انعام الہی اثر: ایک عہد ساز شخصیت

پیر 1 فروری 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اسے بد قسمتی سمجھ لیجئے یا معاشرے کے تباہی کی طرف بڑھتے ہوئے آثار کہ ہم لوگ ، دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے والے ، بے کس و بے آسراء ، یتیموں ، مسکینوں اور محتاجوں ، ذہنی امراض میں مبتلا افرادجنہیں اپنے گھر والے بھی برداشت نہیں کر پاتے ،لوگوں اورعلاج کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھانے والی مخلوق خدا کی داد رسی، سر پر ہاتھ اور حقیقتاََ انکے لئے آسانیاں پیدا کر نے والے لوگوں سے محروم ہو تے جا رہے ہیں ۔

بظاہر بوڑھے نظرا ٓتے لیکن جوانوں کی سی ہمت رکھنے والے حاجی انعام الہی اثر کا نام بھی انہی لوگوں میں سر فہرست ہے جن کا اس دنیا سے چلے جانا مخلوق خدا کے لئے ایک ایسا نقصان ہے جسے لفظوں میں بیان کر نا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔
ایسے لوگ ہمیشہ کسی اللہ والے کے زندگی کے حوالے سے نسخہ ء کیمیا ”: ہمیشہ خلقت کی بہتری چاہو، اللہ تمہارے دشمنوں کو تمہارا مطیع کر دے گا۔

(جاری ہے)

نیکی ایسے کرو جیسے بارش جگہ نہیں دیکھتی بلکہ ہر جگہ کو سیراب کر دیتی ہے ۔ یاد رکھو!تمہارے ہر عمل سے ثابت ہو نا چاہئے کہ تم رب رحمان کے ماننے والے ہو“کو زندگی کا حصہ بناتے ہوئے بغیر کسی لالچ و طمع کے لوگو ں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ فاؤنٹین ہاؤس اور حجاز ہسپتال، ایسے درجنوں رفاہی ادارے ہیں جن کی پشت پر حاجی صاحب سینہ چوڑا کئے ، اپنے تما م مال و اسباب کے ساتھ کھڑے نظر آتے رہے ۔

بالکل با رش کی طرح ہر جگہ کو سیراب کرتے ہوئے نہ صرف اپنے کاروبار بلکہ اپنی وراثت کی جائیدا د بھی ایسے اداروں کے نام وقف کر رکھی تھی ۔
قارئین کرام !مجھے کا فی عرصہ پہلے ایک جگہ ان کے بارے پڑھے جانے والے مضمون کی چند لائنیں ابھی تک یاد ہیں جس میں حاجی صاحب نے اپنے اندر کوٹ کوٹ کے بھرے جذبہ خد مت خلق کے پیچھے چھپے راز کو آشکار کیا :”جب میں 16سال کی عمر میں اپنے گھر چنیوٹ سے دو ہزار میل دور کلکتہ شہر میں بسلسہ روزگار گیا تو دیار غیر میں مجھے بے پنا ہ مشکلات کا سامنا کر نا پڑا ۔

کلکتہ میں ناریل کی شراب اور پان بیڑی کا استعمال عام تھا لیکن ماں جی کی اس نصیحت :”بے شک بُرائی سے بچنا ہی انسانی عظمت کی دلیل ہے ، بُرائی سے بچنے والے کو اللہ بھی پسند کر تا ہے“نے ہر بُرائی سے دور رکھا۔ 1959میں جب میرے کاروباری حالات اچھے نہ تھے میری ماں نے حج کی خوا ہش کا اظہار کیا ، مالی استطا عت نہ ہو نے کی وجہ سے بھی ماں جی کو انکار نہ کر سکا اورادھر ادھر سے ادھار پیسے پکڑ کر ماں جی کے ساتھ حج پر روانہ ہو گیا۔

حج سے واپسی پر ماں جی نے نصیحت آمیز لہجے میں کیا:”کاروبار میں کامیابی کے لئے انسانوں کی خدمت اور دین کی سر بلندی کے لئے کاوشیں کرتے رہو ،اللہ تمہیں بہت عزت دے گا“۔
انسانوں سے محبت کا جذبہ انہیں بچپن سے ہی وراثت میں مل چکا تھا اور یہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ بھی چکے تھے کہ بقول واصف :خالق جس پر رحم کر تا ہے اسے اپنی مخلوق کی خدمت کر نے کا موقع دیتا ہے ،اور جس پر غضب کر تا ہے اسے مخلوق پر ظلم کر نے کی ڈھیل دے دیتا ہے ۔

دراصل مخلوق خدا کا یہ حق ہے کہ اس پر رحم کیا جائے ۔ جو رحم نہیں کرتا وہ مخلوق کے حقوق غضب کرتا ہے اور جو مخلو ق خدا کے حقوق غضب کرتا ہے وہ خالق کے غضب میں ہو تا ہے ۔
حاجی انعام الہی اثر بھی اس حقیقت کو پہلے ہی سمجھ گئے تھے اور یوں وہ اپنی پوری زندگی لوگوں پر رحم کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری زندگی اللہ کی رضا اور مخلوق خدا کی خدمت میں صرف ہوتی رہی ۔

ان کا اٹھنا بیٹھنا، سو نا جاگنا، با ت چیت کر نا حتی کہ ہر عمل لوگوں کو آسا نیاں کس طرح فرا ہم کی جائیں ؟ اس سوچ میں ڈو با ہو ا نظرا ٓتا تھا ۔
قارئین! حاجی صاحب کی تما م زندگی اس بات کا عکاس تھی کہ وہ نا م کے ساتھ ساتھ اللہ کے ایسے لوگوں میں شامل تھے جن پر انعام کیا گیا، ان کی تمام زندگی لوگوں کے لئے راہ ہدایت تھی، یہی وجہ ہے کہ ایک دو نہیں بیسیوں لوگ اس رو شنی سے فیضیاب ہو کر حاجی صاحب کے دست و باز و بنتے ہوئے انعام یافتہ لوگوں کی شاہراہ کا مسافر بنے ۔

مجھے یقین ہے کہ اربوں نیکیوں کے علاوہ ان کے نامہ اعمال میں اس بات کا ثواب بھی درج ہو گا کہ کئی دنیا داروں اور امیر زادوں کو انہوں نے غریبوں کو سینے سے لگانے والا بنا یا ۔
بے شک جس طرح دنیا میں ان کا استقبال انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ہو تا تھا ،اپنے اللہ کے ہاں بھی یہ اسی استقبال کے مستحق ٹہریں ہوں گے اور وہاں کے در و دیوار ضرور اس آیت کریمہ سے گونج اٹھیں ہو نگے:اے نفس مطمئن !اپنے رب کی طرف آؤ،اس طرح کہ تو اپنے رب سے راضی اور تیرا رب تجھ سے راضی، میرے بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہو جاؤ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :