دِیوں کے قتل پہ سُورج کی ہر کِرن چُپ ہے

جمعہ 22 جنوری 2016

Muhammad Umer Qasmi

محمد عمر قاسمی

اِنتہائی تکالیف کو برداشت کرنے ، دُکھوں کی سرحدوں کو عبور کرنے کے بعد ایک ماں بچے کو جنم دیتی ہے۔نہ جانے کیسے کیسے صدمات کو جھیل کر اپنے بچوں کو پالتی ہے۔اُنہیں ایک بہتر سے بہتر مستقبل دینے کے خواب سوچتی ہے۔اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت بچپن دیتی ہے۔ہر طرح کی مصیبتوں ، حالات کی سختیوں ،بدلتے موسم کی گرمی سردی سے بچا کر رکھتی ہے۔

جب تھوڑی سوجھ بوجھ کے قابل ہو جائیں تو اپنے ہاتھوں سے اُنکا یونیفارم اِستری کر کے ، پہنا سنوار کر ،اُنگلی تھام کر مکتب کی طرف چل پڑتی ہے۔راستے میں چلتے چلتے کبھی لختِ جگر کے چہرے کو دیکھ چومتی ،مسکراتی ہے اورتصورات کی دنیا میں اچانک خواب بننے لگتی ہے کہ میں اپنے بچے کو اِتنا پڑھاؤں گی کہ اِک دن یہ بھی اپنی اعلیٰ تعلیم کے بل بوتے پر ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔

(جاری ہے)

اپنے ماں باپ، خاندان کا نام اونچا کرے گا۔کرتے کرتے وہ وقت بھی آن پہنچتا ہے جب اس کا بیٹا باچا خان یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے لگ جاتا ہے۔ چند ہی مہینوں کے بعد سوچے گئے خوابوں کی تعبیر ، ارمان ِ مادر کی دہلیز پر دستک دینے کو ہوتی ہے کہ اِتنے میں اُسے اِطلاع ملتی ہے آج اُس کے اَرمانوں کا خون ہو گیا ہے۔ وہ بچہ جسے اپنے ہاتھوں سے ُرخصت کیا تھا آج سفاک قاتلوں کے دہکتے بارود کی غذا بن گیا۔


آج وہ جسم جس پروہ اپنی ممتا سے لبریز دستِ شفقت پھیرا کرتی تھی، چارسدہ کی سر زمیں پر سرخ لہو میں رنگا پڑا ہے۔جو چند مہینوں میں خوشیوں کی دستار گھر لانے والا تھا اَب چند ہی لمحوں کے بعد گودِمادر سے مادر ِ علمی تک کا سفر طے کر کے مہمانِ بہشت بننے کو ہے۔
زیست ہے اس سحروشام سے بے زار و زبوں
لالہ ء گل کی طرح رنگِ قبا دو ہم کو
یقینا اُس ماں کا کلیجہ پھٹ گیا ہوگاجب اس نے اپنے نوجوان بیٹے کے لاشے کو سرخ خون میں سجا دیکھا ہوگا۔

آنکھوں کی بینائی نے اس منظر کو دیکھنے کے بعد ستم ظریفی پر ماتم بھی کیا ہوگا۔وہ منظر بھی یاد آیا ہوگا جب اپنے لخت جگر کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا کرتی تھی،گرنے لگے تو تھام لیا کرتی تھی۔رونے لگے تو سینے سے لگا لیا کرتی تھی،موسم کی سختی ہو یا حالات کا جبر ،اپنے نونہال کو آغوش میں لے کر خود کو پیش کر دیا کرتی تھی۔آج اس کا لاشہ سامنے پڑا ہے ،تسلی دے بھی تو کون دے، الفاظ لائے تو کہاں سے لائے ، دلاسہ دے تو کیا دے؟ شاید اس وقت بولنے کے لئے اور بیان کرنے کے لئے دنیا کی تمام زُبانوں کی ڈکشنری میں کوئی الفاظ نہیں۔


حرف تسلی اِک تکلف
جسکا درد ، اُسی کا درد
آج یقینا اس ماں نے اپنے لخت جگر کی قربانی دے کر وطن کے اَمن کی قیمت اَدا کی ہے۔اور صر ف وطن ہی نہیں پوری اُمت ِ مسلمہ کی قیمت اَدا کی ہے۔آنے والی نسلوں کے تحفظ کی قیمت اَدا کی ہے، اِنسانیت کے لئے قیمت اَدا کی ہے۔
گمراہ و سفاک قاتل، عالمی گماشتوں کے ذَر خریدکیا جانیں کہ ُان سے آج کونسا قبیح فعل سر زَد ہوا ہے۔

شاید اُنہوں نے نبی مکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کو نہیں پڑھا اور یقینا نہیں پڑھا کہ جب پیغمبرِ عظیم ترﷺ نے کہا تھا ”بلال آج ذرا کعبے کی چھت پر چڑھ کر آذان دو“ تاکہ قیامت تک آنے والی نسلوں کو پتہ چل جائے ایک کلمہ گو عظمت تو کعبے سے بھی بلند ہے۔لیکن یہاں توآج انہیں پیغمبر ﷺ کے نام لیواؤں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے۔
بہرحال حساب تو دینا ہوگا۔

اور ان دہشتگردوں ساتھ ساتھ وقت کے حکمرانوں کو بھی جواب دینا ہو گا جو اپنے معصوم شہریوں کی حفاطت کرنے میں ہر طرح سے ناکام رہے۔بلاول کا پروٹوکول ہو یا لیاری کی معصوم جان،سانحہ قصور زیادتی کیس ہو یا مظفر گڑھ میں اجتماعی زیادتی کی شکار بنت حوا کی خود سوزی۔حساب تو دینا ہوگا۔
آصفہ، بختاور سلامت رہیں، مریم و حمزہ جیتے رہیں۔تاج حکمرانی کی رعونتیں مبارک ہوں ، سیر سپاٹے مبارک ہوں۔


لیکن یاد رکھیئے! ملک میں پانی ، بجلی ،گیس ہو نہ ہو، وقت گزر ہی جائے گا مگر مفلسانہ، غریبانہ زندگی گزارنے والی ، مصائب و آلام ، دُکھ دَرد برادشت کرنے والی ماں سے جب اس کا لخت ِجگر چھین لیا جائے تو اسکے دل سے نکلنے والی آہ پر آسمان بھی کانپ جاتا ہے اورزمین بھی لرز کر رہ جاتی ہے۔
پھر اور کچھ ہو نہ ہو ، تخت شاہی سلامت رہیں نہ رہیں۔

دکھاوے کی APC ہو یا نہ ہو ، نیشنل ایکشن پلان پر درست عمل ہو یا نہ ہو۔ لیکن قدرت الہٰی ضرور جو ش میں آتی ہے۔پھر زلزلے بھی آکر رہتے ہیں، کائناتِ اَرضی بھی کانپ کر رہ جاتی ہے۔
بھر قدرت الٰہی یہ نہیں دیکھتی کہ روئے زمین پر ولی کتنے تھے،فقیہ کتنے تھے، پیر کتنے تھے، گدی نشین کتنے تھے ،وزیر کتنے تھے ، سفیر کتنے تھے ۔
پھر کَرب سے لبریز اُس غمزدہ ماں کی آہیں ہوتی ہیں یا پسماندہ ذہنیت کے حکمران۔۔۔!
دیوں کے قتل پہ سورج کی ہر کرن چپ ہے
اِس احتیاط کو جشن ِسیاہ لکھ لیجئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :