بچوں کی اموات آخر کب تک؟

منگل 26 جنوری 2016

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

صحت اور تعلیم کے حوالے سے ہمارا قومی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترداف بھی نہیں ہے اور المیہ ملاحظہ فرمائیے پلوں ،سڑکوں ، موٹر ویز اور اورینج ٹرین کے شیدائی حکمرانوں کی ترجیح یہ دو مسلے ہیں بھی نہیں ورنہ یہاں انسان سازی پر مبنی تعلیم ہوتی اور صحت مند مائیں بچوں کو جنم دیتیں۔ آج اگر ہمارے ہسپتال بیماروں سے بھرے پڑئے ہیں اور ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب قومی وحدت، تحمل اور روداری پر مبنی معاشرئے کا قیام عمل میں نہیں لاسکا تو اس کی بنیادی وجہ ان دو شعبوں کو نظر انداز کرنا ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ شعبے صوبائی حکومتوں کامعاملہ قرار پا چکے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیںآ رہی صوبائی دارالحکومت لاہور کا بچوں کاہسپتال ہو جہاں خناق کی بیماری کے باعث درجنوں بچے ہلاک ہو جاتے ہوں یا سندھ کا تھر کا علاقہ جہاں گزشتہ کئی برسوں سے ہر سال سینکڑوں بچے مر رہے ہیں جنہیں قدرت کے کھاتے میں ڈال کر ہم خود کو بری الذمہ قرار دے کرانہتائی مطمن زندگی گزارتے ہیں۔

(جاری ہے)

ابھی حال ہی میں محکمہ صحت سندھ خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں 20 روز میں اب تک 40 کے قریب بچے مختلف وجوہات کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔
غذائی قلت اور خوراک کی عدم دستیابی تھرپارکر کا ایک بڑا مسئلہ ہے، تھر میں ان دنوں نمونیا اور ہیضہ کی بیماری چھوٹے بچوں کی اموات کی بڑی وجہ بنی ہوئی ہے۔ تھرپارکر میں بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی کمی بھی ہے جس کے باعث ہسپتال دیر سے پہنچنے پر کئی بچے راستے میں ہی انتقال کر جاتے ہیں۔


جبکہ بین الاقوامی ادرئے بھی اس ضمن میں ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ دو لاکھ چونتیس ہزار بچے حمل کے آخری تین مہینوں کے دوران ہی وفات پا جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ایک ہزار میں سے تینتالیس بچے مردہ حالت میں پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ دنیا بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے۔اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ مردہ بچوں کی پیدائش پاکستان میں ہو رہی ہے۔

اس حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ برطانوی جریدے ’لینسیٹ‘ میں شائع کی گئی ہے۔ دنیا بھر کے کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں ایک ہزار بچوں میں سے اوسطاً 18,4 بچے قبل از پیدائش ہی وفات پا جاتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ تعداد حیران کن طور پر زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے محققین کے مطابق پاکستان میں بچوں کی قبل از وقت وفات یا ہلاکت کے بنیادی اسباب غربت، غذائی قلت، حفظان صحت کی سہولتوں کا فقدان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ کم عمری میں بچیوں کی شادیاں ہیں۔


پاکستان کی موجودہ آبادی تقریباً دو سو ملین نفوس پر مشتمل ہے اور اس ملک کا شمار جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جس کی آبادی سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح سن دو ہزار گیارہ کی غذائیت سے متعلق ایک قومی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ملک میں غذائی قلت کی شرح سن انیس سو پینسٹھ کے بعد سے ایک جیسی چلی آ رہی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ پانچ برس سے کم عمر کے تقریباً چوالیس فیصد بچوں کی بڑھوتری کی رفتار سست ہے جبکہ پندرہ فیصد غذائی قلت کا شکار ہیں۔عالمی بینک کے مطابق پاکستان اپنی مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد اپنے نظام صحت پر خرچ کر رہا ہے، جو کہ دنیا میں سب سے کم شرح ہے ۔پاکستان میں ماوٴں کی صحت سے متعلق سن دو ہزار پندرہ کے ایک سمپوزیم میں شریک محققین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ یہ ایک ’بین النسلی شیطانی چکر‘ ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی مائیں خود غذائی قلت کی شکار ہیں اور اپنی نوجوانی ہی میں یہ غذائی قلت کے شکار بچے پیدا کر رہی ہیں۔برطانوی میگزین کے مطابق یہ رپورٹ پانچ سائنسی جائزوں کا تجزیہ کرنے کے بعد شائع کی گئی ہے۔ رپورٹ کی تیاری میں تینتالیس ممالک کے دو سو ماہرین شامل تھے۔
دوسری جانب انسانیت کی بہتری اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے قبل از وقت بیماریوں سے مرنے اور غربت کے خاتمے جو ان تمام جرائم کی ماں ہے کے خاتمے کے لئے کوششں کرنے والے دنیا کے نیک انسانوں جن میں سر فہرست بل گیٹس کا نام نامی آتا ہے کا کہنا ہے کہ 2035 ء تک دنیا بھر میں غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور بچوں میں اموات کی شرح 1980 ء کے امریکہ اور برطانیہ کی مانند ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گیٹس فاوٴنڈیشن کے سالانہ میگزین ،،فوربز،، میں جاری ہونے والے اپنے مضمون میں کیا۔
اس سلسلے میں بل گیٹس اور ان کی اہلیہ ملیندہ گیٹس نے کچھ مفروضات بھی پیش کیے۔بل نے کہا کہ اگلے 20 برسوں کے دوران دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور کوئی ملک غریب نہیں کہلا سکے گا اور ان ممالک میں بچوں میں شرح اموات اسی سطح پرچلی جائے گی جوکہ 1980 ء کی دہائی میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں پائی جاتی تھی۔

گیٹس فاوٴنڈیشن کی اس بارے توقعات ہیں کہ وہ آئندہ 20 سال کے بعد(جب بل گیٹس وفات پاجائیں گے)اپنے 67 ارب ڈالر کے اثاثے رفاعی کاموں کے لیے وقف کر دے گی۔انہوں نے کہا کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ پوچھا جائے گا کہ فلاں ملک غریب کیوں ہے تاہم شمالی کوریا جیسے ممالک جہاں سیاست ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ،کے بارے کوئی پیشن گوئی کرنا ممکن نہیں البتہ کئی دوسرے ملکوں کے حوالے سے اچھی مثالیں بھی موجود ہیں۔

اپنے پہلے مفروضے کے حوالے سے بل گیٹس کا کہنا تھا کہ غریب ممالک ہمیشہ ایسی صورتحال سے دوچار نہیں رہیں گے ،2035 ء میں کوئی ملک غریب نہیں ہوگا اور اس کی کم ازکم فی کس آمدنی آج کی لوئر مڈل یا امیر شخص کی آمدنی ایک جیسی ہوگی۔بل گیٹس نے کہا کہ جب وہ بچے تھے تو اس وقت متعدد ممالک غریب اور سہولتوں سے محروم تھے تاہم اگلے 20 برسوں کے دوران صورتحال میں مزید بہتری آئے گی تاہم اگرغربت کے خاتمے کی صورتحال میری زندگی میں ہی آجائے تو یہ میرے لیے حسین لمحہ ہوگا۔

دوسرے مفروضے میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کیلئے بیرونی امداد دولت کا ضیاع ہے جوکہ سیاسی رہنماوٴں کو رشوت کے طور پر دی جاتی ہے کہ وہ اس کو جیسے چاہیں استعمال کریں۔ان کا کہنا تھا کہ بیرونی امداد دلچسپ سرمایہ کاری کی مانند ہے اور ہمیں اسے جاری رکھنا چاہیے،اس کے ذریعے انسانی زندگیوں کا بہتر انداز میں تحفظ اور ان میں بہتری لائی جاسکتی ہے اس کے علاوہ بیرونی امداد کے ذریعے طویل مدتی اقتصادی ترقی کا راستہ ہموار کیاجا سکتاہے۔

اپنے آخری مفروضے بارے ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کا مطلب عالمی آبادی میں اضافہ لیا جاتا ہے، اس طرز سوچ نے دنیا کو بہت سے مسائل میں مبتلاء کر دیا ہے۔ شائد ہمارے حکمرانوں کو بھی کبھی عقل آجائے اور ہم بھی ایک بہتر زندگی کی طرف گامزن اپنے بچوں کو دیکھ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :