یہ بھی سوچیں !

پیر 4 جنوری 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

پارک کی رونق میں اضافہ ہو رہا تھا اور لوگ واک کرنے میں مصروف تھے ، یہ سردیوں کی ایک ٹھٹرتی صبح تھی رات اپنی زندگی پوری کر چکی تھی اور دن کی آمد نے رات کی حکمرانی کا سفر تمام کر دیا تھا ۔ پرندے اپنے گھونسلوں میں طواف میں بیٹھے اللہ کی تسبیح بیان کر رہے تھے ۔ صبح سانس لے رہی تھی اورشمال سے چلنے والی ٹھنڈی ہواہڈیوں کے اندر تک گھسی چلی جاتی تھی ۔

رات بھر پڑنے والی اوس سے پھولوں اور پتوں کا روپ اس دلہن کی طرح نکھر گیا تھا جو شادی کے موقع پر قدرت کی طرف سے ہر دلہن کو عطا کیا جاتا ہے ۔دور افق پر پھیلی شفق احمر کی سرخی گلاب کے پھولوں کی طرح سرخ اور نرم و نازک تھی ۔ افق کے مشرقی کنارے سے سورج خراما ں خراماں آگے بڑھ رہا تھا اور اپنا دیدار کروانے کے لیئے بیتاب تھا ۔

(جاری ہے)

میں روزانہ دوڑ لگانے کے بعد ایک بینچ پر بیٹھ جاتا تھا اور میری ساتھ والی بینچ پر ایک پروفیسر صاحب ”یوگا“ میں مصروف ہو تے تھے ، ہم آپس میں کافی فرینک ہو چکے تھے ۔

مجھے لکھنے کا شوق تھا اور پروفیسر صاحب بولنے کے ماہر تھے سو ہماری یہ بے تکلفی ہمارے کئی کئی گھنٹے نگل جاتی تھی ۔ پروفیسر صاحب پچھلے ایک ہفتے سے کافی خاموش رہنے لگے تھے اور ان کی یہ خاموشی میرے لیئے بڑی معنٰی خیز تھے ، پہلے وہ کئی کئی گھنٹے مسلسل بولتے چلے جاتے تھے لیکن پچھلے ایک ہفتے سے انہوں نے مجموعی طور پر ایک گھنٹہ بھی گفتگو نہیں کی تھی ،آج میں واک کرنے کے بعد ان کے پا س بیٹھا تو سب سے پہلے یہی سوال کیا ، پہلے تو وہ خاموش رہے لیکن جب ضبط کا بندھن ٹوٹا تو سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ۔

وہ بولے ”پچھلے ہفتے میری نواسی کا انتقال ہو گیاتھا اور میں ابھی تک اس کرب سے با ہر نہیں نکل پایا ہوں ۔ وہ مجھ سے بہت مانوس تھی اور میں اس سے بہت پیا ر کرتاتھا ، پتا نہیں اللہ میاں ایسا کیوں کرتے ہیں وہ ہنستے بستے گھر کیوں اجاڑ دیتے ہیں ،میں پچھلے ایک ہفتے سے سوچ رہا ہوں کہ اللہ نے مجھ سے میری نواسی کیوں چھین لی حالانکہ اس نے تو کوئی گنا ہ نہیں کیا تھا اور وہ با لکل معصوم تھی ۔

دو ہفتے پہلے روڈ ایکسیڈنٹ میں میرے بیٹے کا ایک بازو ٹوٹ گیا تھا ، مجھے پچھلے دو ماہ سے مسلسل کھانسی کی شکایت ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا چھ ماہ سے ڈگری ہاتھ میں لیئے نوکری ڈھونڈ رہا ہے لیکن اسے کوئی نوکری نہیں مل رہی ،پتا نہیں اللہ میاں ساری مصیبتیں ہم پر ہی کیوں نازل کر تے ہیں“۔میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی نواسی سے بے پنا ہ محبت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔

میں نے عرض کیا ”سر آپ کے کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں “وہ بولے ”پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں “میں نے پوچھا ” ان میں سے کتنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں“ وہ بولے ”چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور ایک بیٹا ابھی کنوارا ہے “ میں نے پوچھا ” جو شادی شدہ ہیں ان کی اولاد بھی ہو گی “وہ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے ” میرے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کی تعداد چودہ ہے ۔

“میں نے عرض کیا ”سر دیکھیں اللہ تعالی نے پچھلے چالیس سال سے آپ کی اولاد کی حفاظت کی ہے ، اللہ تعالی نے پچھلے چالیس سال سے انہیں ہر طرح کی آفت اور حادثات سے محفوظ رکھا ہے ، اللہ تعالیٰ پچھے بیس سال سے آپ کے چودہ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی بھی حفاظت کر رہے ہیں ، جس ذات نے پچھے چالیس سال سے آپ کے آٹھ بیٹے بیٹیوں اور بیس سال سے آپ کے چودہ نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کی حفاظت کی ہے آپ اس ذات کے ان عظیم احسانات کو ایک سائیڈ پے رکھ دیتے ہیں اور صرف ایک نواسی کی موت پر ان تمام احسانات کو بھلا دیتے ہیں اور گزشتہ چالیس سالو ں سے اللہ نے آپ کی اولاد کوجو موت سے بچایا ہوا تھا اور ان کی ہر طرح سے حفاظت کی تھی آپ اس کا یکسر انکار کر دیتے ہیں ۔

آپ دیکھیں اس وقت آپ کی اولاد کہاں کہاں آ باد ہے ؟ آپ کے آٹھ بیٹے اور بیٹیا ں کاروبار اور ملازمت کے سلسلے میں ملک کے آٹھ اضلا ع میں مقیم ہیں ،آگے ان کی اولاد بھی روزگا راور تعلیم کے سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہے ،گویا آپ کے آٹھ بیٹے بیٹیاں اور چودہ نواسے نواسیاں جو کل ملا کر بائیس بنتے ہیں ،آپ کو پچھلے بیس تیس سال سے ان بائیس افراد کی طرف سے کسی بھی وقت کسی بھی طرح کی بری اور خطرنا ک خبر مل سکتی تھی ،کسی کے زخمی ہونے ، کسی کو کینسر ہونے ، کسی کا ایکسیڈنٹ ہو نے اور کسی کے وفات پاجانے کی خبر مل سکتی تھی لیکن قدرت نے ایسا کچھ نہیں کیا او ر آپ کو اس طرح کی ہر بری خبر سے بچا کر رکھا۔

قدرت چاہتی تو آپ کو اس طرح کی خبریں پے درپے اور بار بار مل سکتی تھیں لیکن آپ اس طرف دھیان نہیں دیتے اور آپ صرف ایک دن کی بری خبر کولے کر پچھلے چالیس سالوں کی اچھی خبروں کو بھول جاتے ہیں ، آپ ماضی کے ان تمام لمحات اور واقعات کو بھول جاتے ہیں جن میں اللہ نے آپ کو ان جیسی سینکڑوں ہزاروں بری خبروں سے بچا کے رکھا ہے “ میں بولتا جا رہا تھا اور پروفیسر صاحب حیرت سے میری طرف دیکھے جا رہے تھے ، ان کی حیرت بجا تھی کیونکہ آج تک میں ان کا صرف ایک خاموش سامع تھا،وہ روزانہ اپنی پروفیسری جھاڑتے تھے اور میں خاموشی سے سنتا رہتا تھا ، میں نے دوبارہ عرض کیا ” سر آپ نے اپنی بیماری کی بات کی سر آپ بتائیں آپ کی عمر کیا ہے “ وہ بولے ” ساٹھ سال “ میں نے عرض کیا ” سر اگر آپ کی عمر واقعی ساٹھ سال ہے تو آج تک آپ اپنی زندگی کے 21900 دن اور525600گھنٹے گزار چکے ہیں ،آپ بتائیں صحت ،توانائی اور زندگی سے بھرپوران ساٹھ سالوں ، 21900دنوں اور 525600گھنٹوں میں آپ نے اس عظیم احسان پر اللہ کا کتنی بار شکریہ ادا کیا ، اللہ نے آپ کو صحت ، توانائی اور طاقت سے بھرپور زندگی کے 21900دن اور 525600 گھنٹے فراہم کیئے لیکن آپ نے ایک بار بھی ان نعمتوں اور احسانات کا شکریہ ادا نہیں کیا لیکن صرف ساٹھ دنوں کی معمولی کھانسی کو لے کر آپ نے شکوے اور شکایتوں کی دکان کھو ل لی ، یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ان ساٹھ سالوں میں اللہ نے آپ کو دنیا کی ہر وہ نعمت دی جس کی آپ نے خواہش کی،آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ آج تک کتنی خوراک کھا چکے ہیں ، کتنے گیلن پانی اور دودھ پی چکے ہیں ، کتنی ہو اکو آپ نے بطور آکسیجن استعمال کیا ہے ، سورج سے کتنی روشنی اور حرارت حاصل کر چکے ہیں ، ستاروں بھری رات اور چاند کی چاندی سے آپ نے کتنا لطف اٹھایا ہے ، آپ نے بارشوں ، ہواوٴں ، قدرتی مناظر اور سردیوں کی دھوپ کو کتنا انجوائے کیا ہے ۔

آپ خود پڑھے لکھے ہیں ، آپ کی ساری اولاد پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پر کام کر رہی ہے ، کیا آپ اس دکھ اور کر ب کو جان سکتے ہیں جو ان والدین کواٹھانا پڑتا ہے جن کی اولاد پڑھ لکھ نہیں سکتی ، جو غلط راہوں پر چل نکلتی ہے ،کیا آپ ان والدین کے دکھ درد کا اندازہ کر سکتے ہیں جن کی جوان اولاد اچانک کسی حادثے کا شکار ہو جاتی ہے ، سر آپ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں کہ اب تک اس نے آپ کو ہر طرح کے دکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھا ہے اور ابھی تک آپ نے کوئی دکھ اور کوئی مصیبت نہیں دیکھی ۔

سریہ بھی تو ہو سکتا تھا آپ پڑھ لکھ نہ سکتے ، اگر پڑھ گئے تھے تو آپ کو کوئی اچھی نوکری نہ ملتی ، اللہ آپ کو اولاد جیسی نعمت سے نہ نوازتے ،یا اولاد دے بھی دیتے تووہ پڑھ لکھ نہ پاتی اور غلط راہوں پر چل نکلتی “میں سانس لینے کے لیئے رکا ، پروفیسر صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ ا اسے زور سے دبایا اور نمناک آنکھوں سے بولے ” بیشک انسان ناشکرا ہے “

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :