متفرقات

منگل 16 فروری 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

#پانچوں انگلیاں برابر#
سنتے آئے ہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر ہوتی ہیں ‘اس حوالے سے احباب انگلیوں کی ترتیب کی مثال دیاکرتے ہیں کہ چھوٹی بڑی درمیانی انگلیوں کے علاوہ چھونگا (چھوٹی انگلی) اور پھر انگوٹھا ‘ سب کا ”قد“ برابر نہیں مگر ایک بہت ہی سیانے دوست سے ملاقا ت ہوئی ‘ کہنے لگا کہ دیکھو لوگ کہتے ہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں مگر میں کہتا ہوں کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب پانچوں برابر ہوجاتی ہیں‘ ہم نے حیرانی سے پوچھا وہ وقت کونسا ہوتا ہے ‘جواب ملا” کھانے کا “ یہ کہتے ہوئے اس نے پانچوں انگلیوں کی پوروں کو ملاکرکہا کہ ”یوں“ بات تو اس وقت خیر کچھ سمجھ میں آئی اورکچھ نہیں مگر اللہ بھلاکرے پنجاب اسمبلی کے اراکین کا ‘ ان حضرات نے یہ مثال سچ کردکھائی ‘وہ یوں کہ ہرمعاملے میں اختلاف رائے رکھنے‘ ماردھاڑ‘ چیخ وپکار‘ شور شرابا رکھنے والے یہ احباب ایک معاملے میں اکٹھے نظرآئے ‘معاملہ بھی چونکہ سب کا ”سانجھا“ تھا ‘یعنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کامعاملہ‘ سو پانچوں انگلیاں کھانے کے وقت اکٹھی ہوہی گئیں
#بھئی !ویلنٹائن ڈے کیوں نہ منائیں#
چودہ فروری خون سے بھرے دل اورپھر سرخ پھولوں‘ سرخ لباس پر مبنی ”ویلنٹائن ڈے “ کہلاتا ہے‘ ہمارے ہاں کے لوگ اس حوالے سے دو رائے رکھتے ہیں ایک طبقے کے مطابق ویلنٹائن ڈے محبت بھرا دن ہے اسے منانا چاہئے آخر نفرتوں کو کس قدر جگہ دی جاسکتی ہے‘ بات تو ان کی درست مگر یہ محبت وہ والی نہیں ہے جس کا ذکر کیاجاتاہے‘ خیر دوسرے طبقے کے مطابق پھولوں‘ دل نما بڑے بڑے غبارے لگاکر ‘سرخ گلاب سجا کر جس قسم کا محبت بھرا دن منایاجاتاہے وہ ہماری سوسائٹی ‘کلچر کا حصہ نہیں اور نہ ہی یہ ہمارے مذہب سے میل کھاتا ہے۔

(جاری ہے)

بات ان کی بھی درست ‘ ارے بھائی جو محبت بھرا دن مناناچاہتا ہے دل کھول کر منالے اورجو نہیں مناناچاہتا نہ منائے‘ بلکہ ہماراخیال تو یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے ہی کیوں ‘ہمارا باقی 364دن بھی محبت کی نذر ہوناچاہیں ‘ نفرتوں کیلئے اب دلوں میں جگہ نہیں ہونی چاہئے مگر ٹی وی چینلز پر‘ خصوصی محافل میں جس قسم کی ”محبت “ اجاگر کی جاتی ہے ۔

اس پر سوائے ”اف اللہ“ کے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے‘ ایک ویلنٹائر سے گپ شپ کے دوران پوچھ لیا کہ کتنی دلچسپی تھی تمہاری ویلنٹائن ڈے میں ‘کما ل کی حس رکھتے ہو بھئی‘ وہ نوجوان تھوڑا ”چوڑا “ ہوگیا ‘ کہنے لگا ” بہت خرچہ کیا ‘دل والے غبارے لگائے‘ سرخ پھول اکٹھے کئے‘ ہم نوالہ ‘ہم پیالہ دوستوں کو اکٹھا کیا کچھ لڑکیاں بھی تھیں ‘بس بہت مزہ آیا ‘یوں سمجھ لو باقی کے 364 دنوں کیلئے سواد باقی رہ گیا‘ ہم نے کچھ سوجھتے اورکچھ سوچتے ہوئے کہا ”لیکن یار تمہاری اپنی ہمشیرہ بھی تھی وہاں یا پھر امی یا․․․․․․․ ؟؟“ نوجوان پہلے چونکا اورپھر غصے سے بھری آنکھوں سے تکتے ہوئے بولا”بکواس بند کرو․ میری بہن بھلا کیوں ویلنٹائن ڈے منائے گی‘ ہمارا گھرانہ بہت ہی شریف ہے‘ ہم عزت دار لوگ ہیں“
اس بارے میں تشریح کی ضرورت نہیں کہ ہمارا دوسروں اور اپنے حوالے سے معیار کس قدر مختلف ہے۔


#میثاق جمہوریت کے اثرات ختم ہوگئے‘ اب سیاست شروع ہوگی#
اللہ بھلاکرے محترمہ بینظیربھٹو کا ‘ بی بی بہت ہی سیاسی دانش رکھتی تھیں‘ جب ان کے دیرینہ حلیف (بلکہ رویوں سے یوں لگتا تھا کہ دیرینہ دشمن ہوں)نوازشریف جلاوطن ہوئے تو پھر دونوں کو خیال آیا کہ دشمنی چھوڑکر ”راکھی بند ھ بہن بھائی “ بن جاناچاہئے سو اس کے بعد راکھی کے نام پر ”میثاق جمہوریت“ سامنے آیا اور پھر اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو سابق صدر آصف زرداری کے بقول (جب وہ بطور صدرکرسی سے اترے) ”میں یہ پانچ سال آرام کرونگا اورپھر اس کے بعد میری سیاست شرو ع ہوگی“ مگر شاید دونوں جماعتوں کو اس ”راکھی “ سے چھٹکارے کی بڑی جلدی ہے سو ‘ دونوں ہی کوشش میں ہیں کہ بس اب ”فرینڈلی سیاست“ ختم اور ”حقیقی یعنی مولاجٹ سیاست “ شروع کردینی چاہئے‘ بات کراچی آپریشن سے شروع ہو ئی اور اب معاملہ کوٹلی جیسی دھینگا مشتی تک آن پہنچا ہے اور چھوٹے بروا بھی بول پڑے ”ن لیگ اتناظلم کرے جتنا کل برداشت کرسکے“ آنیوالا کل بتارہا ہے کہ بس اب نوے کی دہائی کی گرماگرمی اور نمکین جذبات پر مشتمل سیاست پھر سے انگڑائی لے رہی ہے اورہوسکتاہے کہ پانچ سال پورے ہونے سے پہلے ہی سیاسی میدان گرم ہوجائے
#سوشل میڈیا والوں کی بھی سن لو#
سوشل میڈیا کے حوالے سے دونوں طرز کے میڈیا ( الیکٹرانک‘ پرنٹ ) کاخیال ہے کہ یہ بچہ ابھی عقل کا کچہ ہے لہٰذا اس کی تربیت کی ضرورت ہے‘ اولاً دونوں ہی اسے تسلیم کرنے سے انکاری تھے مگر اب ”بڑے زوروں سے منوایاگیا ہوں“ کے مصداق نہ صرف میڈیا کی دونوں اصناف سے لوگ نہ صرف ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں بلکہ ان سے وابستہ شخصیات بھی بڑے ہی تواتر سے سوشل میڈیا کی زینت بننے لگی ہیں نہ صرف بلکہ اب تو کئی سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ ”سوشل میڈیاونگ“ بھی بنادئیے‘ ان ونگز کے کام کی تو خبر نہیں مگر اتنا پتہ ضرور ہے کہ مخالف کی ماں بہن کو ایک کرنا اور پھر اپنی نااہلی کو مخالف کے کھاتے میں ڈالنے کی روایت اب بہت زیادہ چل نکلی ہے ‘ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو سیاسی جماعتیں اور میڈیا سے منسلک لوگ سوشل میڈیا کی تربیت کی بات کرتے تھے وہ خود جس قسم کے رویوں کے حامل ہیں ‘اس پر سوائے توبہ توبہ کے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔

پتہ نہیں ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی تربیت کس کی ذمہ دار ی ہے‘ یہ کوئی نہیں جانتا ‘ بلکہ ایک کارکن نے تو یہاں تک کہہ دیا”ہمیں لاہور بلواکر باقاعدہ کہاگیا ہے کہ تم نے فلاں فلاں جماعت کو اس طرح سے رگڑا دینا ہے(وہ نوجوان جس قسم کے اشارے کررہاتھا ان کی وضاحت ہمارے بس کی بات نہیں) یعنی ہم ابھی تک یہ طے نہیں کرسکے کہ تربیت کس کی ضروری ہے میڈیا کی تینوں اصناف سے منسلک لوگوں کی یا پھر سیاسی جماعتوں کی؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :