کشمیر میں سیاست یا ایک سازش

پیر 4 جنوری 2016

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

انسان زندگی کا سبق زندگی سیہی سیکھتا ہے ، یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ہر روز لکھی اور پڑھی جاتی ہے ۔ ایک شخص کا جنون تاریخ کا چہرہ بدلنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ ہم ہمیشہ ایک سائے کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور شائد ہمیں علم نہیں ہوتا کہ جو ہم ڈھونڈھ رہے ہیں وہ صرف ایک دھوکہ ہے۔شائد اس سائے کا ایک نام سیاست بھی ہے ۔سیاست ایک بہت سنگدل اور بے رحم کھیل ہے ۔

اس میں کون کس کا کب استعمال کرتا ہے کسی کو پتہ نہیں چلتا ۔ کئی سالوں بعد جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو تب ذکر ہوتا ہے کہ ایک حکمران تھا جس نے لاشوں کے ڈھیر لگا دیے ، عوام کو تباہ کر دیا اور اپنی کرسی اور حکومت کی خاطر اس نے اپنی قوم کی آزادی کو کئی بار غلامی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی ۔ سیاست شطرنج کے کھیل جیسی ہوتی ہے ، اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کو کب گلے لگانا ہے اور کب کس سے رابطے ختم کرنے ہیں ۔

(جاری ہے)


برطانیہ میں حال ہی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد دو بڑی جماعتوں لیبر اور لبرل ڈیموکریٹ کی لیڈر شب کو اس وقت مستعفی ہونا پڑا جب عوام کی کثیر تعداد نے ڈیوڈ کیمرون کو ایک بار پھر سے حکومت کا موقع دیا ۔ 2010 میں بننے والی حکومت میں ڈیوڈ کیمرون کو حکومت سازی کے لیے لبرل ڈیموکریٹس سے مدد لینی پڑی اور نک کلیگ کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا گیا ، ٹوری نے یہ پانچ سال ایسے گزارے کہ ان کی تمام غلطیوں کا خمیازہ لبرل ڈیموکریٹ کو بھگتنا پڑا اور 2015 کے عام انتخابات میں انہیں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ لیبر پارٹی بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی۔

ان انتخابات میں بہت بڑے اور نامی سیاسی برج الٹ گئے اور اسی لیے دو سیاسی جماعتوں میں لیڈر شپ کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ، یہ جمہوریت ہے! مگر اس سارے عمل کے دوران ماہرین سیاست نے ٹوری لبرل ملاپ کوHug of Death کا نام دیا یعنی ٹوری نے لبرل کو اس شدت سے گلے لگایا کہ اس کی موت ہو گئی۔
میاں نواز شریف جب سے پاکستان کے وزیر ا عظم بنے ہیں پاکستان میں بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں نے جنم لیا اور ان کی حکومت کی حکمت عملی آج تین سالوں کے بعد بھی غیر یقینی کا شکار ہے ۔

میاں نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب وہ بدلے ہوئے نواز شریف ہیں مگر میری رائے تھوڑی مختلف ہے ۔ پچھلے سال کے اختتام میں مودی کا میاں نواز شریف کے گھر اچانک سالگرہ کی مبارک دینے آنا اور میاں نواز شریف کا کشمیر میں ہندوستانی جارحیت کے خلاف خاموش رہنا ان کی کامیاب بزنس پلاننگ کا حصہ تو ہو سکتا ہے مگر اس میں کہیں بھی کوئی ملکی مفاد نظر نہیں آتا۔

اس سال کے آغاز میں پاکستان کے جانے مانے صحافی جاوید چوہدری نے اپنی ویب سائٹ پر ایک سٹوری چلائی جس میں میاں نواز شریف کی مستقبل کی کشمیر پالیسی اور آزاد کشمیر کی سیاسی الیٹ کو Hug of Death دینے کی تیاری کا منصوبہ بیان کیا گیا تھا۔
اس سٹوری سے پہلے ایک اور مشہور پاکستانی تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد مسعود نے نومبر پچھلے سال ایک خبر دی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ بہت جلد ایک صحافی کو آزاد کشمیر کا وزیراعظم بنایا جائے گا ۔

اس خبر میں ڈاکٹر شاہد نے اس صحافی کا ذکر نہیں کیا تھا ۔ مگر اس کے بعد برطانیہ میں ایک میڈیا کانفرنس ہوئی اور اس کانفرنس کے دوران جہاں بہت سے صحافی برطانیہ آئے وہیں آزاد کشمیر سے مشتاق منہاس بھی تشریف لائے جنھیں اس میڈیا کانفرنس کے بعد سوشل میڈیا پر آزاد کشمیر کے برطانیہ میں موجود تمام حلقوں میں گھومتے پھرتے دیکھا گیا اور یہ بات سب کھل کر کہنے لگے کہ مشتاق منہاس نے چونکہ ایک اور صحافی کی مدد سے چوہدری مجید کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد رکوائی تھی اس لیے ان کی میاں نواز شریف سے قربت انھیں وزارت ا عظمی کے خواب دکھا رہی ہے ۔


میں مشتاق منہاس سے کبھی نہیں ملا مگر سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے دعا سلام ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمعیت ( جماعت اسلامی) سے لگاوٴ، نواز لیگ کی تائید اور کشمیر ہاوٴسنگ سکیم کے حوالے سے ان کے اور ایک سینیر وزیر کے بارے میں پھیلی ہوئی افواہیں انہیں مکمل اور با صلاحیت سیاستدان بنانے کے لیے کافی ہیں مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اگر اس خبر میں حقیقت ہے جو یکم جنوری کو جاوید چوہدری نے اپنی ویب سائٹ پر دی اور جس کے بارے میں کافی سارے سیاسی حلقے بات کر رہے ہیں کہ نواز شریف Hug of Death کی صورت راجہ فاروق حیدر اور نون لیگ آزاد کشمیر کی تمام لیڈر شپ کو نظر انداز کر کے مشتاق منہاس کو وزیراعظم کی کرسی کے لیے سپورٹ کریں گے، دیگر سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کو بھی خطرے سے دوچار کر چکے ہیں ۔


مسلم کانفرس میں اگر جمہوریت ہوتی تو شائد نون لیگ نہ بنتی ۔ سردار سکندر کے خاندان کا قد اور سردار عبدالقیوم مرحوم کی ذات سے ہٹ کر اگر مسلم کانفرنس میں کسی اور کو موقع ملتا اور ایک جمہوری عمل کے تحت اس کی لیڈر شپ کا چناوٴ ہوتا تو کبھی بھی نون لیگ آزاد کشمیر میں نہ آتی۔ یہاں بحث غیر رہاستی جماعتوں پر نہیں ہے بلکہ پریشانی اس امر کی ہے کہ اس وقت جب کشمیر اور کشمیری پہلے ہی دو لخت خطوں میں آباد ہیں تو میاں نواز شریف جو کچھ صحافیوں کے مطابق بدلے ہوئے انسان ہیں صرف اس لیے سارے سیاسی نظام کو بائی پاس کر رہے ہیں کہ ایک شخص نے ان کے حق میں ٹی وی پروگرام کیے اور اسے نوازنے کے لیے ان کے پاس وزارت ا عظمیٰ سے بہتر کوئی اور تحفہ نہیں سمجھ سے باہر حکمت عملی ہے ۔


یکم جنوری کی اس خبر میں جاوید چوہدری ڈاٹ کام یہ دعوی کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کو بھی نوازا جائے گا اور عبدالرشید ترابی صاحب کو علما اور مشائخ کی سیٹ دے دی جائے گی اور اس کے علاوہ کرنل نسیم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں بھی شہنشاہ پاکستان اپنے خزانے سے کوئی تحفہ دیں گے ۔
اس خبر کی اشاعت نے جماعت اسلامی آزاد کشمیر کو بھی ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے کہ جس کا جواب ان کے لیے دینا ضروری ہے ۔

میں نے اس خبر کی ایک نقل جناب مشتاق منہاس کو بھجوائی اور ان سے اس پر تبصرے کا کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک ٹیبل سٹوری ہے اور وضاحت کے لیے جاوید چوہدری سے رابطہ کیا جائے ۔ میرے پاس کوئی وسائل نہیں کہ میں جاوید چوہدری سے اس کی وضاحت مانگوں مگر مجھے لگتا ہے کہ اگر اس دھویں کے پیچھے کہیں کوئی آگ ہے تو وہ آزاد کشمیر کے سیاسی منظر نامے اور خود مشتاق منہاس صاحب کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے ۔

نون لیگ اور میاں صاحب کے ایڈ وائزر بہت خطرناک کھیل کی تیاری کر رہے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ برتھ ڈے والے دن کوئی ایسی ڈیل ہوئی ہے جس کے اعلان پر آزاد کشمیر میں میاں نواز شریف کو ایک ایسا وزیراعظم چاہیے ہو جو کسی بھی ڈیل پر دستخط کرنے کو تیار ہو ۔ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود سردار سکندر، سردار عتیق اور راجہ فاروق حیدر کا ایک خاندانی پس منظر ہے جو انہیں کبھی بھی کسی بڑی تاریخی غلطی کا حصہ بننے نہیں دے گا ۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ میاں نواز شریف Hug of Death کے بعد مشتاق منہاس کو بھول جائیں اور انہیں پچھتانے کا قت بھی نہ ملے ۔
آزاد کشمیر ایک پیچدہ ریاست ہے اسے مزید سیاسی انتشار کا شکار کرنے سے میاں نواز شریف کی حکومت عوام کے دل اور دماغ جیتنے کے بجائے نفرت کے گھنے جنگل اگانے کی کوشش نہ کریں تو بہتر ہے ۔ علیحدگی پسند اور نیشنلسٹ گروپ کسی حد تک پہلے ہی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد نے کبھی بھی مظفر آباد کو اپنے فیصلے خود کرنے کی اجازت نہیں دی اور ہمیشہ یہاں کے لوگوں کو پسماندہ اور کمزور سمجھا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بہت حد تک اس بچے کی طرح ہیں جسے اس کا باپ ایک دور افتادہ پہاڑی گاوٴں میں غربت دکھانے لے گیا ۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ تمہیں خود میں اور ان غریب لوگوں میں فرق نظر آیا ۔ بیٹا بولا ، ابو میں بہت بڑی ذہنی الجھن کا شکار ہوں ، آپ کہتے ہیں کہ وہ غریب ہیں مگر ہمارے گھر میں ایک سوئمنگ پول ہے جبکہ ان کے پاس دریا ہیں ، ہمارے پاس رات کو روشنی کے لیے بلب ہیں جبکہ ان کے پاس تارے ہیں ، ہم خوراک خریدتے ہیں جبکہ وہ اپنی خوراک زمین کی چھاتی سے اگاتے ہیں ، ہم نے حفاظت کے لیے دیواریں بنائی ہیں جبکہ وہ ایک دوسرے کے محافظ ہیں ، ہم دلیل کے لیے سائنسدانوں ، مصنفین اور ماہرین کا حوالہ دیتے ہیں جبکہ وہ کلام الہی پر یقین رکھتے ہیں، ہم اپنے مفاد کی خاطر اپنے بھائی کو بھی قتل کر دیتے ہیں اور وہ اپنا گھر
چھوڑ کر دوسروں کو شیلٹر دیتے ہیں او ر اس کے بدلے میں کوئی امید بھی نہیں رکھتے ، ہم نے ان سے جتنا دور ہونا چاہا انہوں نے ہم سے اتنا ہی پیار کیا ، ہمارے شہروں میں بے سکونی اور لاقانونیت ہے جبکہ ان کے پہاڑوں میں سکون اور امن، کیا وہ غریب ہیں یا ہم ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :