اساتذہ کے جائز مطالبات اور ”بیچ دو“ کی پالیسی

بدھ 20 جنوری 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کسی بھی شعبہ سے وابستہ لوگ عموماًسڑکوں پر کیوں آتے ہیں؟اس لئے کہ ان کی بات جائز طریقے سے نہ سنی ‘مانی جارہی ہو‘ ان کی آنکھوں میں خون کیوں اترتا ہے؟ یہ دوسرا سوال ہے جو پہلے سے جڑا ہوا ہے‘ظاہر ہے کہ جب سڑکوں پر آنے کے باوجود ان کی بات نہ مانی جارہی ہو اورانہیں مسلسل تذلیل کانشانہ بنایاجارہاہو تو پھر وہ ہرراستہ اختیارکرنے اور اپنے حق کیلئے شدت آمیز لہجے کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔

شومئی قسمت پاکستان کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتاہے جہاں احتجاج کے بنا حق نہیں ملتا‘ پھر یوں ہوتاہے کہ احتجاج کرنیوالا تھک ہار کربیٹھ جاتا ہے مگر ہمارے حکومتی کارپردان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی پھرہوتایوں ہے کہ انہی ایوانوں میں بیٹھے لوگ سمجھ کر کہ تھک ہارکربیٹھنے والوں کوجگایاجائے ‘اسی سوچ کے ساتھ پھر نیا کلہاڑا چلایاجاتا ہے۔

(جاری ہے)

پھراحتجاج ہوتاہے‘ پھرمطالبات سامنے آتے ہیں‘ پھر سڑکیں رنگین ہوتی ہیں ‘پولیس کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے ‘زن ومرد کی پرواہ کئے بنا لاتھی چارج ‘آنسو گیس استعمال کئے جاتے ہیں‘ کئی اپنے حق کے طالب زخمی ہوکر ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں پھر ․․․․․․․․․ کہانی بہت طویل ہے ہم سناتے تھک جائیں گے مگر انت نہیں آئیگا۔ یہ سلسلہ کسی ایک شعبہ یا فرد ‘گروہ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ الا ماشااللہ ہرشعبہ کے ساتھ ہے۔


پاکستان میں ایک تصورعام ہے بلکہ اس تصور میں بہت زیادہ اثر بھی پایاجاتا ہے کہ جونہی مسلم لیگ نواز برسراقتدار آتی ہے تو پھر ”بیچ دو“ کی پالیسی پر عمل شروع ہوجاتاہے‘نجکاری کمیشن قائم ہوتا ہے(بلکہ یہ پہلے سے قائم ہے مگر اسے دوبارہ منظم کرکے متحرک کردیاجاتاہے) کبھی ایک ادارے کو بیچنے کی بات تو کبھی دوسرے کی نجکاری کامعاملہ‘ کسی کے شیئر بیچے جاتے ہیں توکسی کی املاک بیچنے کامعاملہ طے پانے لگتا ہے۔

ہر ذی شعور شہری سوچنے پرمجبورہے کہ اگر گھر میں تنگی‘ افلاس ہوتو کیا گھر کے برتن تک بیچ دئیے جاتے ہیں ‘ اس گھر میں رہنے والوں کے تن بدن پر موجود کپڑے اتار کر بازار میں نیلا م کردئیے جاتے ہیں اس صورت میں جبکہ گھر کے سربراہ بہت کچھ کرنے کی ہمت رکھتاہو؟یقینا ایسا کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا ‘جہاں تک ہماری یاداشت کام کرتی ہے دوسرے ممالک میں ایسے اداروں کی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے‘ مگر ہم لوگ اورخاص طورپر مسلم لیگ ن اقتدار سنبھالتے ہی ”بیچ دو“ کی صدائیں بلندکرنا شروع کردیتی ہے۔


اداروں کی اصلاح کے ضمن میں ایک مثال سامنے موجود ہے کہ سابقہ یعنی پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں ماضی کاخوش نہال محکمہ ریلوے زبوں حالی کاشکار رہا ‘ باربار سننے کو ملتا رہا کہ اسے بیچنے کی تیاریاں جاری ہیں کبھی کہاجاتا ہے کہ ریلوے کی بیکار پڑی املاک کو بیچاجارہا ہے ‘ایسا محض اس لئے تھا کہ ایک ٹرانسپورٹر کو اس محکمے کا ولی وارث بنادیاگیا‘ مگر حکومت بدلتے ہی اس محکمے کے حالات بھی بدل گئے ۔

”بیچ دو “ کی پالیسی کے حامل کیا یہ نہیں سوچ سکتے کہ وہ خود جن اداروں کوبیچنے کیلئے تیار ہیں کیا ان کی اصلاح نہیں ہوسکتی؟ کیونکہ ان کے سامنے محکمہ ریلوے بہرحال موجود ہے
صاحبو! ان دنوں ملک کے مستقبل کی نوک پلک درست کرکے اسے رہبری کے قابل بنانے والے استاد بھی احتجاج کو تیار نظرآتے ہیں ان کا احتجاج بھی بہت مناسب اس لئے ہے کہ صوبائی حکومت بعض سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری چاہتی ہے۔

اس حوالے سے انہی اداروں کو نشانہ بنایاگیا ہے جہاں حاضری کم اور نتائج کمزور ظاہر ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ جب استاد کے ذمہ تعلیم دینے کے علاوہ بہت کچھ ”لاد “ دیاجائیگا تو وہ اپنافرض کیونکر ایمانداری سے نبھاپائیگا۔یعنی حاضری پوری کرنے کیلئے استاد کو ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹاکر طلبہ کو سکول لانا یا مجبورکرنا بھی استاد کی ذمہ داری ہے‘ پھر ان پر مانیٹرنگ کے نام پر ایک اورعذاب مسلط کردیاگیا کہ صبح سکول ٹائم شروع ہوتے ہی کبھی مانیٹرنگ کرنیوالے مسلط ہوجاتے ہیں تو کبھی چھٹی کے عین وقت پر ان کی تشریف آوری ہوتی ہے۔

سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ایک خاتون ٹیچر جب اس شدید ترین موسم میں عین وقت پر بمشکل سکول پہنچ پاتی ہے تو اس کیلئے بچوں کوگھر سے لانا اورپھر وقت پر سکول پہنچنا‘سکول کامعائنہ کرانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتاہے۔
استاد کے فرائض کی بات کرنیوالے بعض حکومتی کارپردان یہ تک نہیں سوچتے کہ ان کے کچھ حقوق بھی ہیں جنہیں پورا کرنا انہی لوگوں ‘اداروں کی ذمہ داری ہے جو انہیں ”فرائض“ یاد کرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ پاکستان ہے جہاں حقوق بھی انہی کو ملتے ہیں جس کے ہاتھ میں طاقت کی ”لاٹھی “ ہو لیکن جو بے اثر اورطاقت سے محروم ہو اسے کچھ نہیں ملتا سوائے ہاتھ ملنے کے‘ ابھی چند ہی دنوں قبل صوبائی اسمبلی میں اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کی سمری تیارکرکے وزیراعلی ٰکو ارسال کردی گئی ‘شنید یہی ہے کہ اس پر وزیراعلیٰ دستخط کرنے پر مجبورہونگے کیونکہ محض یہی ایک ”قومی ایشو “ ہے جس پرقومی‘ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اورسینٹر ز سبھی متفق ہوتے ہیں ورنہ دیگر امور پر ہرکسی کانقطہ نظر مختلف ہی ہوتاہے ۔

سوال محض اتنا ہے کہ اگر قومی خزانہ خالی ہے یا معاشی مسائل ہیں توپھر اراکین اسمبلی کو بھی ”قناعت پسندانہ “ رویہ اختیارکرنا چاہئے ‘ یا پھر یہ درس صرف عوام یاسرکاری محکموں کیلئے ہی ہے۔
اساتذہ تنظیمیں شکوہ کرتی نظرآتی ہیں کہ صوبائی حکومت ایک طرف سے ”پڑھا لکھا پنجاب“ کا نعرہ بلندکرتی ہے دوسری جانب اس نعرہ کی تکمیل کرنیوالے اداروں کو اپنے قریبی ساتھی کے ہاتھوں نجکاری کی بھینٹ چڑھاکر اساتذہ کا معاشی قتل عام کرنا چاہتی ہے‘ صوبہ بھر میں سینکڑوں سکولوں کو جب نجکاری کی بھینٹ چڑھاکر ”منشا گروپ “ کے حوالے کیاجائیگا تو کیا ان اداروں میں ملازمت کرنیوالے اساتذہ کا مستقبل محفوظ رہ سکے گاَ؟ یقینا یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کاحامل ہے۔

پیف کے حوالے سے ایک تاثرعام ہے کہ جتنے بھی نجی ادارے اس کے شکنجے میں جکڑے گئے وہ اپنا وجود اورمعیار برقرار نہیں رکھ پائے ‘سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سرکاری تعلیمی اداروں کیلئے پیف کے شکنجے میں رہ کر مسائل ‘مشکلات سے نکلنا آسان ہوجائیگا؟ یقینا یہ پالیسی میکروں اور ”مسٹرمیرٹ“ نے نہیں سوچاہوگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :