سندھ کرمنل پراسیکیوشن ترمیمی بل

جمعرات 28 جنوری 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

حکومت سندھ نے ایک انوکھا بل پارلیمنٹ سے پاس کرایا ہے جس کے تحت وہ کسی بھی مقدمے کو عدالت کی مرضی سے واپس لے سکتی ہے۔ سندھ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان نے اس پر بڑا شور مچایا اور حکومت پر اعتراض کیا کہ اکشریت کی بنیاد پر بغیربحث کے فوراً بل کو پاس کر لیا گیا جو نامناسب ہے۔ اپویشن کی ایک بھی نہ سنی گئی۔ اس بل میں یہ ہے کہ پراسیکیوٹر ز عدالت کی رضا مندی سے کیس واپس لی سکتی ہے۔

ملزم کو بری کرا کر پراسیکیوٹر جنرل کو تقریریوں اور تبادلوں سمیت وسیع اختیارات حاصل ہو گئے ہیں اور تمام پراسیکیوٹرز ان کے ماتحت ہو نگے۔اس کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تحقیقاتی افسر سے بھی رپورٹ طلب کرنے کا اختیار ہو گا۔اگر جرم کی سزاتین سال تک ہے تو اس کے لیے اسے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر سے اجازت لینا ہو گی۔

(جاری ہے)

اور اگر سزا سات سال تک ہے تو اس کے لیے پراسیکیوٹر جنرل سے اجازت لینا ہو گی۔

دیگر تمام جرائم میں حکومت سندھ سے اجازت لینا ہو گی۔اس بل کے تحت سندھ کرمنل پراسیکیوشن سروس یعنی تشکیل، فرائض اور اختیارات ایکٹ۲۰۰۹ء میں متعدد ترامیم کی گئی ہیں۔یہ سندھ کرمینل پراسیکیوشن سروس ترمیمی بل ۲۰۱۵ء کہلائے گا۔سندھ اسمبلی میں اس بل کو متعارف ہونے کے بعد سینئر وزیر تعلیم و پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو صاحب نے یہ تحریک پیش کی کہ اس بل کی منظوری کی اجازت دی جائے۔

اس پراپویشن کے ارکان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ،نو ،نو کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ سرکاری ارکان نے فوراً سینئر وزیر کی تحریک منظور کر لی۔اس کے بعد سینئر وزیر نے شق وار اس کی منظوری حاصل کر لی ۔اپوزیشن نے اس بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ہنگامہ کیا۔ویسے تو سندھ حکومت کے وزیر اعلی صاحب نے کہا ہے کہ یہ بل اس لیے لایا گیا ہے کہ پراسیکیوشن کو بہتر کیا جائے۔

حکو مت سندھ کے وزیر اعلیٰ صاحب نے اپیکس کمیٹی کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہا کہ اس کی ہر میٹنگ میں کمزور پراسیکیوشن کی بات ہوتی تھی اس لیے پرسیکیوشن میں آسانی پیدا کرنے کے لیے سندھ حکومت اس بل کولائی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ الزام نہ لگایا جائے استغا ثہ کو طاقت ور بنانے کے لیے ترمیم کی ہے۔ سندھ پراسیکیوشن ترمیمی بل منی این آر او ہے نہ کالا قانون، بلکہ ملزمان کے خلاف گھیرا تنگ ہو گا۔

اُدھر نثار کھوڑو،سینئر وزیر حکومت سندھ نے ترمیم بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کرمنل پراسیکیوشن بل کا ڈاکٹر عاصم سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈکٹیٹرمشرف نے بھی این آر او کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کے خلاف مقدمات واپس لیے تو میڈیا کیوں خاموش تھا۔حکومت کو اختیار ہے کہ عدالت کی رضامندی سے مقدمات واپس لے سکتی ہے۔ اب ان سینئر وزیر صاحب کو کیسے بتایا جائے کہ ڈکٹیٹر مشرف کے این ار اُو کو توعدالت اعظمیٰ نے مسترد کر د یا تھا اور عدالت اعظمیٰ کے حکم کے مطابق سارے مقدمات واپس کھل گئے تھے جس میں ان کی پارٹی کے زرداری صاحب کا مقدمہ بھی ہے۔

دوسری طرف ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عجلت میں منظور کرایا گیا بل آئین و قانون کے منافی ہے ۔نون لیگ کے کراچی سے سنیٹر ،جو وکیل بھی ہیں نے کہا کہ حکومت کی نیت ٹھیک نظر نہیں آتی ،بلکہ ایک شخص یا چند اشخاص افراد کو قانون کی گرفت سے بچانا ہے چوروں اور لیٹروں کو تحفط دینا ہے۔پاکستان مسلم لیگ نون کے ہی ضلع ٹنڈو الہیار کے سینئر نائب صدر محمد اکرم صاحب نے کہا کہ سندھ اسمبلی کا ترمیم بل قومی سلامتی پر خود کش حملہ ہے ا ٓئین کی رو سے اس طرح کے کالے قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

( ق) لیگ کراچی کے ایک مقامی لیڈر جو وکیل بھی ہیں نے کہا کہ اس بل میں کئی قانونی سقم ہیں اس کی خلاف آواز بلند کریں گے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہارالحسن صاحب نے کہا کہ حکومت نے جلد بازی میں بل منظور کر لیا ہے۔اس بل کے تحت حکومت کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ کسی بھی مرحلے پر کسی کے خلاف بھی مقدمہ واپس لے لے۔

کسی بھی ایمان دار اور اچھے پراسیکیوٹر کو حکومت ایک مقدمے سے ہٹا سکتی ہے۔ اور اپنی مرضی کا پراسیکیوٹر لگا سکتی ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت کچھ مقدمات واپس لینا چاہتی ہے ۔ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ بل اس لیے پاس کیا گیا ہے حکومت ڈاکٹرعاصم کے خلاف مقدمات واپس لینا چاہتی ہے؟اپوزیشن لیڈر نے کہا وہ کسی کے خلاف بھی مقدمات واپس لے سکتی ہے۔اس بل کے پاس ہونے پر صوبائی حکومت کرپشن پکٹرنے والے اداروں سے بھی حکومت رپورٹ طلب کر سکتی ہے اور جب رپورٹ اس کو حاصل ہو جائے گی تو اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے اس رپورٹ پر اگلا قد م، جو یقینی طور پران کے لوگوں کی حمایت میں ہو گا، اُٹھانے میں صوبائی حکومت کو آسانی ہو گی۔

عمومی طور پر اس بل کو پاکستان کے لوگوں نے یک طرفہ اور کالا قانون کہا ہے اور حکومت سندھ کی نیت پرشک کا اظہار کیا ہے۔اس بل کو محمود اختر نقوی صاحب نے عدالت اعظمیٰ میں چیلنج کر دیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ، چیف سیکرٹری ،اور اپوزیشن لیڈر کو فریق بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد کرپٹ عناصر کو قانون کی پکڑسے بچانا ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ اختیارات کے غلط استعمال پر قائم علی شاہ ، شہلا رضا اورنثار کھوڑو کو نا اہل اور ترمیم کوکالعدم قرار دیا جائے۔

پیپلز پارٹی کی وضاحتوں کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بل مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔سندھ کی حکومت اس بل کے تحت کسی بھی ملزم کا کیس باآسانی عدالتوں سے خارج کروا سکتی ہے۔ تحریک انصاف اس بل کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔مسلم لیگ فنکشنل کی رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی صاحبہ کا کہنا ہے کہ اس بل کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ترمیم بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی مجرموں کو چھڑانے کے بجائے گرفتاری کا ٹاسک لے۔موجودہ ترمیم بل سے قانون شکنی کی حوصلہ افزائی ہو گی۔سندھ اسمبلی کی طرح دوسری اسمبلیوں نے بھی اگر ایسے بل پاس کروا لیے تو کوئی مجرم جیل میں نہیں رہ سکے گا ۔سنی اتحاد کونسل پاکستان چیئرمین صاحب زادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ مجرموں کو بچانے کے لیے سندھ اسمبلی میں کالی قانون بنائے جا رہے ہیں۔

سانگھڑ میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر سید علی گوہر راشدی نے کہا کہ مجرموں کو بچانے لے لیے سندھ اسمبلی میں بل پاس کیا گیا ہے پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت دو ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی آصف زرداری پھر سے جیل میں ہوں گے۔یہ تاثر عام ہے کہ پیپلز پارٹی کے چند رہنماؤں اور مخصوص بیورو کریٹس کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے جن کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات چل رہے ہیں۔

صاحبو! کیا کہا جائے جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر کرپشن کے مقدمات کی بھر مار ہے پھر بھی پیپلز پارٹی اپنے لوگوں کو بچانے کی ہمیشہ کو شش کرتی رہتی ہے کچھ دن پہلے نیپ کی طرف سے بات سامنے آئی تھی کہ زرداری صاحب کے مقدمے میں ریکارڈ ہی نہیں مل رہا جو شاید زرداری حکومت کے دوران گم کر دیا گیا تھا۔ نیپ نے کہا تھا کہ ریکارڈ کی عدم موجودگی میں ہم کیس کیسے چلائیں۔

برطانیہ میں پیپلز پارٹی کے لگائے سفیر نے سرے محل کے کاغذات کوگاڑی میں ڈالتے ہو ئے میڈیا نے دکھایا تھا۔پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظم حضرات پر اب بھی عدالتوں میں مقدمے چل رہے ہیں۔کراچی میں کرپشن کے الزام میں پکڑے گئے مجرموں نے میڈیا کے اندر آ کر بیان دیا تھا کہ کرپشن کے پیسوں کا کچھ حصہ بلاول ہاؤس کو دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے باغی سابق سندھ کے وزیر داخلہ روز، روز زرداری صاحب کی کرپشن کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں ۔

تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اب جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری صاحب نوجوان قیادت نے پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ کو سمبھال لیا ہے اور سارے ملک کے دوسروں کا پروگرام بھی بنایا ہے تو ضرورت تو اس بات کی تھی کہ کرپشن کے الزامات سے پیپلز پارٹی کو صاف کیا جاتا اور پیپلز پارٹی پھر سے اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو پاکستان میں بحال کرتی مگر پیپلزپارٹی اپنی پرانی روش چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور اپنے کرپٹ لوگوں کے لیے سندھ کرمنل پراسیکیوشن ترمیمی بل جیسی قانون سازی کرکے اپنی پوزیشن بد سے بدتر کر رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :