب پاکستان کی کئی بڑی سیاسی جماعتوں نے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کو ایک مثبت قدم قرار دیا ہے تاہم ان کا ماننا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ہونے والی تمام پیش رفت پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ پاک بھارت امن کے قیام کے پیچھے خواہ کسی کا بھی ہاتھ ہو اسکا خیر مقدم کیا جانا چاہیے کیونکہ جنگوں سے کبھی وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے جو امن کے دوران ہوتے ہیں اور ہر جنگ کا فیصلہ مزاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے اس لئے امن کی ہر کوشش کا ساتھ دینا ہی وقت کا تقاضا اور خطے کی خوشحالی اور امن کا ضامن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :