فضائی آلودگی صحت کی دشمن

بدھ 6 جنوری 2016

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

انسان کے بنیادی حقوق میں صاف ہوا ور ماحول کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی دوسرے انسانی حقوق کی ہے۔ اس حق کو دنیا بھر میں تسلیم تو کیا جاتا ہے مگر دیا نہیں جاتا اس وقت دنیا بھر میں حالت یہ ہوچکی ہے کہ انسانیت انسان کے اپنے پھیلائے گند کی وجہ سے عاجز آچکی ہے۔ چین جیسا ملک جہاں آبادی کے فلڈ کے ساتھ فضائی آلودگی نے یہ حال کر رکھا ہے کہ چینی قوم کا سانس لینا دشوار ہو چکا ہے اپنی اس مصیبت کی وجہ بھی خود چائنہ ہے جس کی صنعتوں سے نکلتا دھواں صاف ہوا کو آلودہ کر رہاہے۔

جبکہ امریکہ دوسرا بڑا ملک ہے جو آلودگی کاباعث بن رہا ہے۔اسی طرح دیگر ممالک ہیں موسموں کے تغیر و تبدل پر نظر رکھنے والے اس بات کی پشین گوئی کر چکے ہیں کہ آئندہ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے کئی طرح کی قباہتیں جنم لے سکتی ہیں جن میں بیماریاں سر فہرست ہوں گی گرمی کادورانیہ بڑھ اور سردی کا کم ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)


جس طرح دنیا کے دیگر بڑئے شہر فضائی آلودگی کا شکار ہیں اسی طرح پاکستان بھی اس سے شدید متاثر ہے پاکستان کے شہری علاقوں میں ہوائی آلودگی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس سے انسانی صحت سمیت معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

اس خدشے کا اظہار کچھ عرصہ پیشتر عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ "پاکستانی فضاوں کی صفائی" نامی رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ شہری ہوائی معیار میں بہتری کو ملکی پالیسی ایجنڈے میں ترجیح دی جائے کیونکہ بڑے شہروں میں آلودگی پر قابو پانے کی فوری ضرورت کے شواہد ملنے کے باوجود اس مسئلے پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صنعتیں لگنے، لوگوں کا شہروں کی جانب رخ کرنے اور گاڑیوں کی ملکیت کے رجحان نے پاکستان میں ہوا کے معیار کو وقت گزرنے کے ساتھ مزید بدترین ہی ہوگی اگر اس حوالے سے مختصر، درمیانی اور طویل المدت اقدامات پر توجہ نہ دی گئی، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اداروں کی ہوا کے معیار سے متعلق ذمہ داری کی تیکنیکی گنجائش کو مزید مضبوط بنایا جانا چاہئے۔

رپورٹ میں ہوائی آلودگی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے پالیسی کے آپشنز کی سفارشات کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ہوائی آلودگی کے صحت اور غریب افراد کی ترقی پر مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں، خاص طور پر شہری علاقوں میں رہائش پذیر35 فیصد پاکستانی اس سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سن 2005ء میں بائیس ہزار سے زائد بالغ افراد شہری ہوائی آلودگی سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوکر ہلاک ہوئے تھے، جبکہ اس کی وجہ سے سالانہ اسی ہزار افراد ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں اور آٹھ ہزار شدید کھانسی سمیت پانچ سال سے کم عمر پچاس لاکھ بچوں میں معمولی سطح پر امراض تنفس ریکارڈ کئے گئے۔

رپورٹ نے ان اعدادوشمار پر فکرمندی کا اظہار کیا جن کے مطابق جنوبی ایشیاء کے شہری علاقوں میں ہوائی آلودگی سے سب سے زیادہ پاکستان مین ہورہا ہے اور ملک میں اموات اور دیگر حادثات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ماحولیاتی تحفظ سے متعلق قانون پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ اور قومی ماحولیاتی پالیسی میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے اختیارات میں اضافہ تو کیا گیا ہے مگر عملدرآمد کا خلاء تاحال موجود ہے ۔

عالمی بینک کی تحقیق کے مطابق اس مسئلے پر حکومتی توجہ نہ ہونا قابل اعتبار ڈیٹا نہ ہونے کی صورت میں نکلا ہے، دستیاب محدود ڈیٹا سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی فضاوں میں صحت کو نقصان پہنچانے والے مواد کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی سفارشات سے چار گنا زائد ہے۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق آلودگی دنیا میں مرنے والے ہر آٹھویں فرد کی موت کی وجہ ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں صرف سنہ 2012 میں 70 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔

ان ہلاکتوں میں سے بیشتر جنوبی اور مشرقی ایشیا کے غریب اور متوسط درجے کے ممالک میں ہوئیں اور نصف سے زیادہ اموات لکڑی اور کوئلے کے چولہوں سے اٹھنے والے دھوئیں کی وجہ سے ہوئیں۔تحقیق کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ مکانات کے اندر کھانا پکانے کے عمل کے دوران اٹھنے والے دھویں سے خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اگر صرف کھانا پکانے کے لیے محفوظ چولہے ہی فراہم کر دیے جائیں تو دنیا میں لاکھوں افراد کی جانیں بچ سکتی ہیں۔

دنیا میں 2012 میں 43 لاکھ اموات گھروں کے اندر کی فضا کی آلودگی خصوصاً ایشیا میں لکڑیاں جلا کر یا کوئلوں پر کھانا پکانے کے دوران اٹھنے والے دھویں کی وجہ سے ہوئیں جبکہ بیرونی فضا میں آلودگی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 37 لاکھ کے لگ بھگ رہی جن میں سے 90 فیصد کے قریب ترقی پذیر ممالک میں تھے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بیرونی فضائی آلودگی چین اور بھارت جیسے ممالک کے لیے بڑا مسئلہ ہے جہاں تیزی سے صنعت کاری ہو رہی ہے۔

کنگز کالج لندن کے ماحولیاتی تحقیقاتی گروپ کے ڈائریکٹر فرینک کیلی کا کہنا ہے کہ ’ہم سب کو سانس لینا ہوتا ہے اس لیے ہم اس آلودگی سے بچ نہیں سکتے۔‘ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں میں ایسے ننھے ننھے ذرات چلے جاتے ہیں جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ سائنسدانوں کے خیال میں فضائی آلودگی دل کی سوجن کی وجہ بھی بنتی ہے جس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔


بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ بیس سال کے دوران گاڑیوں کی تعداد بیس لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ چھ لاکھ سے زائد ہوگئی ہے بڑھتی ہوئی آلودگی کو کم کرنے کے لئے نجی گاڑیوں کی سرکولیشن کو محدود کیا جائے، شہری منصوبہ بندی اور زمینوں کے استعمال میں گاڑیوں کے لیے لینز قائم کی جائیں اور ٹریفک خامیوں پر قابو پایا جائے۔ٹرانسپورٹ سیکٹر کو موسمیاتی پالیسیوں میں شامل کیا جائے ، جبکہ گاڑیوں اور ٹرانسپورٹ سسٹم کی اہلیت کو بہتر کیا جائے، شاہراوں پر ہجوم کو کم کرنے کی پالیسیاں تیار کی جائیں، ہائی ویز اور نان موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

پاکستان کے ہوائی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے مانیٹرنگ کو موثر کیا جائے، ادارہ جاتی صلاحیت کو بڑھایا جائے، ریگولیٹری فریم ورک کو فروغ دیا جائے اور دیگر خلاء پر کئے جائیں۔
جیسا کہ بھارتی دارالحکومت میں فضائی آلودگی کی ریکارڈ سطح پر قابو پانے کے ایک غیر معمولی جامع پروگرام کا آغاز یکم کیا گیا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت نئی دہلی کی سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں واضح کمی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یکم جنوری تا 15 جنوری نئی دہلی میں اتوار کے علاوہ باقی تمام دنوں میں آٹھ بجے صْبح سے آٹھ بجے شام تک گاڑیاں سڑکوں پر نہیں نکلیں گی۔جمعہ یکم جنوری کو 17 ملین کی آبادی والے شہر نئی دہلی کی سڑکوں پر معمول کے برعکس بہت کم ٹریفک دیکھنے میں آیا۔ اس کی وجہ اس نئے قانون کا اطلاق ہے۔ نئی دہلی حکام نے 3000 پرائیویٹ بسیں کرائے پر لے کر اس شہر میں عوام کو گاڑی کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح فرانس اور دیگر ممالک بھی ایسا ہیطر عملاختیار کر رہے ہیں پاکستان کو بھی ان ممالک کی طرح آلودگی پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :